گوجرانوالہ شہر کے"چوک نیائیں"پر اس سے پہلے اگرچہ بہت کچھ لکھا جاچکا۔گاہے کئی کالموں میں اسکا ذکر بھی ہوتا رہتا ہے ۔ اپنی تاریخ کے حوالے سے اگر اسے شہر کا" علی گڑھ" کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔درجن سے زائد سرکاری گرلز اور بوائیز سکول اور گرلزڈگری کالج کے علاوہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی کم نہیں۔قیام پاکستان کے بعد گوجرانوالہ کی ابتدائی کشمیری برادری صاحب علم اور سیاسی لحاظ سے مضبوط تھی۔گورنر سندھ جسٹس شیخ دین محمد ،عوامی لیگ کے راہنماخواجہ صدیق الحسن جن کے ہاں مادر ملت، حسین شہید سہروردی اورشیخ مجیب الرحمان نے قیام کیا، کے علاوہ بابو عطاءمحمد اور صوفی جمال اللہ کا شمار تعلیم کے میدان میں بہت نمایاں تھا۔شہر کی دوبرادریوں یعنی کھوکھر اور کشمیری برادری کے درمیان مقامی سیاست کے علاوہ اصل مقابلہ تعلیمی اداروں کے قیام کا ہوتا تھا۔آج شہر میں جتنے بھی بڑے سکول ہیں اور جنہیں قومی تحویل میں لیاگیا ،سبھی ان دوبرادریوں نے تعمیر کرکے علم وفکر کے جزیرے آباد کئے ۔قبرستان روڈ پر واقع ہائی سکولوں کاذکر اہم ہے ۔ایک محبوب عالم اسلامیہ ہائی سکول ۔جہاں سے ہمارے سابقہ صدر پاکستان رفیق تارڑ صاحب فارغ التحصیل ہوئے اور دوسراعطامحمد اسلامیہ ہائی سکول جس نے الطاف گوہر ان کے بھائی تجمل حسین ،سابق سیکرٹری خارجہ اکرم ذکی اوران کے بھائی پنجاب کے سابق چیف سیکرٹری انور زاہد کے علاوہ ہزاروں چھوٹے بڑے بیورو کریٹ پیدا کئے۔پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ محبوب عالم اسلامیہ ہائی سکول جو"پیسہ اخبار"کے بانی مولوی محبوب عالم کے نام پر رکھا گیا کے لئے شہر کے گلی کوچوں میں منادی کرائی جاتی کہ ہر گھر جہاں کوئی عورت آٹا گوندھنے بیٹھے تو ایک مٹھی آٹاالگ کرکے جمع کرتی جائے ۔پھر اسی آٹے کو اکٹھا کرنے کے بعد بیچ کر جتنا چندہ اکٹھا ہوتا آہستہ آہستہ اس سے یہ سکول بنتا گیا جسے صوفی جمال اللہ کی انتظامی صلاحتیوںنے کمال تک پہنچایا ۔عطاءمحمد اسلامیہ ہائی سکول شہر کی مقامی سیاست کی اہم شخصیت شیخ عطاءمحمد کے نام پر رکھا گیا۔شہر کے ذہین ترین طلباءکو خوب چھان پھٹک کے بعدیہاں داخلہ دیا جاتا۔سکول میں تب بھی "انٹری ٹیسٹ"لازمی ہوتا تھا۔ہمارے دوست قلم کار وجاہت مسعود تویہاں تک لکھتے ہیں کہ ہم "جو کھوتی سکولوں " میںپڑھتے تھے،آدھی چھٹی کے وقت حسرت سے عطاءمحمد سکول کی کھڑکیوںسے اندر جھانکاکرتے کہ کیسے ہونگے وہ خوش نصیب طلباءجو یہاں پڑھتے ہیں۔پھر 1972ءمیں ملک بھر کے تمام سکولوں کو قومی تحویل میں لے لیاگیا تونہ کوئی عطاءمحمد جیسا سکول رہا نہ محبوب عالم سا اگرچہ دونوں سکول ابھی تک موجود ہیں مگر محض سنگ و خشت۔ طلباءاور اساتذہ بھی ہیں مگر کوئی صوفی جمال اللہ یا بابو عطاءمحمد نہیں رہا۔ کھوکھر اور کشمیری برادریوں کا "مقابلہ¿ تعلیم سازی " تمام ہوا اور تعلیم کے میدان بنجر ہو گئے۔ نجی تعلیمی ادارے وجود میں آئے اور غریب والدین تباہ ہو گئے۔ تعلیم تجارت بن گئی اور معاشرے سے علم وفضل روٹھ گیا صرف ڈگریاں باقی رہ گئیںاس کے بعد1985ءکے غیر جماعتی انتخابات نے نقشہ ہی بدل کررکھ دیا۔ قومی سیاست پر کہنہ مشق، درویش صفت اور دیانت وامانت سے مالامال سیاستدانوں کی جگہ غنڈوں‘ ذخیرہ اندوزوں، منشیات فروشوں، قاتلوں، فرقہ پرستوں، برادریوں، قبیلوں، قبضہ مافیا، جواءکروانے والوں اور بینکوں کے قرضے کھانے والوں نے لے لی۔ اس سے سیاست میں جو نیا نقشہ ابھرا اس میں ایک ڈیرہ کچھ مسلح اور خونخوار گن مین، پیجارو، بینکوں کے قرضے، اقرباءپروری اور میرٹ کے قتل عام نے لے لی۔سیاست میں غلاظت کا جو سفر1985ءمیں شروع ہوا۔وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔آج ایک عوامی نمائندے کی پہچان مسلح لوگوں کا جھتہ،دروازے پر مسلح دربان ،قومی خزانہ لوٹنے مخالفین کو ناجائیز مقدمات میں الجھانے ،مظلوم اور شرفاءکی زمینوں پر قبضہ کرنے اور سرکاری زمینوں پر عمارات تعمیر کرکے فروخت کرنے کے سوااور کچھ نہیں۔اس منظر نامے میں گذشتہ دنوں جب چوک نیائیں سے پیدل ہی باغبانپورہ جانا ہوا تو راستے میں ایک ایم این اے کا ڈیرہ نظر آیا جو اب قانون کے وفاقی وزیر مملکت بھی ہیں پھاٹک پر ایک تھکا ہوا ڈھیلی پیٹی والا کانسٹیبل جو محکمہ پولیس کی بجائے "برمی والا"لگ رہا تھا۔نہ کوئی مسلح گن مینوں کا جتھہ،نہ کوئی پروٹوکول کے تقاضے،پھاٹک پورا کھلا ہوا،گاڑیوں کا مینا بازار بھی نظر نہ آیا اور نہ ہی کوئی "کن ٹٹا"جو ہمارے منتخب نمائندوں کی پہچان بن چکا ہے۔خیال ہوا کہ وزیر قانون بیرسٹر عثمان ابراہیم ڈیرے پر موجود نہیں ہونگے ورنہ"حفظ مراتب"کی یوں پامالی نہ ہورہی ہوتی۔اندر جھانک کردیکھا تو غرض مندوں کی کثیر تعداد تھی مگر کوئی بھی کھڑا نہیں تھا سب کیلئے کرسیوں کا اہتمام تھا۔ایک سادہ سی میز کرسی جسے دیکھ کر اپنے سکول کا زمانہ یاد آگیا۔ایک وزیر کے ڈیرے کایہ حال دیکھ کر سچی بات ہے کہ دل خوشی سے سرشار ہوگیا۔یہ منظر بڑا بھلا لگا۔عثمان ابراہیم کا خاندان شہر کاایک معروف پڑھالکھا اور سیاست میں پختہ ہے ۔میں ان سے انٹرویو کرنے تو نہیں گیا تھا بس ایساماحول دیکھ کر خوشی ہوئی۔عثمان ابراہیم انصاری نے چوک نیائیں میں لڑکیوں کے لئے سٹی گرلز ڈگری کالج بنوایا جہاں سینکڑوں طالبات زیر تعلیم ہیں ۔نوشہرہ روڈ پر صغیر شہیدپارک سے ملحق ایک گرلز کالج اور گرلز ہائی سکول بھی ان کی علم دوستی کا ثبوت ہے۔حاکم بی بی گورنمنٹ گرلز سکول کے قیام کے علاوہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین ماڈل ٹاﺅن کو ڈگری کالج کا درجہ دلوایا۔گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول کالج روڈ کو ہائی سکول کا درجہ دلوایا۔سرفراز کالونی میں لڑکیوں کا ہائی سکول بنوایا ۔گورنمنٹ بوائز ہائی سکول جی ٹی روڈ کو ہائر سیکنڈری سکول کی شکل دی ۔اے ڈی ماڈل ہائی سکول اور پی بی ماڈل ہائی سکول کی نئی اور قیمتس عمارات تعمیر کروائیں۔تہذیب البنات پرائمری سکول اور تہذیب البنات ہائی سکول تو ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ان کے والد مرحوم حاجی ابراہیم بنواءچکے تھے۔نجی حثیت میں بابو عبدالرحیم کھوکھر اور صوفی جمال اللہ وغیرہ تعلیم کے میدان کے شہسوار تھے۔ آنی والی نسلوں کے لئے جنہوں نے ذاتی گرہ اور چندے سے بھی اعلی تعلیمی ادارے قائم کئے جنہوں نے اس ملک کو بڑے قابل بیوروکریٹس کے علاوہ بے شمار ڈاکٹر ،انجینئر، وکلائ،جج اور کاروباری لوگ"پالش"کرکے دیئے۔کچھ اور بھی ہوں گی مگر میں نے عثمان ابراہیم کی صرف تعلیمی میدان میں کی جانے والی خدمات کا ذکر کیا ہے ،گوجرانوالہ سے کچھ اور وزیر بھی ہیں سالہاسال سے منتخب ہونے والے نمائندے بھی ہیں ،کوئی قومی اسمبلی میں تو کوئی صوبائی میں۔کئی ایک بلدیاتی اداروں کے سربراہ بھی رہے ہیں،اب بھی ہیں مگر ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کی تعلیم کی تعلیم کے میدان میں ایک پرائمری سکول کی بھی کوئی خدمت ہو۔سب اپنے اپنے مفادات کے حصول میں مگن ہوکر زمین کا بوجھ بن گئے۔ایک بات جو "مٹھی بھر آٹے"سے شروع ہوئی تھی ۔ایک نجیب صفت وزیر پر آکر ختم ہوگئی جسے سنگ وخشت سے ایسے تعلیمی ادارے بنوانے کا شوق ہے جہاں افکار تازہ بھی ہوں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38