شہر میں گندگی کے انبار- وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ
ٹبہ سلطان پور ایک قدیمی قصبہ ہے آبادی تواتر سے بڑھ رہی ہے۔ مگر آبادی کے تناسب سے سہولیات ناپید ہیں۔ زیر زمین پانی بھاری اور ناقابل استعمال ہے۔ 1981 ء میں واٹر سپلائی سکیم منظور ہوئی کچھ عرصہ چالو رہی مگر بند ہو گئی۔ شہر میں واٹر فلٹریشن پلانٹ بنائے گئے۔ رورل ہیلتھ سنٹر ٹبہ سلطان پور سے ملحقہ بنایا جانے والا فلٹریشن پلانٹ تا حال چالو نہیں ہو سکا۔ کچھ لوگ ویگنوں اور چاند گاڑیوں پر نہر پاکپتن پر پل 261/WB اور جنڈاں والا پر لگے واٹر پمپوں کے ذریعے پانی نکال کر شہر بھر میں سپلائی کر رہے ہیں اور مکین صاف پانی خریدنے پر مجبور ہیں کیونکہ شہر کا زیر زمین پانی بھاری ہے۔ مکینوں کو صاف پانی فراہم کرنے کی سہولت دی جائے۔ شہر کا سیوریج سسٹم بھی تباہ ہو چکا ہے۔ متعدد گلیوں میں گندے پانی کا راج ہے جس سے تعفن پھیل چکا ہے اور وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں۔ صفائی کا نام و نشان نہ ہے۔ عملہ صفائی لمبی تان کر سو گیا ہے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ علاقہ بھر میں جانورچوری کی وارداتیں عروج پر ہیں۔ مویشی پال سخت پریشان ہیں اور اپنے جانوروں کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ بین الاضلاعی مویشی چور گروہ علاقہ بھر میں سرگرم ہیں۔ ا ب تک بے شمار مویشی چوری ہوچکے ہیں۔ مویشی پال تنگ آ کر سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ مویشی چوروں کے گرد گھیرا تنگ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت 2 بکرے چور پکڑ کر پولیس کے حوالے کئے ۔ ایک فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ ان بکرا چوروں سے 25 بکرے‘ ایک بھینس‘ 2 گائے برآمد ہوئی ہیں۔ تاہم مویشی پال لوگوں نے کہا ہے مویشی چوروں کے گرد گھیرا تنگ ہونا چاہئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے فصلات میں نقصان ہو رہا ہے۔ کاشتکاری گھاٹے کا سودا بن چکی ہے اس وجہ سے لوگوں نے گزر بسر کیلئے مویشی پالنا شروع کر رکھے ہیں مگر تھانہ ٹبہ سلطان پور کی حدود میں مویشی چور سرگرم ہیں اور آئے روز جانوروں کی چوری ہو رہی ہے۔
شہر اور گرد و نواح میں طلباء اغواء کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ لوگ بچوں کو سکول بھیجنے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ ایک طرف لوگ خودساختہ مہنگائی‘ تنگ دستی اور معاشی بدحالی کا شکار ہو کر پریشان ہیں۔ اب ان برائیوں نے جنم لے لیا ہے۔ جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ چوک عاصم ٹبہ سلطان پور پر انتظار گاہوں کا ہونا ضروری ہے۔ مسافر وہاڑی‘ میلسی اور ملتان کے علاوہ دور دراز جانے کیلئے کھڑے ہو کر مسافر بسوں کا انتظار کرتے ہیں۔ بزرگ‘ خواتین اور بچوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چوک عاصم پر انتظار گاہیں بنا کر مسافروں کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ سلیم منیس روڈ پر جگہ جگہ تجاوزات کی وجہ سے رکاوٹیں ہیں۔ 60 فٹ کشادہ روڈ بمشکل 20 فٹ باقی ہے۔ اگر کوئی ٹریکٹر ٹرالی آ جائے تو روڈ بلاک ہو کر رہ جاتا ہے۔ قبضہ گروپ اور تجاوزات مافیا سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اہلیان علاقہ نے ارباب اختیار سے علاقے کے مسائل حل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔