چند روز سے حکومت اور پاک آرمی کے درمیان جو کشیدگی نظر آ رہی تھی۔ وہ کاکول میں وزیر اعظم کے خطاب سے کافی حد تک ختم ہو گئی جب وزیر اعظم نے کیڈٹس کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو بطور ’’رول ماڈل‘‘ اپنانے کی نصیحت کی مگر حامد میر پر حملے نے اچانک پھر آگ بھڑکا دی ہے۔ اصل حقائق کا تو شاید کبھی بھی علم نہ ہو سکے کیونکہ یہ ہمارے ملک کی روایت ہے کہ کمشن بھی بنتے ہیں کمیٹیاں بھی مگر نتائج دبا دئیے جاتے ہیں۔ بلاشبہ حکومت ’’مشرف فوبیا‘‘ میں گرفتار ہے۔ مگر جس روز مشرف نے کراچی جانا تھا اسی روز حامد میر پر حملہ ہونا ایک ’’منصوبہ‘‘ نظر آتا ہے۔ اگر حامد میر پر حملہ نہ ہوتا تو شاید اسلام آباد سے مشرف کے کراچی منتقل ہونے کو بھی زبردست تنقید کا نشانہ بنایا جاتا اور حکومت کو تمام میڈیا چینلز پر خوب آڑے ہاتھوں لیا جاتا مگر حامد میر پر حملے نے مشرف کی طرف سے توجہ کو کافی حد تک کم کر دیا اور ’’مرکز نگاہ‘‘ حامد میر بن گئے۔ پاکستان تو حملوں کی ’’آماہ جگاہ‘‘ ہے۔ 60 ہزار پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ حامد میر پر بھی حملہ اسی نوعیت کا ہے مگر جس قدر ’’پذیرائی‘‘ اس واقعے کو دی جا رہی ہے حیران کن ہے۔ وزیر اعظم نے حملہ کرنے والوں کو بے نقاب کرنے والے ایک کروڑ اور حکومت سندھ نے 50 لاکھ نقد دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم خود عیادت کے لئے بھی تشریف لے گئے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاک آرمی کو ایک نجی چینل پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ آئی ایس آئی کی اس قدر تضحیک پر وزیر اعظم کی خاموشی بڑی معنی خیز ہے، صرف الزام لگا دینے سے کوئی مجرم نہیں بن جاتا۔ چینل پر چند ’’دانشور‘‘ مسلسل ایک ہی بات کر کے کیا اپنی فوج کی توہین کے مرتکب نہیں ہوئے؟ ان سب واقعات میں وزیر اعظم کی خاموشی کیا پیغام دیتی ہے؟ پوری دنیا میں پاک آرمی کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا حکومت نے انہیں ایسا کرنے سے روکا کیوں نہیں؟ کس کی بھی عیادت کرنا باعث اجر ہے۔ جس طرح مشرف کے خلاف ’’خصوصی عدالت‘‘ بنا کر بھی سعد رفیق، خواجہ آصف اور احسن اقبال اپنی ’’عدالتیں‘‘ لگا کر اس کے لئے سزائیں بھی تجویز کرتے رہے اس طرح اگر وزیر اعظم نے حامد میر پر حملے پر ایک عدالتی کمشن بنانا ہی تھی تو اس چینل کو آئی ایس آئی پر کھلم کھلا الزامات لگانے والوں کو کیوں نہیں روکا؟ اگر خواجہ لوڈشیڈنگ کی ’’پارلیمنٹ‘‘ واقعہ ہی ’’مقتدر‘‘ اور ’’بالادست‘‘ ہے تو اس کا کام تھا کہ پاک فوج کی بدنامی کا فوراً نوٹس لیا جاتا پارلیمنٹ میں سندھ اور دیگر اسمبلیوں میں حامد میر پر حملے کے خلاف مذمتی قراردادیں پاس کی گئی؎ خوش آئند بات ہے مگر پاک فوج پر اس طرح کے الزامات لگانے والے چند نام نہاد ’’اینکروں‘‘ کی زبان بندی کیوں نہ کی گئی؟ چاہئیے تو یہ تھا کہ پاک فوج کے حق میں بھی ایسی ہی قراردادیں منظور کی جاتیں۔ سیاست دانوں کی ’’کارکردگی‘‘ سب کے سامنے ہے۔ آج سب ایک ہیں خوشی کی بات ہے وزیر اعظم نے زرداری کو مدعو کیا دعوت کی اور بلاول ہائوس کی دعوت بھی قبول کی۔ مگر سوال یہ ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں جو بے حد و حساب کرپشن ہوئی۔ ملکی اداروں کی جس طرح بے دردی سے تباہی کی گئی۔اب وہ کس کھاتے میں جائے گی۔ دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ملزم سے پوچھ کر جج چنا جائے اور ملزم کہے کہ میرا فیصلہ صرف یہ جج کرے مگر ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے نیب کا چیئرمین متفقہ لگتا ہے۔ جو ملزم اور منصف دونوں کو پسند ہو۔ یہی وجہ ہے کہ گیلانی اور راجہ رینٹل نیب سے استشنیٰ حاصل کر بھی چکے ہیں بخدا ایسی ’’فکسڈ جمہوریت‘‘ ہزار سال تک بھی عوام کو کچھ نہیں دیگی۔ بہرحال وزیراعظم کو اگر حامد میر کی عیادت کرنا تھی اور ایک کروڑ حملہ کرنیوالوں کو بے نقاب کرنے پر دیتا تھا تو پاک فوج کے وقار کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے تھا اپنی زبان کو تالا لگا کر صرف پاک فوج کی تضحیک پر خاموش نہیں رہنا چاہئیے تھا۔ وزیر دفاع بھی شاید ’’کومے‘‘ میں چلے گئے تھے۔ پاک فوج ان کے ماتحت ادارہ تھا۔ انہوں نے اب فوج کے تحفظ میں ’’بڑھک‘‘ کیوں نہیں لگائی۔ سوچتے رہیئے !
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024