ملک انشااللہ انتخابات کی طرف گامزن ہے، گزشتہ چار سالوں میں کی جانے والی تمام کوششیں جو جمہوریت کی بساط کو الٹنے کی ہوئیں وہ تمام ناکام ہوئیں، اس میں ملک کی معیشت کو نقصان بے انتہا ہوا مگر حزب اختلاف کے نزدیک غل غباڑہ کرنا معشیت کی مضبوطی سے زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ ملک میں انتخابی موسم شروع ہوچکا ہے مگر اس میں عوام اور ملک کی بہتری کیلئے کسی پروگرام کا دیا جانا انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوںکی جانب سے ضروری نہیں سمجھا جارہا بلکہ سیاست دانوں کی حرکتیں، تقاریر، میں سخت ترین مایوسی کا عنصر نظر آرہا ہے جو مسقبل کی نسلوں اور نوجوان نسلوں کیلئے تباہ کن ہے جسکا کوئی نعم البدل نہیں ماسوائے کہ سیاست دان جمہوری روائت کی پاسداری کریں، موجودہ حکومت کو چند ماہ مزید دینے کے بجائے تمام ہی سیاسی جماعتیں اچانک عجیب عجیب حرکتوں پر اتر آئی ہیں جو جاہلانہ سوچ کی طرف اشارہ دیتی ہیں۔ لاہور کا منعقدہ جلسہ جو کسی پاکستانی نے نہیں بلکہ کینڈین ’’علامہ ‘‘ نے طلب کیا جنکے قول و فعل میں ہمیشہ تضاد رہا ہے ، ملک کی دیگر جماعتیںبھی شامل ہوگئیں، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف و دیگر جماعتیں جنکا ملک کی اسمبلیوںمیں حصہ ہے انکا جمہوری روائت کے تحت احتجاج کرنے کا حق بنتا ہے اگر وہ مثبت ہو تو مگر کسی غیرملکی کو یہ حق صرف پاکستا ن ہی دیتا ہے کہ جسکا موقع لگے منہ اٹھا کر پاکستان آکر احتجاج کا ڈرامہ کرتاہے جو صرف اور صرف sponsored ہوتا ہے۔ اس جلسے میں جو زبان استعمال کی گئی اس سے مایوسی کی شدید ’’بو‘‘ آتی ہے جسکی کئی وجوہات ہیں سب سے بڑی وجہ جلسے میں ناکافی عوام کی تعداد ، ویسے تو جلسوں کا بڑا ہونا کسی کامیابی کی دلیل نہیں ورنہ گزشتہ تیس سالوں میں جو دیکھا ہے اس میں سب سے بڑے جلسے جماعت اسلامی کے ہوتے ہیں مگر انتخابات میں سوائے چند نشستوں کو کبھی واضح کامیابی نصیب نہ ہوسکی ، تحریک انصاف بھی جلسے بڑے بڑے کرتی ہے مگر اسکی وجہ وہاں کا ’’ماحول‘‘ ہوتا ہے جو لاہور کے اس جلسے میں نہیں تھا اور خواتین اور مردوں کے درمیان پارٹیشن تھا۔ نیز چند دن قبل کا تحریک انصاف کا بڑا عظیم الشان جلسہ جو چکوال میں ہوا اور شیخ رشید جیسے غریب آدمی نے وہاں کامیابی کے نتیجے میں ایک من مٹھائی لانے کا اعلان کیا اس میں مسلم لیگ ن کی کامیابی اور تحریک انصاف کی عبرتناک ناکامی، مسلم لیگ کے کامیاب امیدوار نے 2013 میںمسلم لیگ ن کو ملنے والے ووٹوں سے کہیں زیادہ اکثریت حاصل کی، عمران خان، شیخ رشید کو مایوسی کی انتہا تھی جبکہ جہانگیر ترین تو خوش ہوئے ہونگے کہ ایک من مٹھائی کے پیسے تو انہوں نے ہی دینے تھے، اس صوتحال میں ناکام سیاست دان عوام کو براہ راست گالی تو نہیں دے سکے اسلئے بلاواسطہ گالی بک دی اور اسمبلیوںکو لعنت بھیج دی، شیخ رشید ان لعنتی اسمبلیوں سے ساڑھے چار سال تنخواہ اور مراعات وصول کرتے رہے، عمران خان خود بھی بلکہ وہ تو اسمبلیوںکا بائیکاٹ کرکے بھی تمام پی ٹی آئی کے اراکین مراعات لینے سے انکاری نہیں ہوئے ۔2017 میں اسمبلیوں کے اجلاسوں میں عمران خان صرف چار دفعہ تشریف لائے۔ جب بھی آئے غل غباڑہ ساتھ لیکر آئے۔ مایوسی ایک اور واضح وجہ کہ ایمپائر کی انگلی کے شوقینوں کو کوئی انگلی اٹھنے کی کہیں سے امید نظر نہیں آرہی، جلسہ ایک چوںچوںکا مربعہ تھا، پی پی پی جو سیاسی میدان سے غائب ہے وہ اپنی وجود کی جنگ لڑ رہی ہے، آصف علی ذرداری ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں اب یہ تجربہ کاری مثبت ہے یا منفی اسکا فیصلہ عوام کرسکتے ہیں چونکہ اس جلسے میں شرکت کرکے انہوں نے عمران خان کو ووٹوںکو عمران خان سے مایوس کیا، طاہر القادری جو چند سال پہلے گلا پھاڑ کر کہتے تھے کہ ’’زرداری میں تمھاری اصلیت سے واقف ہوں‘‘ کو بھی انکا مقام دکھانا تھا اسٹیج پر جوکچھ ہورہا تھا اور طاہر القادری sponsored سیاست ناکام ہورہی تھی کہ دونوں جماعتوں کے لوگ اسٹیج پر قریب بیٹھنے کو بھی راضی نہ تھے۔ جب عمران تقریر کرتے ہوئے اسمبلیوںکو لعنت بھیج رہے تھے ، اسوقت پی پی پی کے بقراط اعتزاز احسن جو اپنے آپ کو جمہوریت اور اداروں کا روح رواںکہتے ہیں خاموشی سے بغیر احتجاج کی یہ سب کچھ سنتے رہے۔ بعد میں تو ہر کوئی بیان ہی دیتا ہے۔ ایک مذاق پاک سر زمین پارٹی کے کمال صاحب نے کمال کردیا بلدیہ ٹائون کراچی کے واقعہ کا جواب دیئے بغیر لاہور کے 14 شہداء پر احتجاج کرنے وہ خود اورجناب فاروق ستار کی جماعت بھی وہاںپہنچ گئی، یہ ہی صورتحال پاکستان میںجمہوریت کے رکھوالی کے دعویدار شہداء کی پارٹی کے سربراہ آصف علی ذرداری کی بھی تھی سانحہ بلدیہ انکی صوبائی حکومت آج تک حل کرکے مجرموںکو سزا نہیں دے سکی بلکہ حال میں نوجوانوں کی موت کے ذمہ داروںکو سزا نہ دے سکی وہ بھی شہداء لاہور کو چار سال بعد یاد کررہے تھے۔ اس جلسے سے اور اسکی کاروائی میں نہیں سمجھتا کہ شہداء کے معاملات کو کوئی تقویت ملی بلکہ ان سب جماعتوںنے اپنا اصل دکھا کر شہداء کے مقدمے کو کمزور کردیا ۔ یہ مایوسی صرف حزب اختلاف میں نہیں بلکہ حکومتی حلقوں میں بھی ہے خاص طور میاں نواز شریف میں جس میں اقامہ کا معاملہ، عدالتوں کے روئیے کو بھول نہیں پا رہے، اور نہ جانے کس کا ذکر کرتے ہیں جو عدالتوں کے علاوہ بھی انکے خلاف سازش کررہا ہے۔ عدالتیں بھی سینہ ٹھوک کر انکے سامنے ہیں جنہیں یہ نہیں پتہ کہ ’’حمزہ شریف کون ہے ‘‘ رکاوٹیں ہٹانا بہت اچھی بات ہے شہریوںکو آسانی ہوگی مگر کئی سالوں سے کراچی میں آصف علی ذرداری اور بلاول کی رہائش گا ہ کی پوری ایک جانب کی سڑک ہی بند کردی گئی مگر شائد انہوںنے اپنے سیکورٹی گارڈز کے نہانے کا بندوبست علیحدہ کر رکھا ہے چونکہ حمزہ شریف پر ہی اعتراض تھا شکائت کنندہ کا کہ انکے گارڈز سڑک پر برہنہ ہوکر نہاتے ہیں۔ اگر سیاست دانوںکے رویئے اور زبان یہ ہی رہی جو طاہر القادری جلسے کی ناکامی پر استعمال کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کے کپڑے پھاڑنے اور انکے تکہ بوٹی کرنے کی دھمکی دی مگر سیاست دان تو صرف دھمکی ہی دیتے ہیں، شہباز شریف نے بھی کہا تھا کہ اقتدار میں آکر آصف علی ذرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لائینگے، ایک ٹیڈی پیسہ لانے کی کاروائی بھی عمل میںنہ آئی۔ایک خوش کن افواہ سنی تھی کہ طاہر القادری کو exit control لسٹ میں ڈال دیا گیا، مگر ہمارے ملک کو enty control list کی بھی ضرورت ہے!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024