نوجوان دکاندار نے ریموٹ سے والیوم بڑھایا تو پتہ چلا کہ کونے میں ٹی وی لگا ہوا ہے۔ خبر چل رہی تھی کہ رحمن ملک کو ایک مرتبہ پھر متحدہ قومی موومنٹ کو منانے کا ٹاسک دیدیا گیاہے ۔متحدہ بلاول بھٹو کے 18 اکتوبر کو جلسے میں برسنے کے بعد سندھ حکومت سے الگ ہو گئی تھی۔ اس سے چند روز قبل بلاول نے کہا تھا کہ وہ الطاف کا لندن میں بھی جینا حرام کر دینگے۔ میں ٹی وی کے مونو سے دکاندار کے سیاسی نظریات کا اندازہ لگانا چاہتا تھا۔ اس روز پیمرا کے تھانیدار پرویز راٹھور نے اے آر وائی کالائسنس معطل کیا ہوا تھا۔ جیو کا مونو بھی نہیں تھا‘یہ کوئی نیا چینل تھا۔ میرا یہاں سیاسی موضوع پر گفتگو کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ دس پندرہ منٹ کا کام تھا وہی نمٹانا چاہتا تھا۔ دکاندار نے ہمیں مخاطب کئے بغیر خود کلامی کے انداز میں کہا ”اب رحمن ملک متحدہ کو نہیں منا سکے گا“۔ ہم شادی کارڈ چھپوانے گئے تھے اسکے پرنٹ کا انتظار تھا۔ چند منٹ کی مصروفیت کیلئے نوجوان سے سوال کیا کہ ”آپ نے 2013ءمیں جس کو بھی ووٹ دیا اُس وقت آپکے ارد گرد کا جو سیاسی ماحول تھا کیا آج بھی ویسا ہی ہے یعنی لوگوں کی وابستگیاں بدستوراُنہی پارٹیوں سے ہیں۔“ اس نے ایک جذباتی فقرے ”کچھ بھی ہو جائے میں اب مسلم لیگ (ن) کو ووٹ نہیں دونگا۔“ سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور مزید کہا ہم نواز لیگ کے پُرجوش سپورٹر تھے اس نے اقتدار میں آ کر ہمارا عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ اب ہم خاموش مجاہد کا کردار ادا کرتے ہوئے عمران خان کی حمایت کرینگے۔ میری اس دکان کا بل 17 سو روپے آتا تھا اب پانچ ہزار آتا ہے،آدھا دن بجلی بند رہتی ہے۔ ہم کیا کمائیں اور بچوں کو کیا کھلائیں! ملک نہ بجلی کی کمی ہے نہ گیس کی مگر عوام کو پریشان کیاجارہا ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو جتنے پیسے دینگے وہ اتنی ہی بجلی پیدا کرینگی۔ پاور پراجیکٹس پٹرول پر چلائے جاتے ہیں بجلی مہنگی کیوں پیدا نہ ہو گی۔ پانی سے پیداوار کا کوئی پراجیکٹ نہیں بن رہا۔ کالا باغ ڈیم کے علاوہ بھی تو کئی ہائیڈل پراجیکٹ بن سکتے ہیں لیکن اس طرف توجہ ہی نہیں ہے۔یہ صاحب پی پی پی سے بھی بدزن تھے۔ ایک واقعہ سُنایا کہ انکے جاننے والے ایک انجینئر کے اوورسیز دوستوں نے پاکستان میں وسیع پیمانے پر سولر پینل کیلئے سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا، وہ حب الوطنی کے جذبے سے آسان قسطوں پر یہ سلسلہ شروع کرنا چاہتے تھے، وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف سے ملے، انہوں نے بڑی توجہ سے انکے منصوبے کو سُنا اور آخر میں کہا، اس میں سے ہمارا حصہ کیا ہو گا؟ یہ لوگ وزیراعظم گیلانی کے پاس چلے گئے۔ ان کا بھی یہی جواب تھا۔ ان لوگوں نے کسی طریقے سے صدر زرداری کو اپروچ کیا انہوں نے مشورہ دیا وزیراعظم گیلانی جس طرح کہتے ہیں کر لیں۔“
نوجوان نے جو کچھ مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا اگر یہ لاہور کی عمومی سوچ ہے تو اندازہ کر لیں کہ لاہور آج کی صورتحال کے تناظر میں لاہور کس کے ساتھ ہے۔ حکومت نے ایک مرتبہ پھر بجلی کی قیمت بڑھا دی، عمران خان نے پورے ملک میں مظاہروں کی دھمکی دی تو وزیراعظم نے یہ فیصلہ واپس لے لیا۔ اس گناہ بے لذت کا سیاسی فائدہ کس کو ہوا؟ یقینی طور پر عمران خان کو ہوا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے مینار پاکستان پر بڑی گھن گرج سے کہا تھا ”لاہور عوامی تحریک کا ہے“ مگر وہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر دو حرف کہے بغیر اسلام آباد سے دھرنا ختم کر کے رخصت ہو گئے۔ وہ انقلاب لانے گئے تھے بوریا جھاڑ کر واپس چلے آئے۔ تھگ گئے تھے یا مک مکا ہوا۔ سُننے میں آیا ہے کہ 65 کروڑ میں شیخ الاسلام نے دھرنا بیچا۔ اتنے تو اس پر اخراجات آ گئے ہوں گے۔ کہتے ہیں وہ پرویز الٰہی نے بھرے تھے۔ یہ 65 کروڑ جبہ کی جیبوں میں گیا۔اب رانا ثنااللہ اور توقیر شاہ کو بحال کیا جا رہا ہے۔شیخ الاسلام اس پر خاموشی اختیار فرمائینگے۔
علامہ صاحب نے فرمایا تھا انقلاب کے بغیر ہم میں سے کوئی واپس آئے تو دوسرا اُس کو شہید کر ڈالے۔ دیکھیں کیا فرماتے ہیںعلامہ طاہر اشرفی بیچ اس مسئلے کے۔ حکومت نے تمام مقدمات واپس لے لئے، گرفتارشدگان رہا کر دئیے ۔خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ ہم کیوں بتائیں کہ حکومت اور طاہر القادری کے درمیان کیا طے پایا۔ طاہر القادری کا دھرنا کامیاب جا رہا تھا کہ وہ پھسل گئے بلکہ کچھ دیکھ کر اس پر گر گئے۔ انہوں نے شہر شہر دھرنے دینے کا اعلان کیا ہے یہ دھرنے اڑھائی ماہ میں مبلغ 5 عدد ہونگے۔ قوم اب ان پانچ دھرنوں کی کوکھ سے انقلاب کے جنم کی امیدیں باندھ لے۔ طاہر القادری نے مُلا اور مجاہد کا فرق ظاہر فرما دیا۔علامہ کے دھرنے میں اذانیں ہوتی رہیں جو مُلا کی اذانیں ثابت ہوئیں۔ جب مسلم لیگ (ن) کے رہنما کنٹینر میں جا کر منتیں کررہے تھے تو اُس وقت دھرنے کے خاتمے کا جواز بھی موجود تھا۔ علامہ اقبال کی پیش بینی کو سلام، انہوں نے فرمایا تھا ....
میں جانتا ہوں اُس معرکے کا انجام
جس معرکے کے مُلا ہوں غازی
دھرنوں کا ایک اپنا وقار اور اعتماد ہے۔”شیخ الابہام“ نے جس طرح دھرنا اٹھایا انکے پیروکاروں کیلئے یہ نیک نام نہیں ہوگا۔ نکمے کو کہا جاتا ہے ” کچھ نہ کرنے جوگا۔“ بددعا کی صورت میں مرنے جوگا کہا جاتا ہے۔ عوامی تحریک نے جس طرح دھرنے کی مٹی پلید کی نئی اصطلاح میں نکموںکو دھرنے جوگا کہا جائے گا تو غلط نہ ہو گا۔
طاہر القادری کی سیاست کا تذکرہ تادیر ہو گا۔ آج کی سیاست اپنی ڈگر پر گامزن ہے۔ جاوید ہاشمی کی سیاست کا ایک ہی مثبت پہلو ہے کہ انہوں نے ووٹوں کی گنتی کے دوران ہَوا رُخ دیکھ کر اپنی شکست تسلیم کی اور عامر ڈوگر کو مبارکباد دی۔ عامر ڈوگر نے بھی اچھا کیا۔ جاوید ہاشمی کے گھر جا کر اشیرباد حاصل کیا۔ مسلم لیگ (ن) اس حلقے میں نتیجے پر کہتی ہے کہ ہماری اخلاقی فتح ہوئی۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ ہماری سیاسی فتح ہوئی۔ ایسا ہے تو پھر قومی اسمبلی میں اسی بنیاد پر حلف بھی انکے امیدوار اٹھا لیں۔ عمران خان ڈٹے ہوئے ہیں ان کا دھرنا جاری ہے، ان کو خریدنا شاید ممکن نہیں۔ وہ نواز شریف کے استعفے کے بغیر ٹلتے نظر نہیں آتے تاہم انہوں نے یہ کہا ہے، بلاول اپنے ابا جی زرداری اور انکل نواز شریف سے انکی باہر پڑی دولت کا پوچھ لیں تو وہ بلاول کو اپنا لیڈر مان لیں گے۔ کل انہوں نے کہا کہ نواز شریف اپنے اثاثے ظاہر کر دیں تو وہ دھرنا ختم کر دیں گے۔ یہ شرائط نہ جانے کیوں بلاول اور نواز شریف پر بھاری ہیں؟ ماہر معاشیات احسان بٹالوی کہتے ہیں کہ (ن) لیگ کے سابق دور میں ایک امیراوورسیز پاکستانی نے وطنِ عزیز کے تمام قرضے یکمشت ادا کرکے بلا سود قسطوں میں وصولی کی پیشکش کی۔ اسکی مری میں بڑی حکومتی شخصیت سے ملاقات کرائی گئی ، اس پیشکش کو بڑا سراہا گیا اور معاملہ اس فقرے پر ختم ہو گیا۔”اس میں ہمارا کمیشن کیا ہو گا؟“ ایسے کمیشنوں کی دولت کو کوئی کیسے اثاثوں میں ظاہر کرسکتا ہے؟کیا پی پی پی اور ن لیگ کے حامی اپنے لیڈروں کی دیانت کی قسم دے سکتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024