’’بیٹی‘‘ آپ کو اپنے کالم کے متعلق کوئی شکایت تو نہیں، نہایت شائستہ لہجہ۔ میٹھی آواز۔ فون کے دوسری طرف آبرو سے صحافت قبلہ’’مجید نظامی‘‘ تھے۔ میں نے ایک فلاحی کام کی کوریج کیلئے فون کیا تھا۔ سلام، دعا کے فوراً بعد ایسا مشفقانہ سوال صرف فخر صحافت مجید نظامی کا ہی خاصا تھا۔ ہر ملاقاتی سے ملنا، ہمیشہ سب کی فون کالز لینا۔ عمل۔ ملنساری کے ساتھ ماتحتوں کی مسلسل خبر گیری۔ ادارے بھی تبھی چلتے ہیں جب ’’سربراہ‘‘ بلاامتیاز نام چھوٹا ہے یا بڑا،چھتری مانند کھڑا ہوتو دنیا کی کوئی طاقت بھی ملازمین کو زک نہیں پہنچاسکتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ نوائے وقت کی پیشانی پر لکھے حروف کی مخافظت کا فریضہ نبھایا اور خوب خوب نبھایا۔ سچ بولنا۔ سچ لکھنا شاید اتنا مشکل نہ بنتا اگر سب’’ادارے‘‘تحفظ کی حرمت سے آگاہ ہوتے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سچ لکھنے والوں کو سلامتی کی گارنٹی صرف قبلہ مجید نظامی سے ملتی تھی۔ 1947ء سے نوائے وقت اور پاکستان جمہوریت کے تحفظ، ملکی سلامتی، جغرافیائی سرحدوں کی ’’پشت پناہ‘‘ کے اٹوٹ رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس رشتے کا عکس آج بھی نیوز صفحات، اداریئے میں صاف جھلکتا ہے۔ اسی طرح کالم نگار اور اخبار کا بہت گہرا تعلق ہے، ایک شخص تب تک آزاد ہے جب تک وہ کسی عوامی دلچسپی کے مرکزسے منسلک نہ ہو۔ جونہی وہ شخص متذکرہ بالا مرکز سے منسلک ہوا تو پھر وہ عوام کی ملکیت بن جاتا ہے ، یہ ملکیت میڈیا کے لوگوں پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ ہر اخبار قاری کی اپنی پسندیدگی کے زیراثر خریدا جاتا ہے۔ قارئین کی اپنے پسندیدہ کالم نگاروں کے لئے جہاں عقیدت وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے وہاں توقعات بھی پہلے سے زیادہ وابستہ کرلی جاتی ہیں۔ عقیدت اور توقعات میں دراڑ تب پڑتی ہے جب لکھاری اپنی ڈگر سے ہٹ رہا ہو۔ سب جانتے ہیں کہ جھوٹ کی عمر زیادہ مگر اثر کم، عارضی ہوتا ہے جبکہ سچ کی عمر کم مگر تاثیر پائیدار۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کچی’’برف‘‘ کی طرح جلد پگل جاتا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ پچھلے 50سالوں سے عوامی پذیرائی انہی لکھاریوں کوملی جنہوں نے کسی مصلحت کو پیش نظرنہیں رکھا، جو’’ مراعات کی زرد ٹرین‘‘ میں سوار نہیں ہوئے اورانہی کے لکھے ہوئے کو(چاہے حکومتی ناک چڑھتی رہی) اقتدار کی غلام گردشوں میں بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ہم سمیت اکثریت اسی صف کے نمازی ہیں مگر گستاخی معاف20سالوں سے ’’کالمز‘‘ ’’عوامی مسائل پر کم اورحکومتی زعما‘‘ کی تعریف، خوشامد پر زیادہ پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ حکومت وقت پر جائز وناجائز تنقید کو ہی معرکہ آرائی سمجھا جاتا ہے، مقبولیت کی کلید تسلیم کیا جاتا ہے۔ پچھلے20سالوں کے لکھاری کمال درجے پر فائز ہیں۔ جائز کاموں پر سراہتے ہیںوہاں غلطیوں پر پکڑتے بھی بڑے نرم، میٹھے الفاظ میں، یوں محسوس ہوکہ تعریف، بدتعریف کو یو ںگھلا ملادیتے ہیں کہ پڑھنے والا پریشان ہوجاتا ہے کہ وہ ’’کالم نگار‘‘ جس کے متعدد’’کالمز‘‘ پر انتظامیہ فوراً سے پہلے نوٹس لے لیتی ہے۔ کہنا کیا چاہتے ہیں؟آیا تعریف حکومتی گرفت، ناراضگی سے بچنے کا کوئی گُر ہے یا صرف تعلقات بڑھانا مطلوب ہے؟۔ یا پھر پڑھنے والوں کو’’اندر تک رسائی‘‘ کا تاثر مضبوط کرنا مقصد تھا۔خلوص ،درد مندی سے لکھے گئے حروف تحاریر کی طاقت صرف محسوس نہیں ہوتی دکھائی بھی دیتی ہے،شاید ہم لوگ جان کر بھی انجان بن رہے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ ‘‘ نے ہم کو جس قوت، مشاہدے سے نوازا ہے اس کا استعمال بھرپور مثبت خطوط پر کریں۔ تعریف قابل پذیرائی وصف ہے، کرنی چاہیے کہ اس سے اچھائی پھیلتی ہے مگر جائز نہیں کہ اپنے قیمتی الفاظ کو غیر ضروری خوشامد میں ضائع کردیں۔ ایسا بھی نہیں کہ مارکیٹ میں حکومت وقت پر تنقید نامی پروڈکٹ کی زیادہ مانگ ہے مگر ہمارا سوال ہے کہ کیا وجہ ہے کہ بعض اعلیٰ بہت شریف، نیک، درد مند ہوتے ہیں کیا یہ دکھ کی بات نہیں کہ اس کے باوجود عوامی مسائل حل نہیں ہوپاتے۔ عوام کب تک باجگزار رعایا بن کر دکھوں کے انبار میں گیلی لکڑی کی طرح سلگتے رہیں گے؟ اس اچھائی کا کیا فائدہ جو اردگرد کے لوگوں،ماتحتوں کو سکون نہ دے، روشنی فراہم نہ کرے، یقینا لکھاریوں کے تعریف کردہ اشخاص قابل قدر ہیں مگر دئیے کی روشنی کو تو یکساں پھیلنا ہے۔ مساوی بنیادوں پر تقسیم ہونا چاہیے۔ ہمارے لکھے ہوئے ہر لفظ کی ایک اہمیت ہے۔ ہر جگہ اثر پذیری محسوس کی جاتی ہے۔ عقیدت ،احترام اور تعریف کو مکس کرکے لکھیں گے تو دکھوں کی ماری اپنوں کی ڈسی’’ مخلوق پاکستان‘‘ کے شاید کچھ مسائل حل ہوجائیں۔ وقت ہے کہ اپنے تعلقات کی تعریف میں عوامی دکھوں، آہوں کی آنچ ملادیں۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا سنگین بحران میں مبتلاہے دیکھی ان دیکھی سازشوں، سانحات کے کرب سے گزررہی ہے، بدقسمتی سے اضطراب، تپش کا زیادہ حصہ ہمارے نصیب میں لکھا گیا… چاروں صوبے مضبوط اکائی سے جڑے ہونے کے باوجود’’ریوڑ سے بچھڑے‘‘ مویشیوں جیسے طرز عمل کا مظاہرہ کررہے ہیں… کوئی بغاوت نہیں، مرکز گریزرویہ نہیں بس ہم آہنگی کمزور اور رابطے میں تعطل ہے۔ ذمہ داری اٹھانے میں گریزپائی ہے۔ مان لیں کہ 70فیصد مسائل کا بوجھ میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ روش،نااہلی پرآتا ہے، کیا اب بھی ہم بریکنگ نیوز، کے حصار سے نکلنے کو تیار نہیں… حقائق میں جائے بغیر ہر خبر کو’’Rating‘‘ کی ہوس میں زبردستی عوام کے حلق میں اتار دیتے ہیں۔ جانے انجانے میں وطن فروشوں کے پلان کردہ ڈراموں کو گلے کی پوری قوت سے پردہ سکرین پر اتنا دہراتے ہیں کہ ظالم کومظلوم بننے میں سیکنڈز لگتے ہیں۔ ٹاک شوز کا عامیانہ انداز نمائندگی کے احترام، تقدس میں دراڑیں پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے جب سے میڈیا کی آزادی کے نعرے نے جان پکڑی تو گلی محلے میں دھڑا دھڑ کھلنے والوں سکولوں، کالجز کی طرح10-5مرلہ کے مکانوں میں ’’برقیاتی چینلز‘‘ کھمبیوں کی طرح اگنے لگے۔ نتائج نہ باسلیقہ گفتگو رہی۔ نہ برادشت، تحمل کے مناظر باقی رہے اس روش کو آج ہم سب نے ختم کرنا ہے۔ تہیہ کرنا ہے کہ مہذب معاشرے کے قیام میں اپنا کردار خلوص کے ساتھ ادا کرنے کیلئے کچھ برسوں تک’’Rating‘‘ کلچر کوخیر باد کہہ دیں۔ معاشرے میں پیدا ہونے والے عدم برداشت،خوف وہراس، چڑچڑاپن کے بداثرات، برے نتائج ختم کرنا اب ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ پاکستان بڑی خوش قسمت ریاست ہے۔ کلمہ توحید کی بنیاد پر منصئہ شہود پر آنے والی پاک سرزمین کے شہری بلاشبہ بانصیب ہیں کہ دشمنوں کے ہزار جتن، سازشوں کے باوجود نہ صرف موجود ہیں بلکہ ہر آنے والا لمحہ ریاست کی حیات کو محفوظ سے محفوظ تر بنارہا ہے اور بناتا جائے گا انشاء اللہ۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024