ارباب حکومت جس حقیقت کو لاکھ پردوں میں چھپاتے رہے صرف ایک اعلان نے اسے طشت ازبام کردیا۔ پنجاب میں حکومت کی طرف سے ضرورت کے مطابق مستقبل کے معماروں کے مسئلے تعلیمی اداروں کے قیام سے صرفِ نظر کرنے کا سلسلہ عصرِ حاضر کی ایک ایسی روایت ہے جس پر جتنا بھی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جائے کم ہے۔ گزشتہ تقریباً ایک عشرے سے صوبے میں طالبات اور طلباء کے تعلیمی اداروں کو سنوارنے اور انہیں ضرورت کے مطابق تعلیمی ضروریات فراہم کرنے کے سلسلے میں جس تساہل اور دانستہ کوتاہی و غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس کی ملنا مشکل ہے اگرچہ اس حوالے سے نونہالان قوم کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے عبارت ایوان اقتدار کے مکینوں کی طرف سے آئے دن بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں۔ مگر عملی طور پر فروغ تعلیم کے حوالے سے حکومتی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب حال ہی میں جس حقیقت کا راز حکومت نے اپنے ایک اعلان میں افشا کر کے رکھ دیا ہے۔
اس نے نہ صرف تعلیم کے میدان میں حکومتی کارکردگی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ بلکہ پنجاب میں نجی تعلیمی اداروں کی کم ازکم ماہانہ فیس چار ہزار روپے مقررہونے کا اعتراف کرتے ہوئے تعلیم کو کاروبار کے طور پر چلانے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ اور اس حوالے سے بڑے طمطراق کے ساتھ جو باتصویر اعلان جس کے کروڑوں غریب خاندانوں پر بجلی بن کر ٹوٹا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ چار ہزار روپے ماہوار فیس وصول کرنے والے نجی تعلیمی ادارے فیسوں میں پانچ فیصد تک اضافہ کر سکیں۔ جبکہ ایسے ادارے معقول جواز پیش کرنے پر فیسوں میں آٹھ فیصد اضافہ کرنے کے مجاز ہوں گے۔
ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ترقی پذیر ممالک میں واحد ایسا ملک ہے۔ جہاں کی حکومت عوام کے حال و مستقبل کو سنوارنے کے جن کے شعبوں پر بھرپور توجہ دینا کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ ان میں شعبہ صحت اور تعلیم شامل ہے۔ پھر ایسے ملک میں جہاں کی کل آبادی تیس کروڑ سے زائد ہو اور وہاں کے چالیس فیصد عوام خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہوں اور ایسے کروڑوں افراد سے عبارت مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے دو وقت کی روٹی انتہائی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔ ایسے کروڑوں عوام کے بچوں کے لئے حکومتی سطح پر تعلیمی اداروں کے قیام کا کوئی مربوط اور منظم لائحہ عمل تیار نہ کرنا ملک کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ ستم بالائے ستم بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل اس قسم کی اطلاعات بھی زبانِ زدعام ہوئی تھیں کہ پنجاب میں سینکڑوں تعلیمی اداروں کو نجی ملکیت میں دیا جا رہا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اس بات کی تردید بھی نہیں کی گئی۔ اب اپنے باقاعدہ ایسے اعلان میں یہ بات واضح کر دی ہے کہ پنجاب میں نجی طور پر جو تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ ان کی فیس ماہانہ چار ہزار روپے ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پنجاب میں حکومت کی طرف سے تعلیمی اداروں کی ضرورت کے مطابق فراہمی پر سرے ہی سے توجہ نہ دینے کے باعث غریب عوام کو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر نجی سکولوں میں داخلہ کے لئے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ حکومت اس شعبے میں اپنی کارکردگی دکھانے میں قطعی طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے بعض صاحب حیثیت لوگوں نے تعلیمی شعبے کو بطور کاروبار اپنا لیا ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت کی طرف سے نجی تعلیمی اداروں کی ماہانہ فیس غریب عوام کی استطاعت کے مطابق مقرر کرنے کا اہتمام کرتی۔ اس کی طرف سے خودبخود اس فیس کو چار ہزار روپے مقرر یا تصور کر کے اس پر 5 فیصد یا وجہ جواز بناکر 8 فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔
جس صو بے کے عوام کے خاندانوں کی عظیم اکثریت مفلسی اور فاقہ کشی سے دوچار ہو اور تصور کیجئے کہ جہاں ایک مزدور اور محنت کش کی تنْخواہ پندرہ ہزار روپے ماہوار مقرر کر کے ایوان اقتدار کے مکین بڑا فخر محسوس کرتے ہوں۔ بلکہ بعض نیم سرکاری اداروں میں حکومتی فیصلے کے برعکس کارکنوں کو چودہ ہزار روپے ماہوار تنخواہ ہی پر ٹرخا دیا جاتا ہو۔ اس غریب محنت کش کے بچے ایسے تعلیمی اداروں میں کیسے تعلیم حاصل کر سکیں گے جہاں ماہانہ فیس چار ہزار روپے ہو۔ جبکہ مسند اقتدار پر قابض ارباب اختیار کے چشم تصور میں نجی تعلیمی اداروں میں کم از کم یہی فیس طے ہوچکی ہو۔
کتنی عجیب اور مضحکہ خیز بات ہے کہ پنجاب حکومت نے ایسے اعلانات سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تعلیمی شعبے میں ان کے ذمے اس صوبے کے بدقسمت غریب مفلس، قلاش اور فاقہ کش عوام کے بچوں اور بچیوں کو تعلیم دلانے اور فروغ تعلیم کے حوالے سے جو فرائض عائد ہوتے تھے وہ پورے کر دئیے گئے ہیں۔ جبکہ ایسا ہرگز نہیں دو شعبے ہی قومی زندگی میں ایسے ہیں جن پر ہر حکومت اور حکمران کو ترجیحی بنیادوں پر اولیت اور توجہ دینا لازمی ہوتا ہے۔
تعلیم اور صحت کے شعبوں پر بھرپور توجہ نہ دینے والے حکمران اپنے دعووں اور نعروں کا بھرم رکھنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ پنجاب میں بھی اگر شعبہ تعلیم کے فروغ کے لئے سنجیدگی اور دیانت داری کے ساتھ کام کیا جاتا تو موجودہ حکومت اپنے طویل نو سالہ عہد حکومت میں ہر شہر، ہر گاؤں، ہر قصبے اور تمام دیہاتی مضافاتی علاقوں میں وہاں کی ضرورت کے مطابق بچوں اور بچیوں کے ابتدائی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لاسکتی تھی۔ مگر اس تکلیف دہ حقیقت کا اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں کہ حکمرانوں کو اپنے نام و نمود کی خاطر صرف اور صرف سنگ و خشت کے ایسے منصوبوں پر غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی ضائع کرنے ہی سے فرصت نہ ملی۔ جن کے باعث عوام کی غربت کا مداوا ہوسکتا تھا۔ نہ بچوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کا بندوبست ہو سکتا ہے اور نہ ہی غربت کے بارے لاعلاج مریضوں کے علاج معالجے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
سرکاری سطح پر تعلیمی شعبے کے فروغ پر عدم توجہی کے باعث حکومت نے نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کی حوصلہ افزائی کا راستہ اختیار کر کے کروڑوں خاندانوں کے بچوں کی راہ میں حصول تعلیم کے دروازے بند کرنے کا اقدام کیا ہے۔ ایسے اقدام سے غریب بچوں کے لئے نجی سکولوں میں داخلہ بھی ممکن نہیں رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ نجی تعلیمی اداروں میں لاتعداد ایسے اداروں کی ہے جہاں بچوں سے بھاری فیسیں وصول کی جاتی ہیں مگر تدریسی عملے جن میں خواتین اور مرد اساتذہ شامل ہیں کو ان کی تعلیمی استعداد کے مطابق تنخواہیں ادا نہ کر کے ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ان اداروں میں ’’گریڈ‘‘ کے مطابق تنخواہوں کی ادائیگی شجر ممنوعہ ہے۔ حکومتی اعلان میں نجی اداروں کی فیسوں میں اضافہ کی اجازت دے کر صرف مالکان کو خوش کرنے کی سعی کی گئی ہے جبکہ تدریسی عملے کے استحصال کے تدارک کا قرض نظرانداز کردیا گیا ہے ۔ تاہم ایسے تمام حقائق کے علی الزعم اس امر کا اظہار نامناسب نہ ہوگا کہ کوئی بھی حکمران عوام کو تعلیم اور صحت کے شعبے میں ان کی ضرورت کے مطابق پوری سہولتیں فراہم نہ کر کے سرخرو نہیں کہلا سکتا نہ ہی ایسے عہد حکومت میں ’’گڈ گورننس‘‘ کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ صوبائی حکومت یا ان کے ماتحت ادارے جو تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں۔ ان کی حالت انتہائی ناگفتہ ہے۔ لاتعداد سرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں بچیوں کے لئے پینے کا صاف پانی مہیا نہیں۔ بے شمار سکولوں میں برقی رو نہیں برقی رو اگر ہے تو پنکھے نہیں۔
طالبات کے تعلیمی ادارے چار دیواریوں سے محروم ہیں۔ تعلیمی اداروں کی عظیم اکثریت ایسی ہے۔ جہاں کی سائنس لیبارٹریز میں ضروری سامان اور آلات مفقود ہیں۔ ایسے تعلیمی اداروں کی بھی کمی نہیں جہاں بچے اور بچیاں ضروری عمارت نہ ہونے پر کھلے آسمان تلے یا درختوں تلے بیٹھ کر سبق لیتے اور یاد کرتے ہیں۔ اکثر میں بیت الخلاؤں کا تصور ہی نہیں۔ شعبہ تعلیم پر اس قسم کی ناقابل تلافی کوتاہی کے باوجود اگر ارباب اختیار یہ سمجھتے ہیں کہ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان نے تعلیم کو کاروبار کے طور پر اپنا کر حکومت کا بوجھ ہلکا کر دیا ہے تواس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا مقصد حل ہو گیا ہے۔ عوام بالخصوص کروڑوں غریب عوام کی توقعات ارباب حکومت سے پوری نہ ہونے کے باعث وہ مایوس ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کے گڈ گورننس اور تعمیر و ترقی کے دعووں کو محض سراب قرار دینے لگے ہیں جو مبنی پر حقیقت ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024