احتجاج ہر جمہوری اور باشعور معاشرے میں ایک بنیادی حق تصور کیاجاتاہے جب ایک عام طریقے سے کسی کی شنوائی نہ ہو توپھر لوگ احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں، احتجاج کی کئی قسمیں ہوتی ہیں جن کا مقصد ارباب اختیار کی توجہ حاصل کرنا ہوتاہے، دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ معاشروںمیں تو خاموش احتجاج کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے کیونکہ وہاں انسانی اقدار بہت حد تک فروغ پاچکی ہیں اور ان کی پاسداری نہ کرنے کا تصور بھی بہت کم ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میںمسائل بھی مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان سے نمٹنے کا طریقہ بھی کوئی ایک نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں چونکہ خاموش احتجاج یا مہذب احتجاج کی عموماً کوئی اہمیت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے آپ کو آئے روز سڑکیں بند اور روز مرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہوتی نظرآتی ہے عام تاثریہی ہے جو کہ کافی حد تک درست ہے کہ جب تک اس طرح کے طریقے نہ اپنائے جائیں حکمرانوں اور ارباب اختیار پر کوئی اثر نہیں ہوتا، ہمیں یقیناً اس طرز زندگی اور کلچر کو بدلنا ہوگا کیونکہ اس سے نہ صرف روز مرہ کی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ ملک کا تشخص بھی بری طرح داغدار ہوتاہے ہم ویسے ہی اتنے مسائل کا شکار ہیں کہ ایسے میں اس طرح کے آئے روز کے احتجاج کی صورتحال کو مزید گھمبیر بنارہے ہیں۔
مسائل کی نوعیت بھی مختلف قسم کی ہوتی ہے ان میں کچھ ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں تو کچھ اجتماعی نوعیت کے لیکن ایک قسم جو سب پر مساوی نظرآتی ہے وہ سیاسی نوعیت کے مسائل اور مطالبات ہیں یہ بھی بات درست نہیں کہ مطالبہ ہمیشہ ٹھیک ہی ہوتاہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر کوئی اپنے مفاد کے مطابق سوچتا اور عمل کرتاہے۔ ویسے تو ہرکوئی مفاد عامہ اور قانون کی عملداری کی بات کرتاہے مگر اس سلسلے میں جب کوئی قدم اٹھایاجاتاہے تو اسکی بھرپور مخالفت کی جاتی ہے بلکہ بعض اوقات تو یہ مخالفت مزاحمت پر اترآتی ہے، سول سوسائٹی اور معاشرہ بھی اس پر عموماً کچھ نہیں بولتا اور سیاسی جماعتیں بھی حکومت وقت کو نیچا دکھانے کیلئے میدان میں اتر آتی ہیں۔ وجہ کوئی بھی ہو اور مطالبہ کتنا ہی غیرموزوں کیوں ن ہو اس کی حمایت کرنا ایمان کا جزو سمجھاجاتاہے کیونکہ مقصد حکومت کو پریشان کرنا ہے، گزشتہ دو ہفتوں سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم کے واقع فیض آباد چوک پر ایک تماشا لگا ہواہے، لاکھوں لوگوں کی زندگی حرام ہے اور ملک کی بدنامی ہورہی ہے، اشتعال انگیزی، نفرت، کردار کشی، گالم گلوچ اور فساد پر اکسانے والی تقاریر ہورہی ہیں مگر میڈیا، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتیں اور معاشرہ بحیثیت مجموعی خاموش ہے۔ اس طرز عمل پر خاموشی کسی سنگین جرم سے کم نہیں کیونکہ بظاہر تو اس کی وجہ حکومت مخالف ہے مگر دراصل اس سے ہم اپنے ملک کی جڑوںکو نہ کہ کھوکھلا کررہے ہیں،2012ء کے اواخر سے شروع ہونیوالا دھرنا کلچر اب ایک رواج بن چکا ہے،2014ء میں دارالحکومت میں لگایاجانیوالا تین ماہ سے زیادہ تماشا سب نے دیکھا تھا مگر اس سے حاصل کیا ہوا، نقصان یقیناً ناقابل تلافی تھا جس کا ذمہ دار کون ہے، آج جس کا دل چاہتا ہے مطالبات کی ایک فہرست لیکر چوراہے میں بیٹھ جاتاہے، لوگوں کی زندگی عذاب اور میڈیا کو ایک موضوع مل جاتاہے، حکومت تو زیرعتاب آتی ہے مگر اس سارے گھنائونے کھیل میں اصل نقصان ریاست کا ہورہاہے، سیاسی مقاصد کے تحت ہونے والے اس طرح کے احتجاج سے ریاست اس حد تک کمزور ہوچکی ہے کہ ایک بے بسی کا عالم ہے، بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ سیاسی، مذہبی، لسانی اور گروہی بنیادوں پر اس قدر تقسیم ہوچکا ہے کہ اپنی پسند اور ناپسند سے آگے سوچنے کو کوئی تیار ہی نہیں، اس طریقہ کار سے ہم وقتی طور پر تو اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکتے ہیںمگر یہ اب ایک ایسا رواج بنتاجارہاہے کہ آنے والے وقت میں آج اس کا نشانہ بننے والے خود بھی یہی کچھ کہہ رہے ہونگے جبکہ دوسری طرف آج اس کا پرچا کرنے والے پھر شکایت کرتے نظرآئیں گے، اس طرح کے دھرنا کلچر کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں نظرآتی ہو، اگر اس طرح سے حکومتیں گرائی اور کمزور کی جاتی رہیں توپھر ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ کہیں بھی ایسانہیںہوتا کہ حکومت کو پرامن اور مخصوص جگہ پر احتجاج کا کہہ کر اور یقین دلاکر دوسرا راستہ اختیارکرلو، بدقسمتی سے یہ طریقہ کار2012اور2014ء کے دھرنوں سے شروع ہوا اور کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے،100%مطالبات کبھی پورے نہیں ہوتے مگر بیان تو سب کچھ منوانے کے بعد صرف ایک مطالبے پر ہیجان پیداکیا ہواہے اگر اس طرح استعفے لیے اور دیئے جاتے رہے توپھر ہم کہاں رکیں گے، عدالتیں احکامات دے رہی ہیں مگر حکومت ایکشن لینے سے قاصر ہے کیونکہ اگر کسی کا نقصان ہوگیا (جس کا کافی حد تک امکان ہے) تو پھر ہرطرف آگ لگ جائے گئے اور آج حکومت سے ایکشن کا مطالبہ کرنے والے بھی سڑکوں پر سب سے آگے ہونگے، ربیع الاول کے پاک اور بابرکت مہینے میں آقا نامدار حضرت محمدﷺ کا نام لیکر اس طرح فساد پھیلانا کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں، آنحضور ﷺ تو رحمت العالمین ہیں ہمیں تو اپنے نبی کا صحیح معنوں میں پیروکار ہونا چاہیے، ناموس رسالت اور ختم نبوت دو ایسی چیزیں ہیں جن پر سمجھوتے کا کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتا کیونکہ ہمارے ایمان کا حصہ ہیں، جب ختم نبوت کا بل اصل حالت میں بحال ہوچکاہے توپھر ہمیں ایسی افراتفری اور انتشار سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے ہمارے اندرونی خطرات میں مزید خطرناک اضافہ ہوگا جس کا متحمل پاکستان کسی صورت نہیں ہوسکتا، ہمارے دشمن اس ساری صورتحال سے یقیناً بہت خوش ہیں کیونکہ ہم انہی کا کام آسان کررہے ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں، میڈیا سول سوسائٹی اور معاشرہ اپنا اپنا کردار ادا کرے اور سیاسی ذاتی اعتراض ومقاصد کی خاطر اس طرح کے طرز عمل کی حمایت نہ کرے، یاد رہے کہ ان حالات میں خاموشی بھی ایک حمایت ہی تصور کی جاتی ہے اس دھرنا کلچر کو اگر مزید نہ روکاگیا توپھر نہ کوئی حکومت چل سکے گی اور نہ ملک آگے بڑھ سکے گا۔