جرمنی سے میرے کلاس فیلو حمید نیازی نے فون کیا۔ کشمیر اور بلوچستان پر ہی مسلسل لکھے چلے جارہے ہو‘ عرض کیا بھارت بھی تو کشمیر میں انسانیت سوز مظالم‘ کنٹرول لائن پر فائرنگ‘ گولہ باری اور بلوچستان میں دہشت گردی مسلسل کروا رہا ہے۔ کوئٹہ سے نواز بنگلزئی نامی نوجوان نے فون کیا۔ آپ نے بہت چشم کشا حقیقت بیان کی ہے کہ نام نہاد قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں نے بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کے اربوں‘ کروڑوں روپے ہڑپ کرنیوالوں پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی اسکے برعکس بلوچستان کی ترقی میں کردار ادا کرنے والوں کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں یہ بلوچستان کے کیسے ’’دوست‘‘ ہیں ان سے عرض کیا ان کا معاملہ ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘ والا ہے۔ انہیں بلوچستان کے عوام یا بلوچستان کی تعمیروترقی سے کوئی غرض نہیں بھارت سمیت پاکستان دشمنوں سے ڈالر ہتھیا کر عیش کر رہے ہیں تاہم بھارت یا پاکستان دشمن انہیں ڈالروں کی سوغات اس لئے نہیں دے رہے کہ وہ عیش و عشرت اور موج میلے کی زندگی بسر کریں بلکہ وہ انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال بھی کررہے ہیں برطانیہ اور یورپ میں ’’فری بلوچستان‘‘ مہم اس سلسلے کی کڑی ہے بالخصوص بھارت انکے ذریعہ پاکستان سے پراکسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اگرچہ بلوچستان میں دہشت گردوں کا کافی حد تک صفایا کردیا گیا ہے لیکن مکمل صفایا اس لئے مشکل ہے کہ یہ دن کے وقت عام لوگوں کی زندگی بسر کرتے ہیں رات کو دہشت گرد کاروپ اختیار کرلیتے ہیں تاہم ان کی تعداد اب بہت کم ہے جس کا ثبوت صوبے کے ان علاقوں سے جہاں ان کا زور تھا پریشان کن خبریں نہیں آرہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر نذر بلوچ کے اہم ساتھی یونس توکلی کے مارے جانے سے ان کی کمر ٹوٹی ہے بہت کم افرادی قوت رہ جانے کے باعث کیونکہ پہلے جیسی دہشت گردی ممکن نہیں رہی اس لئے اب ایک نئی حکمت عملی کے تحت ان چند دہشتگردوں کے ذریعہ جو پہاڑوں میں روپوش ہیں ہائی پروفائل ٹارگٹ نشانہ بنائے جارہے ہیں ظاہر ہے ایک سو عام لوگوں کے مارے جانے کو عالمی سطح پر اتنا محسوس نہیں کیا جاتا جتنا کسی پولیس آفیسر یا اہلکار اور فوج‘ رینجرز یا ایف سی کے آفیسر یا جوان کا نشانہ بننا توجہ حاصل کرتا ہے اسی حکمت عملی کو بروئے کار لایا جارہا ہے۔
بھارت کے خفیہ اداروں نے گنتی کے افراد پر مشتمل نام نہاد گروپوں کا ایک دہشت گرد اتحاد بنانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن یونائٹیڈ بلوچ فرنٹ کے نام سے بننے والے اس بھارتی سپانسرڈ کنسوریشم کی بیل اس لئے منڈھے نہ چڑھ سکی کہ اسکے اہم رہنما مہران مری کے سوئٹزرلینڈ میں داخلے پر پابندی لگ گئی۔اس سلسلے میں علامیہ بھی تیار کیا جاچکاتھا۔ مہران مری پر پابندی کے بعد دیگر شدت پسند اچانک گمنامی میں چلے گئے براہمداغ بگٹی جنیوا میں اپنے فلیٹ سے غائب ہے اور صرف سوشل میڈیا پر پیغام رسائی کررہا ہے براہمداغ بگٹی نے سوئس حکام سے ملاقات کی کوشش کی مگر ناکام رہا مہران مری پر پابندی سے صورتحال میں تیزی سے تبدیلی دیکھنے میں آئی ۔ مہران کا معتمد خاص شیر محمد مری زیورخ سے غائب ہے اسی طرح ان کا ساتھی جمال حیدر بلوچ جو جرمنی سے زیورخ پہنچا تھا یہاں آنے کے بعد اسکی کوئی اطلاع نہیں ہے بلوچستان لبریشن آرمی کا حربیار مری جو کچھ عرصہ قبل نئی دہلی سے لندن پہنچا تھا اپنی لندن میں رہائش گاہ سے غائب ہے 16 نومبر کو جنیوا میں بلائے جانیوالے اجلاس میں ڈاکٹر نذر بلوچ کی بلوچستان لبریشن فرنٹ‘ جاوید مینگل کی لشکر بلوچستان‘ حربیار کی بلوچستان لبریشن آرمی‘ براہمداغ بگتی کی بلوچ ریپبلکن آرمی اور دیگر ایک یا دو افراد پر مشتمل گروپوں نے شرکت کی ۔ دو دو، تین تین افراد پر مشتمل گروپ اس لئے بنائے گئے ہیں تاکہ دنیا کو دھوکہ دیا جائے کہ بلوچستان کی بہت سی تنظیمیں پاکستان میں آمادۂ شورش ہیں اور علیحدگی چاہتی ہیں سوئس انٹیلی جنس سروسز کے حوالے سے اطلاعات کے مطابق ’’یونائٹیڈ بلوچ فرنٹ‘‘ کا اعلان 18 نومبر کو کیا جانا تھا سوئٹزرلینڈ میں پابندیوں کے بعد اب اس مقصد کیلئے لندن کا انتخاب کیا گیا ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں ان افراد کی سرگرمیوں اور مہران مری پر داخلے کی پابندی را کے مغربی ڈیسک سے وابستہ این جی اوز تھنک ٹینکس اور میڈیا نے انسانی حقوق کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی مگر ناکامی مقدر بنی یونائٹیڈ بلوچ فرنٹ بنانے کا مقصد پاکستان کیخلاف مشترکہ کارروائیاں اور مشترکہ پروپیگنڈہ مہم چلانا تھا امریکہ ، برطانیہ اور یورپ میں بھارتی سفارت خانوں میں قائم خصوصی ڈیسک ان نام نہاد بلوچ گروپوں کو افرادی قوت فراہم کرنے کیلئے ان انتہا پسند بھارتی ہندوئوں کو بھی ان گروپوں کے ارکان ظاہر کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں جن میں بجرنگ دل، شیوسینا، ویشواہندوپریشد، راشٹریا سیوک سنگھ اور پچرنگ دل شامل ہیں ۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان انتہا پسند ہندوئوں اور بلوچ شدت پسندوں کے ذریعہ امریکہ ‘ برطانیہ اور یورپ میں پاکستانی سفارت خانوں کے باہر احتجاجی مظاہرے کرائے جائینگے بھارت کے اس منصوبے کو اسرائیل کی معاونت بھی حاصل ہوگی۔ دریں اثنا شدت پسند بلوچ نوجوانوں کو جکراتہ ڈیرہ دون چیک پوسٹ میں مسلح تخریب کاری کی تربیت دی جاتی ہے جن سے بلوچستان میں گیس پائپ لائن اور بجلی سپلائی لائن کو اڑانے ، لسانی اور فرقہ وارانہ خلفشار پھیلانے کا کام لیا جاتا ہے۔ بھارتی تھنک ٹینک سائوتھ ایشین ریسرچ کی ایک دستاویز کے مطابق ’’پاکستان مخالف بلوچ نوجوانوں کی نفسیاتی تربیت سیکولر بنیادوں پر کی گئی ہے جو بلوچستان میں اپنے اہداف اچھی طرح سمجھتے ہیں‘‘ اور یہ شاید بلکہ یقینا اسی تربیت کا مذموم مظاہرہ ہے کہ شمالی امریکہ میں مقیم بلوچ لبریشن فرنٹ کے ڈاکٹر واحد بخش بلوچ نے ہندو تنظیموں کو خط لکھا ’’ہم نے پاکستانی فوج کے ظلم و ستم سے نجات کیلئے خدا سے مدد مانگی تھی لیکن یہ خدا جسے وہ اللہ کہتے بھی (نعوذ بااللہ) پنجابی فوج سے مل گیا اب بلوچوں کا وہی خدا ہوگا جو انہیں پاکستانی فوج سے نجات دلائے گا چاہے وہ ہندوئوں کا شیو ہو یا حضرت عیسیٰ ؑ ہوں یا حضرت موسیٰ ؑ ہوں وہی ہمارا خدا ہوگا‘‘ اس خط کی کاپی امریکی صدر اور بھارت اسرائیل کے وزرائے اعظم کو بھی بھیجی گئی ۔ ڈاکٹر واحد بخش بلوچ نے اپنے ذہنی کوڑھ کا اظہار کیا ہے بلوچ عوام ایسی سوچ کے قریب پھٹک بھی نہیں سکتے۔ ایک اور بھارتی تھنک ٹینک R-PRASANNANکی جانب سے جاری کردہ تحریری مواد کے مطابق ’’بھارت میں بہت سے لیڈر ہیں جو کھل کر کہتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان ‘ جو درحقیقت ایک قانون شکن مذہبی گروہ ہے اور فاٹا میں پاک فوج سے لڑائی کررہا ہے اس کی بھارت اور امریکہ سے فنڈنگ کی جارہی ہے‘‘ بھارت کے پاکستان میں سازشوں اور بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے یہ چونکا دینے والے واحد ثبوت نہیں بلکہ ایسے کئی اور شواہد اور ثبوتوں کے سلسلے کی کڑی ہیں۔تربت اور مکران میں روپوش دہشتگردوں پر ہاتھ ڈالنے کیلئے سرچ آپریشن کے دوران دہشتگردوں نے فائرنگ کردی‘ فوج کی جوابی فائرنگ سے تربت میں دو دہشتگرد ہلاک ‘ایک جوان شہید اور دو زخمی ‘ جبکہ مکران میں دو دہشتگرد ہلاک ہوگئے، بھاری مقدار میں بارودی مواد، اسلحہ اور دیگر سامان برآمد کرلیا گیا۔ سکیورٹی اداروں کی جانب سے بچے کھچے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کیلئے جانی قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے پاک فوج یقینا ملکی سلامتی کی جنگ لڑ رہی ہے پوری قوم کو 65ء کے جذبہ کیساتھ فوج کی پشت پر کھڑا ہونا چاہئے۔ تسلیم کرلیا جائے بھارت نے برطانیہ کی ’’مہربانی‘‘ سے نفسیاتی برتری حاصل کرلی ہے عالمی عدالت انصاف کے جج کے انتخاب میں برطانوی جج کرسٹوفر گرین کو سلامتی کونسل میں جبکہ بھارتی جج دلویر بھنڈاری کو جنرل اسمبلی میں برتری مل گئی تھی۔ برطانوی جج نے ٹائی پڑنے پر مقابلے سے دستبردار ہوکر بھارتی جج کی راہ ہموار کردی۔ برطانیہ کی بھارت پر یہ ’’مہربانی‘‘ تعجب خیز نہیں‘ بھارت کی درخواست پر عالمی عدالت میں کلبھوشن کی پھانسی رکوانے کا مقدمہ زیرالتوا ہے آئندہ سماعت کے دوران بھارتی جج کی موجودگی پاکستانی قانونی ماہرین کیلئے بڑا امتحان ہوسکتی ہے۔