اےک فوجی رےٹائر ہوجائے تو وہ فوج چھوڑ دےتا ہے لےکن فوج اُس کے اندر سے نہےں جاتی۔ اےسے ہی اےک قلم کار فوج مےں چلا جائے ےا فوج سے باہر آجائے تو قلم اور کتاب سے اُس کا رشتہ جڑا رہتا ہے۔ اس دلےل کی مثالےں کسی اےک رےجن مےں نہےں بلکہ دنےا بھر کی تارےخ مےں ملتی ہےں۔ مثال کے طور پر تقرےباً چار سو قبل مسےح میں ےونان مےں اےک نوجوان تھا جس نے اپنے وقت کی فوجی سروس کی اور فےلڈ آپرےشنز مےں بھی حصہ لےا۔ فوج سے باہر آنے کے بعد اُس سابق سپاہی نے سوسائٹی کو سوچنے کی دعوت دی۔ اُس نے خود تو کچھ نہ لکھا لےکن آئندہ زمانے مےں غوروفکر کرنے والوں کو لکھنے کیلئے بہت سے موضوعات دے گےا۔ آج اُسے ہم ” سقراط“ کے نام سے جانتے ہےں۔لہذا ےہ اےک تاریخی سچ ہے کہ تحریرکے ردی ہونے ےا تاریخی ہونے کا فیصلہ تاریخ ہی کرتی ہے۔ پاکستان کی عسکری تارےخ مےں بھی بےشمار ستارے موجود ہےں جن کے نام کتاب کی دنےا کے حوالے سے روشن ہےں۔ اگر فوجی نثرنگاروں کا ذکر کرےں تو محمد خان، شفےق الرحمان، اشفاق حسےن، صدےق سالک اور ابن الحسن وغےرہ نماےاں ناموں مےں سے چند ہےں۔ عسکری شعبے مےں لکھنے لکھانے کے ایسے ”سلسلہ قلمےہ“ کے اےک ”بااثرپےر“ صولت رضا بھی ہےں جو پاک فوج مےں تےن دہائےوں سے زائد کا عرصہ گزارکر برےگےڈےئر کے عہدے سے رےٹائر ہوئے۔ اُنکے بارے مےں ےہ لکھنا مشکل ہے کہ انہےں اےک پےشہ ور فوجی کہا جائے ےا اےک مستند لکھاری کےونکہ اُن کی زندگی کے ےہ دونوں روپ اپنی اپنی جگہ پوری آب و تاب سے چمک رہے ہےں۔ صولت رضا مست جوانی کے دنوں مےں پنجاب ےونےورسٹی کی نہر کنارے کی نوخےز گھاس کے ساتھ چھےڑ چھاڑ کرتے اچانک اےبٹ آباد کاکول جاپہنچے۔ آرمی جوائن کرنے سے پہلے پنجاب ےونےورسٹی کے شعبہ صحافت مےں صحافی بننے کی مشقت سے لوگ صولت رضا کی صحافتی تحرےروں سے کچھ نہ کچھ متعارف ہوچکے تھے۔ رےٹائرمنٹ کے بعد اُنکے اندر کے صحافی نے پھر انگڑائی لی اور وہ قلم دوات کو زےراستعمال لے آئے۔ برےگےڈےئر (ر) صولت رضا نے مختلف اخبارات مےں ”غےرفوجی کالم“ کے عنوان سے کالم لکھنے شروع کئے۔ انکے 2003ءسے 2008ءتک کے چےدہ چےدہ کالموں کا مجموعہ ”غےرفوجی کالم“ کے نام سے ہی پورب اکادمی اسلام آبادنے حال ہی مےں شائع کےا ہے۔ صولت رضا تجزےہ کرنے کی صلاحےت کے ساتھ ساتھ حساس عہدوں پر بھی فائز رہے ہےں۔ اس لئے پڑھنے والے اُنکی تحرےروں کو توجہ سے پڑھنے پر مجبور ہوتے ہےں۔ وہ اپنے کالموں مےں اےک مشاق برےگےڈےئر اور کہنہ مشق صحافی کا منفرد انداز بےک وقت رکھتے ہےں۔ صولت رضا اپنے کالموں مےں جب کھلے تجزےئے کی بجائے پوشےدہ تجزےئے پر گزارہ کرتے ہےںتو ےہ کھلا تضاد نہےں بلکہ اُنکے 32 سالہ پےشہ ورانہ ماحول کا مزاج ہے جوکہ غےرفوجی کالموںکو اےک نےا اسلوب عطا کرتا ہے ےعنی کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے۔ صولت رضا فوجی افسران کے حولے سے کالم لکھتے ہوئے انہےں دو واضح حصوں مےں تقسےم کرلےتے ہےں۔ اےسے فوجی افسران جو ڈسپلن کی خلاف ورزی مےں شامل ہوئے انہےں کالم نگار ناپسندےدہ خانے مےں ہی رکھتے ہےںجیسا کہ انکے اےک کالم ” پہلی نا کام فوجی بغاوت “سے پتا چلتا ہے جبکہ وہ افسران جو فوجی ڈسپلن کے تحت بعداز فوج بھی مزاجاً فوجی ڈسپلن کی زندگی گزارتے رہے انہےں وہ پسندےدہ جگہ دےتے ہےں۔ جےسا کہ وہ کرنل (ر) قلبِ عباس کے زےرعنوان کالم مےں اپنے ہمسفر ساتھی سابق فوجی کرنل (ر) قلب عباس کا حج بےت اللہ کا ذکر بڑی عقےدت سے کرتے ہےں۔صولت رضا کا لگے بندھے ڈسپلن کو لاشعوری طور پر جاری رکھنا اُنکے غےرفوجی کالموں کا نماےاں پہلو ہے۔ ´صولت رضا کے کالموں مےں آسان اور مشکل باتےں سےدھے سادے انداز مےں بالکل ناک کی سےدھ مےں کردی جاتی ہےں۔ وہ صحافتی تفتےش ےا تحقےق کیلئے اِدھر اُدھر تانک جھانک کرنے کے عادی نظر نہےں آتے۔ سامنے دےکھ اور سےدھے چل والی بات غےرفوجی کالموں کو بھی سےدھا سیدھا چلاتی ہے۔ صولت رضا کے کالموں مےں اےک سولجر کی پروفےشنل لائف جھلکتی نظر آتی ہے۔ وہ کالموں مےں بھی سےنئر کو سےنئر ہی مانتے ہےں۔کالم نگار صولت رضا آجکل کی صحافت مےں موجود ”اکڑخانی“ اور دنگافساد سے اپنے آپکو بچائے ہوئے ہےں۔ وہ رواےتی اقدار کی پاسداری کرتے ہےں اور دوسروں کا ذکر کرتے ہوئے احترام کو ملحوظ خاطر ضرور رکھتے ہےں۔ تہذےبی بڑے پن کا مظاہرہ اُنکے کالموں مےں جابجا محسوس کےا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے اساتذہ کو وہی احترام دےتے ہےں جس کی ہداےت سب اخلاقی کتابوں مےں کی گئی ہے۔ اس حوالے سے ”وارث مےر صاحب کی ےاد مےں“ کے نام سے لکھا گےا کالم اےک عمدہ مثال ہے۔ صولت رضا سےاست مےں شائستگی کی پسماندگی پر دکھی ہو جاتے ہےں اور اپنے اےک کالم ”کراچی کی حکومت“ مےں لکھتے ہےں کہ ”عام سےاست دانوں کی بےان بازی سے ہٹ کر دانشور سےاست کار سے ےہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی گفتگو کے ذرےعے حوصلے، برداشت اور رواداری کی رواےات کو فروغ دےں گے لےکن جب کسی جماعت کے دانشور بھی تلخ ہوجائےں اور لسانی و علاقائی بنےادوں پر اعلیٰ ترےن عہدوں کی ”شناخت پرےڈ“ شروع کردےں تو ”پسماندگان“ کا اللہ ہی حافظ ہے“۔ صولت رضا بے خوف اور بےباک صحافےانہ طرےقے سے حکومتی عہدے داروں کو صاف صاف آئےنہ بھی دکھا دےتے ہےں۔ مثلاً وہ پاکستان کی قومی زبان اردو کو دربدر دےکھ کر 2006میں اپنے ایک کالم ”اردو کی ےاد آئی ہے“ مےں لکھتے ہےں کہ ”اردو کو اپنانے کی تارےخ بہت قدےم ہے۔ مقتدرہ قومی زبان کے ہردلعزےز سربراہ پروفےسر فتح محمد ملک اس پر روشنی ڈال سکتے ہےں“۔ وہ اس کالم میں مزےد لکھتے ہےں کہ ”پنجابی سےاست کار اور بےوروکرےسی وطن عزےز مےں انگرےزی ےا اردو کے ”فساد“ کے براہ راست ذمہ دار ہےں“۔ برےگےڈےئر (ر) صولت رضا کی آئی اےس پی آر مےںتعیناتی کے دوران ملک میں بہت بڑے بڑے واقعات ہوئے جن میں73کے آئین کا بننا،بھارت سے جنگی قیدیوں کی واپسی ، ضیاءکا مارشل لاء، بھٹو کی پھانسی ، جہاد افغانستان ،ضیاءالحق کے طیارے کی تباہی ،ِبینظیر اور نواز شریف کا سیاست میں آنا ،نوے کی دہائی میں سیاسی سازشیں اور مشرف کا مارشل لاءوغیرہ شامل ہیں۔ ان واقعات پر بہت کچھ لکھا جا چکا لےکن بہت کچھ لکھا جانا باقی ہے ۔ چونکہ صولت رضا ان تمام حالات کو قریب سے دےکھ چکے ہیں اس لےے لوگ توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے کالموں میں سیاسی تاریخ کی داستان حسرت سنا سنا کر رلائیں گے۔ یوں انکے ”غےر فوجی کالم“ مےں غےر سِویلین کالم سے لوگوں کی معلومات مےں مزید اضافہ ہو گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024