میں انٹرنیٹ پر آزادی کے حوالے سے کچھ تفصیلات تلاش کر رہا تھا کہ اچانک کمپیوٹر کی اسکرین پرایک تصویر اُبھری۔ تصویر کیا تھی جیسے کھولتا ہوا لاوا تھا جو آنکھوں کے راستے میرے جگر کو چیرتا ہوا میرے سارے جسم میں سرایت کر گیا۔ میرا سارا وجود لرز کر رہ گیا میں نے فوراً آنکھیں اور پھر کمپیوٹر یہ بند کر دیا۔ مجھے لگا کہ مجھ میں وہ تصویر دوبارہ دیکھنے کی سکت نہیں ہے۔ مجھے اپنے حواس بحال کرنے میں بہت وقت لگا یا یوں سمجھ لیں کہ میرے حواس ابھی تک بحال نہیں ہو سکے۔ وہ تصویر میرے تصور میں رچ بس گئی ہے۔ آنکھیں بند کروں یا کھولوں وہ تصویر مجھے سامنے نظر آتی ہے۔
آپ نے ظلم و بربریت کی بہت سی تصویریں دیکھی ہوں گی۔
مرد و خواتین اور بچوں کی دلخراش تصویریں جن پر ظلم ڈھائے گئے لیکن یہ تصویر ایک معصوم اور خوبصورت فلسطینی بچے کی ہے جس کے سر کا پچھلا حصہ اُڑ چکا ہے۔ سر کھوکھلا ہوچکا ہے۔ اس کا باپ اس کو اٹھائے اس کو دیکھ کر چلا رہا ہے، کراہ رہا ہے، آہ و فغاں کر رہا ہے۔ معصوم، نہتے اور مظلوم فلسطینی اور کر بھی کیا سکتے ہیں جب تک عالمی ضمیر منافقت کی چادر تانے اور مسلم حکمران بے حسی اور بے حمیتی کے لحاف اوڑھے سوتے رہیں گے فلسطین میں آئندہ بھی یہی ہوتا رہے گا۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں صرف دس دن کے دوران تقریباً 300 فلسطینیوں کو جن میں معصوم بچے بھی شامل ہیں اپنی سفاکی اور بربریت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور دو ہزار کے قریب مرد، خواتین اور بچے شدید زخمی ہوئے ہیں۔ یہ سب مسلمان تھے اس لئے عالمی میڈیا پر فلسطین انڈر اٹیک کی بریکنگ نیوز نہیں چلیں۔
اقوام متحدہ، امریکہ یا یورپی یونین کی طرف سے کوئی ردِ عمل نہیں آیا۔ جب او آئی سی خاموش، مسلم حکمران خاموش، مسلم میڈیا خاموش اور دنیا بھر کے مسلمان خاموش ہیں تو پھر ہم کافروں سے یہ توقع کیوں رکھیں کہ وہ مسلمانوں کی میتوں پر ماتم یا نوحہ خوانی کریں۔ ہمارے قومی میڈیا کے نزدیک بھی اسرائیلی جارحیت اور سینکڑوں مسلمانوں کی شہادت ایک کلاشنکوف لے کر اسلام آباد کی سڑک پر آنے والے سکندر اور لاہور میں پستول لے کر اپنی محبوب کے دفتر آنے والے نوجوان کے واقعہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کہ جن کے لئے تمام چینلز کئی گھنٹے لائیو کوریج کرتے رہے۔
اسرائیل کے رقبہ اور افرادی قوت کے بارے بہت سی باتیں ہوتی ہیں لیکن یہ اکیلا اسرائیل نہیں ہے۔ اس کے پیچھے امریکہ ہے، تمام مسلم دشمن استعماری قوتیں ہیں جو مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے جال بُنتی ہیں اور فلسطین، کشمیر، عراق، افغانستان، مصر، شام وغیرہ میں اپنی پسند کے کھیل کھیلتی ہیں۔ ہمارے ہاں اگر کوئی امریکہ کے خلاف بات کرے تو زرخرید قسم کے نام نہاد دانشور کہتے ہیں کہ یہاں اگر زلزلہ بھی آئے تو الزام امریکہ پر لگا دیا جاتا ہے۔ چھوڑیں ہم کسی پر الزام نہیں لگاتے اسرائیلی جارحیت کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ہماری بات پر نہ سہی اسرائیل کے وزیراعظم کی بات پر ہی یقین کر لیجیے جو اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسیوں کے مطابق ”اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل نے اپنی دفاعی صلاحیت امریکہ کے تعاون سے بڑھائی ہے اور ہماری اس کامیابی (یعنی فلسطین پر ظلم و بربریت) کا راز امریکی مالی امداد کے طفیل ہے۔ امریکی کانگرس کی رپورٹ کے مطابق غیر ملکی ممالک کی فراہم کردہ مالی امداد کا کثیر حصہ اسرائیل کو جاتا ہے۔ امریکہ نے 65 سال کے عرصے میں اسرائیل کو 121 بلین ڈالر کی مالی امداد فراہم کی ہے۔ دورِ حاضر میں امریکہ اپنے ہاک اور پیٹریاٹ میزائل سسٹم کو اسرائیل کے تحفظ کے لئے استعمال میں لا رہا ہے۔ 2007ءمیں امریکی صدر جارج بش اور اسرائیلی حکومت کے درمیان 10 سالہ عرصے کے لئے 30 بلین ڈالر کا دفاعی معاہدہ طے کیا گیا تھا۔“
گزشتہ دو تین دن کے دوران میری سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ جو تصویر دیکھ کر میں نے فوراً آنکھیں بند کر لی تھیں وہ تصویر اب میں بار بار دیکھ رہا ہوں۔
آئیے! اس تصویر کو غور سے دیکھیں اور بار بار دیکھیں ....!
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024