-
سعودی عرب میں بادشاہت کے استحکام یا تیزی سے بڑھتے ہوئے اقتصادی دباؤ سے نکلنے کیلئے نوجوان سعودی ولی عہد کے انتہائی انتظامی اقدامات ہوں یا شمالی کوریا کی عالمی دباؤ کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایٹمی میزائل سازی‘ ایٹمی اسلحہ کے تجربات اورر اٹھتے بیٹھتے امریکہ کو دھمکیاں‘ مشرق وسطی سے لیکر مشرق بعید تک تبدیل ہوتے حالات کا ایک طوفان برپا ہے۔ اس حوالے سے خطے کے ممالک نئی صف بندیوں میں مصروف ہیں۔ امریکہ‘ افغانستان میں عسکری قوت کے بل پر امن لاگو کرنا چاہتا ہے جس کیلئے امریکہ کے بعد اب نیٹو بھی افغانستان میں مزید تین ہزار فوجی بھیجنے کیلئے تیار ہو گیا ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ماضی میں امریکہ اسکے اتحادیوں اور نیٹو کی اجتماعی طور پر ایک لاکھ 65ہزار کی نفری پر مشتمل افواج 13 برسوں تک عسکری قوت کے بے دریغ استعمال کے باوجود ناکام ہو کر 2014ء میں وہاں سے فوجی انخلا پر مجبور ہوئیں اور آٹھ سے دس ہزار کی فوجی تعداد کو بگرام سمیت افغانستان میں اپنے لئے قائم کئے گئے محفوظ اڈوں پر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا جسے موجودہ امریکی صدر ٹرمپ نے غلط قرار دیتے ہوئے افغان طالبان کیخلاف طاقت اور انہیں کمزور کرنے کیلئے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ ٹرمپ نے دھونس و دھمکی کے استعمال سے سعودی عرب کو ایران کا ڈراوا دکھاکر چند ماہ قبل 20 مئی 2017ء کو ریاض میں سعودی حکومت کو 340 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ فروخت کرنے کے علاوہ اور بہت سے معاہدوں کی آڑ میں تیل و معدنیات کی دولت سے مال مال سعودی عرب کی بہت سی دولت نچوڑ کر امریکہ میں روزگار کے نئے مواقع اور معاشی استحکام کے تاثر سے اپنے خلاف امریکیوں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی نفرت پر قابو پانے کی کوشش کی۔ کچھ اسی طرح کا ہتھکنڈہ ٹرمپ نے ایشیاء کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بھارت پر بھی آزمائی جو صرف اس لئے کارگر ثابت نہ ہو سکی کہ بھارتی معیشت سے متعلق عالمی میڈیا کی طرف سے پھیلایا گیا ’’شائنگ انڈیا‘‘ حقیقت میں غلط ثابت ہو گیا۔
25 جون 2017 کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کو فتح کرنے کا خواب سجائے امریکہ پہنچا تو ٹرمپ نے اس کو سفارتی آداب اور پروٹوکول سے ہٹ کر جھپیوں اور بوسوں سے نوازا اور کہا کہ جنوبی ایشیاء میں بھارت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا فطری ا تحادی اور ہر دلعزیز دوست ہے۔ بھارت نے بھی اپنی ستر کروڑ سے زائد آبادی کی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والی اپنی لاچار عوام کی پرواہ نہ کرتے ہوئے امریکہ کو اسلحہ کی خریداری کیلئے بے شمار معاہدوں سے کا تحفہ دیا جن میں امریکہ کی طرف سے بھارت کو ڈرون طیاروں کی فراہمی کا معاہدہ سب سے زیادہ اہم تھا حالانکہ قبل ازیں امریکہ کے صدر باراک اوباما بھارت پر مہربان ہونے کے باوجود چین سے امریکہ کے تعلقات کا توازن برقرار رکھنے کیلئے بھارت کو ڈرون بیچنے سے اجتناب کرتے رہے تھے مگر ٹرمپ کی طرف سے 22 عدد ایم کیو 9 ڈرونز کی فراہمی بھارت کیلئے بہت بڑی نوازش تھی اتنا ہی نہیں بھارت کو مزید گدگدانے اور خوشی سے نہال کرنے کیلئے امریکہ نے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فراہمی بھی روک دی اس سے بڑھ کر امریکہ کی طرف سے بھارت کو طیارہ بردار جنگی بحری جہاز بیچنے کا دانہ بھی ڈالا گیا گو بھارت کو ہر طرح کے جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کے پیچھے امریکہ کے چین کیخلاف مقاصد اور مفادات وابستہ تھے۔ بھارت بھی اس عرصہ میں چین کے ساتھ بھوٹان سے ملحقہ بارڈر پر ڈوکلام کے مقام پر پورے دس ہفتے تک کشیدگی کو ایسے مقام پر لے آیا جسے دیکھتے ہوئے لگتا تھا جیسے دونوں ایٹمی طاقت کے حامل ہمسایوں کے مابین کسی وقت جنگ کا بگل بج سکتا ہے۔ مذکورہ سرحدی کشیدگی کا آغاز بھارتی فوج کی طرف سے 16 جون 2017ء کو اس وقت ہوا جب بھارتی وزیراعظم مودی کے امریکہ سرکاری دورے پر روانگی میں چھ روز باقی تھے۔ امریکہ سے اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدوں کے بعد مودی کی واپسی پر ہندوؤں نے اس طرح جشن منایا کہ جیسے ان کا وزیراعظم امریکہ فتح کر کے لوٹا ہو لیکن بھارت میں اپوزیشن ہی نہیں غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے بھی مودی پر بھارت کو امریکہ کے پاس گروی رکھنے کا الزام عائد کر دیا۔ ان کا موقف بڑا واضح تھا وہ سمجھتے تھے خطے میں چین کے ساتھ بھارتی ٹکراؤ امریکہ کے مفاد میں تو ہو سکتا ہے بھارت کیلئے اس میں سوائے تباہی کے کچھ نہیں۔اس موقع پر امریکی صدر ٹرمپ کی نریندر مودی سے پرانی دوستی‘ ٹرمپ کے بھارت میں پانچ بڑے رئیل سٹیٹ پراجیکٹس اور ان کیلئے بھارتی وزرات عظمی کا 2014ء میں قلمدار سنبھالنے سے قبل نریندر مودی کی طرف سے ٹرمپ کو بھارت میں فراہم کی جانے والی سہولت کاریوں کے قصے بھی بھارتی میڈیا اور عالمی اخبارات کی زینت بنے جس میں پہلی بار بھارتیوں کو امریکی صدر ٹرمپ کی صدارتی الیکشن میں حصہ لینے سے قبل بھارت میں سرمایہ کاری کے نام پر کی جانیوالی چکر بازیوں کی بابت معلوم ہوا کہ ٹرمپ جس نے ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر بھارت میں خرچ کرنے تھے بنا ایک ڈالر خرچ کئے مقامی بلڈرز اور لینڈ مافیا کو حصے دار بنا کر متعدد بلند و بالا ’’ٹرمپ ٹاورز‘‘ کا مالک بن گیا۔ ممبئی میں 23 منزلہ 2 متوازی ٹاور مکمل ہو چکے۔ ممبئی میں 17 ایکڑ زمین پر تعمیر کردہ 75 منزلہ ٹاور بھارت میں سب سے زیادہ مہنگے رہائشی لگژری فلیٹس‘ دفاتر اور کاروباری مراکز کی شہرت اختیار کر چکا ہے۔ اس ٹاور کے ساتھ 17 ایکڑ پر مشتمل کار پارکنگ اور تفریح پارک بھی شامل ہے۔ گرگاؤں نیو دہلی میں ایک ٹاور دفاتر کیلئے تو دوسرا صرف رہائشی مقاصد کیلئے زیر تعمیر ہے جبکہ نیو دہلی میں ممبئی کے طرز پر 75 منزلہ اور کلکتہ میں 38 منزلہ ٹاور ابھی تعمیری مراحل میں ہے۔ ان تمام منصوبوں میں ٹرمپ کے بھارت میں حصہ دار جو بدعنوانیوں‘ لین دین میں فراڈ اور زمینوں پر قبضوں جیسے مقدمات کی زد میں تھے کہ ٹرمپ کے امریکہ میں صدر بنتے ہی انکے ساتھ خصوصی نرمی برتی جانے لگی۔ بھارت کی طرف سے امریکہ کو دوسرا انکار شمالی کوریا سے سفارتی تعلقات کے حوالے سے تھا۔
امریکہ بھارت کو جنوبی ایشیاء کا تھانیدار بنانے چلا تھا اب اسے یہ احساس بھی ستائے جا رہا کہ بھارت جو افغانستان میں اسکے ساتھ دفاعی معاملات میں حصہ دار بننے سے انکار کر چکا ہے۔ اب وہ معاشی امداد کے حوالے سے بھی پیچھے ہٹ رہا ہے کیونکہ پاگلوں کی طرح جدید اسلحہ کی خریداری کرنے والا بھارت تیزی سے معاشی بدحالی کی دلدل میں گر رہا ہے۔ اس راز سے پردہ اٹھانے والا بھارت کی کانگرس جماعت کا کارکن یا بی جے پی مخالف معیشت دان نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا اپنا سابقہ فنانس منسٹر یشونت سہنا ہے۔ بھارتی وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کو جھوٹ اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں شرح نمو 3.7 تک پہنچ چکی ہے۔ ملک میں معاشی ابتری کی بدولت وہاں عوام میں پائی جانیوالی بے چینی سے توجہ ہٹانے کیلئے بھارت لائن آف کنٹرول پر پاکستان کیخلاف محدود جنگ کا ڈرامہ رچا سکتا ہے۔ پاک فوج بھارت کو کسی بھی شرارت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے تیار ہے لیکن ملک میں جاری سیاسی انتشار کا کیا کیا جائے جو ختم یا کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024