بنجر زمینیں لا محدود اور زرخیز زمینیں محدود ہیں‘ گھاس پھوس کثیر اور ثمر بار درخت قلیل‘ کانٹے زیادہ اور پھول کم‘ دیدہ ور ناپید اور کند ذہن عام‘ یہ ہے قدرت کا نظام۔ ہیرے نایاب اور کنکر بے حساب ‘ خواص محدودے چند اور عوام بے شمار‘ اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اشخاص لا تعداد اور شخصیات کم ہیں۔ شاعر‘ ادیب ‘ فلسفی ‘ سائنسدان ‘ انقلابی رہنما خال خال لیکن بے مثال اور لازوال‘ انسان دوست آٹے میں نمک کے برابر اور انسانیت کش مثال ریگ صحرا‘ بقول اقبال ....
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
علامہ اقبال نے تو فرما دیا کہ دیدہ ور بڑی مشکل سے پیدا ہوتا ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ دیدہ ور کہاں پیدا ہوتا ہے۔ جن ممالک میں ملوکیت و ملائیت ہو وہ منقولات کے رسیا ہوتے ہیں ۔ معقولات سے دور اور اسیراں و شب دیجور ہوتے ہیں‘ ان کی زبانوں پر مہریں اور سوچوں پر پہرے ہوتے ہیں‘ وہ روایات کے مارے ہیں‘ اسی لئے ضمیر جعفری پکار اٹھے تھے ....
بڑی مدت سے کوئی دیدہ ور پیدا نہیں ہوتا
جو ہوتا ہے مسلمانوں کے گھر پیدا نہیں ہوتا
مولانا کوثر نیازی نے ذوالفقار علی بھٹو پر ایک تعریفی و توصیفی کتاب لکھی جس کا عنوان ”دیدہ ور“ تھا قوم نے اس دیدہ ور کا انجام دیکھا‘ جنرل ضیاءالحق نے اسے تختہ دار پر لٹکا دیا اور جیل میں دو سال تک فرش نشین بنا دیا۔ بقول غالب ....
نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
دیدہ ور اول تو مسلمانوں کے ہاں آمریت و جبریت کے خوف سے پیدا ہونے سے ہی انکاری ہیں اور مغرب کی آزاد فضا¶ں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہم ان کی نقالی اور جگالی کرتے ہیں۔ مغرب زدگی عام اور اخلاقیات ناکام کر دی گئی‘ ان کا زوال اور مال یہی ہے کہ ان کے گھر پیدا ہونے کے بجائے انہیں اپنے گھر پیدا کرو‘ بقول ضمیر جعفری ....
میں بتاتا ہوں زوال اہل یورپ کا پلان
اہل یورپ کو مسلمانوں کے گھر میں پیدا کرو
12 مئی کو عظیم شاعر ضمیر جعفری کا یوم وصال ہے۔ وہ میرے والد گرامی تحسین جعفری کے دوست تھے میں انہیں چچا کہتا تھا میرے اردو و فارسی شعری مجموعہ ”فانوس خیال“ پر انہوں نے روزنامہ جنگ راولپنڈی میں ایک کالم لکھا جس کا عنوان بلبل شیراز تھا والد مرحوم کی وفات پر غریب خانہ پر برائے فاتحہ و تعزیت تشریف لائے اور بعد ازاں اخباری کالم لکھا‘ سر زمین پونچھ کو تین ادبی شخصیات کا گہوارہ قرار دیا‘ چراغ حسن حسرت‘ کرشن چندر اور تحسین جعفری کو کشمیر پونچھ کے سپوت قرار دیا۔افسوس صد افسوس مئی کے مہینہ میں ہی ان کے فرزند ارجمند اور ممتاز مزاح نگار میجر جنرل احتشام ضمیر کی حادثاتی موت واقع ہوئی۔ مرحوم میرے دوست تھے‘ سال گزشتہ مجھے اپنے کالموں کی کتاب ”متاع ضمیر“ مرحمت فرمائی‘ انکے کالموں پر ضمیریات غالب ہے ضمیر جعفری کے افکار و اشعار کی ترویج ہے ۔ انداز بیاں برجستہ اور شگفتہ ہے ‘ ممتاز مزاح گو شاعر سرفراز شاہد نے ان کالموں کو ادبی سیاست نامے قرار دیا ہے عطاءالحق قاسمی کی رائے فکر انگیز اور عطر بیز ہے لیکن جنرل ضیاءالحق کے قریبی ساتھی بریگیڈئر صدیق سالک جو کہ نامور ادیب بھی تھے انکے صاحبزادے سرمد سالک کی رائے بڑی دلچسپ لیکن دلگداز بھی ہے وہ ایک سینئر فوجی افسر کے نور نظر ہیں لیکن مارشل لاءپر سخت تنقید کرتے ہیں‘ انکے والد اسی جہاز میں جاں بحق ہوئے تھے جس میں جنرل ضیاءالحق کا خاتمہ ہوا تھا اسلام آباد میں صحافیوں کی ایک تقریب میں جنرل ضیاءالحق نے مرد قلندر امام صحافت مجید نظامی سے کہا کہ آپ خاموش ہیں اورکوئی سوال نہیں کیا تو یہ جمہوریت نواز درویش بے ساختہ بولا۔ ”جناب آپ قوم کی جان کب چھوڑیں گے“ اس بات نے جنرل کو لا جواب کر دیا‘ اقبال نے کہا تھا ....
ہزار خوف ہو لیکن زیاں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
علامہ اقبال ادبی اور فکری دیدہ ور تھے جبکہ قائداعظم سیاسی دیدہ ور تھے قریباً تین دہائی قبل کا واقعہ ہے سابق صدر آزادکشمیر قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید ‘ پرویز الطاف اور راقم الحروف راولپنڈی صدر میں سلور گرل ریستوران میں چائے نوشی اور سیاست گوشی میں مشغول تھے‘ کے ایچ خورشید مرحوم کے قائداعظم کے بارے میں ایک واقعہ سنایا‘ کہنے لگے کہ ایک وفد مقررہ وقت پر قائداعظم سے ملاقات کیلئے آیا۔ میں نے اراکین وفد کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور بتایا کہ قائداعظم مصروف نماز ہیں اور ابھی تشریف لائینگے‘ جب قائداعظم نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے انہیں وفد کی آمد کی اطلاع دی اور کہا کہ وفد کو میں نے چند لمحوں کے انتظار کا کہہ دیا تھا اور بتا دیا تھا کہ قائداعظم نماز پڑھ رہے ہیں یہ سن کر قائداعظم سخت ناراض ہوئے اور مجھ سے کہا کہ کیا میں نماز تمہارے لئے یا وفد کیلئے پڑھ رہا تھا یا خدا کےلئے پڑھ رہا تھا‘ ان لوگوں سے میری عبادت کا تذکرہ کرنے کی کیا ضرورت تھی کے ایچ خورشید مرحوم سے قائداعظم کے خلوص بندگی پر مجھے سورہ ماعون یاد آگئی جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”الذین ھُم یُراعُون“ دکھاوے کی عبادت کی مذمت کی گئی ہے عبادت کا تعلق صفائے قلب اور خدمت انسانیت سے ہے۔ عبادت بندگی ہے ‘ بندگی عاجزی ہے ‘ عاجزی احساس کمتری و احساس برتری کی نفی ہے ‘ مولانا رومی نے کہا تھا ....
جاہلاں تعظیم مسجد می کنند
در جفائے اہل دل جدمی کنند
یعنی جاہل لوگ مسجد کی تعظیم تو کرتے ہیں مگر اہل دل پر مظالم ڈھانے میں بھی کوشاں رہتے ہیں۔ گویا مکان کی تحریم و تکریم ہے لیکن مکین مشق ستم ہے‘ اخباری خبر ہے کہ عراق کے شہر رمادی میں داعش نے پانچ سو عراقی فوجیوں کو ان کی بیوی بچوں سمیت قتل کر دیا‘ فوجیوں کا قتل تو جنگی معاملہ ہے کیا معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل بھی جنگی معاملہ ہے امریکی ریاست بالٹی مور میں سفید فاموں کے ہاتھ بے گناہ سیاہ فام کا قتل رنگ و نسب کے نام پرانسانیت کا قتل ہے شیخوپورہ میں جاتری کہنہ میں گندم کے بھوسے کو اچانک آگ لگنے پر مقامی زمیندار کے غیظ و غضب کا شکار کمسن بچہ ہوا جسے ظالم زمیندار نے جلتی آگ میں جھونک دیا‘ ایک والد نے اپنی جوان بیٹی کو پسند کی شادی کرنے پر گولی مار کر ہلاک کر دیا‘ ایک مال دار بوڑھے نے دولت کے زور پر نوجوان لڑکی سے تیسری شادی رچالی‘ یہ تمام اخلاقی ‘ فطری اور انسانی جرائم ہیں جن کے خاتمے کیلئے دیدہ وروں کا معاشرہ بنانا ہوگا اور جہالت کا خاتمہ کرنا ہوگا لیکن یہ معاملہ بقول فیض کچھ یوں ہے ....
ہاں جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجئے
جو رہ بھی ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے