دیوالی، راون، ابلیس اور خلق خدا
دیوالی کی آمد پر نیلا گنبد لاہور کے قریب واقع ایک مندر کے بھگت صاحب سے اس کے ذاتی دوست نے خیرسگالی کے طور پر دریافت کیا کہ اپن کی دیوالی کے تہوار اور جشن کے حوالے سے تیاری کیسی جارہیں۔ جواب میں بھگت صاحب نے دھیمے انداز میں کہا کہ وہ اور ان کے پریوار ہر سال پوری شان و شوکت سے دیوالی کا تہوار مناتے ہیں۔ دیئے جلاتے ہیں۔ حلوہ پوری تقسیم کرتے ہیں۔ بہت سے مسلمان، سکھ اور مسیحی دوست ان کے تہوار میں بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ چونکہ بارڈر پر گولہ باری سے انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ سخت کشیدگی ہے۔ لگتا نہیں کہ ہم اپنا تہوار خوشدلی سے منا سکیں۔ جس پر بھگت صاحب کے مسلمان دوست نے کہا ”لیکن بھگت صاحب آپ تو پاکستانی ہندو ہیں۔ پاکستان کے شہری ہیں۔ اگر بھارت زیادتی کر رہا ہے تو اس کا دوش آپ ذمہ نہ ہے“۔ جس پر بھگت صاحب نے اپنی ڈھارس باندھی اور نہایت فخر سے کہا ”ہاں مہاراج آپ بجا فرماتے ہیں۔ میں تو پاکستان ہوں۔ میں یہاں پر جماپلا، میرے بچے، بزرگ پریوار سب پہلے پاکستانی ہیں اور پھر ہندو اور پھر مجھے ہمیشہ ہم وطنوں نے عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ مسلمان سکھ، مسیحی سب ہمیں دیوالی اور دیگر تہواروں پر مبارکباد دیتے ہیں اور ہم انہیں ان کے تہواروں، عید شب برات، کرسمس اور جنم بھومی پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ان کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں مہاراج ہم یہاں اپنے مندر میں عید میلاد النبی پوری شان و شوکت سے مناتے ہیں اور آئندہ یوم عاشور و دیگر مذہبی محافل میں شرکت کا ارادہ رکھتے ہیں۔مہاراج میں آپ شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری ہمت بندھائی وگرنہ میرا سارا پریوار نہایت افسردگی میں گم تھا کہ اگر ہم نے اپنا تہوار منایا تو لوگ معیوب سمجھیں گے۔ لیکن آپ کی آگیا سے ہم اب بھرپور انداز میں اپنا تہوار منائیں گے کیونکہ ہم پاکستانی ہیں۔ بلکہ ہماری خوشیاں بارڈور کے اس پار ایک خوب صورت پیغام باہم پہنچائیں گی کہ ہمیں اقلیت ہوتے ہوئے بھی پاکستان میں بھرپور اپنائیت اور شناخت حاصل ہے۔ لہذا وہاں کی اقلیت یعنی مسلمان بھی اسی احترام اور وقار کی حقدار ہے۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں بعض تہوار جیسے گرواچوتھ، راکھی، بساکھی، ہولی اور دیوالی صدیوں سے چلے آ رہے ہیں جن کا گوکہ تعلق ہندو دیومالا سے ہے لیکن یہ انسانی رشتوں جیسے میاں بیوی بہن بھائی کے بندھن کو مضبوط بنانے میں موثر کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔
دیوالی ایک ایسا تہوار ہے جس بنی نوع انسان کی فلاح کے ساتھ باواسطہ یا بلاواسطہ گہرہ تعلق ہے۔ ہندومت کی مذہبی کتاب رامائن کے تحت جب ان کے مذہبی رہنما رام کی بیوی یا پتنی کو راون سے آزاد کروایا گیا تو اس کے جشن میں دیئے جلا کر چراغاں کیا گیا۔ اگر وقتی طور پر دیو مالا کو حقیقی تصور کرلیا جائے تو راون درحقیقت ابلیس یا شیطان کا روپ ہے۔ جس نے فی زمانہ اس مخصوص علاقے اور وقت کی راستی قوت یعنی رام کو زیر کرنے کی کوشش کی لیکن بالآخر اندوہ ناک شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ شکست منفی قوتوں کا مقدر بنی جبکہ فتح و نصرت نے مثبت قوتوں کے قدم چومے۔بنی نوع انسان کو قطع نظر مذہب و ثقافت منفی قوتوں کا ہمیشہ سامان رہا ہے۔ اور مثبت اور منفی قوتوں کے مابین ٹکراﺅ ایک حقیقت ہے۔ عیسیؑ، موسیؑ، ابراہیمؑ اور آقائے نامدار محمد مصطفے اپنی پوری زندگی منفی قوتوں کا مقالہ کرتے نظر آئے۔ اور بالآخر شیطان کو شکست فاش دے کر کامیاب ہوئے اور بنی نو انسان کو فلاح نجات ، سلامتی و آزادی اور شفا بخشی۔مسلمان ابراہیمؑ کی عظیم ترین کامیابی اور شیطان کی بدترین ناکامی پر فتح اور شکر ادا کرتے ہیں اور عیدالضحی کا تہوار مناتے ہیں۔ جو درحقیقت شیطان کے بہکاوے اور چنگل سے آزادی کا نام ہے۔ شیطان بنی نوع انسان کو جہنم یا نرگ میں دھکیلنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ مسلمان رمضان المبارک میں پورا ماہ شیطان، ابلیس یا باالفاظ دیگر راون سے مسلسل برسر پیکار رہنے کی کوشش اور تربیت کرتے ہیں اور بالآخر عیدالفطر کی صورت میں اپنی کامیابی کا تہوار مناتے ہیں۔ابلیس، راون سب انسان شیطان دشمنی کے مختلف روپ ہیں۔ جبکہ انبیائ، اولیائ، روحانی پیشوا، بھگت اور گرو جو خیر کا پیغام بنی نوع انسان تک پہنچاتے ہیں سب خالق کے اس روح زمین پر مختلف بھیس اور نمائندہ ہیں۔پاکستان اور بھارت کے عوام امن، سلامتی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ پاکستانی عوام اپنی اقلیتوں ہندو، سکھ، عیسائی سب کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں ایک دوسرے سے بہتر سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ ہندو، سکھ پاکستان میں مقیم مندروں اور گوردواروں کے یاترا کیلئے تڑپ رکھتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی مسلمان بھارت میں واقع حضرت نظام الدینؒ اور خواجہ معین الدین چشتی کے آستانوں پر حاضر ہو کر روحانی فیض حاصل کرنے کی لگن رکھتے ہیں۔