تیس مار خانی
تیس برس کے صحافتی کئیرئر میں حکومتوں کو بنتے اور بگڑتے دیکھا،ہیرو ،زیرو بنتے دیکھے اور اپنے راہنماوں کی بے اعتنائی کا رونا رونے و الے عامیوں کو اچکن میں ملبوس حلف اٹھاتے دیکھا،قسمت کے دھنی بھی پائے،اور بے آبرو ہو کر ایوانوں سے نکالے جانے والے بھی ،اکڑ کر چلنے والے بھی راہ میں ملے اور بے نیاز بھی،غرض اس خاک نشیں کے ذہن میں ایک فلم چلتی ہے اور یادوں کے جگنو چمکنے لگتے ہیں، انسان کو اصول بڑا بناتے ہیں، ان پر پرکھا تو جانا بہت کم ایسے تھے جو مرکز فیض عام تھے اور بہت تھے جو بس تیس مار خان تھے،جو کچھ نہ تھے مگر بڑے کہلاتے رہے،ان کی آن ،بان اور شان میں کسی اعلی انسانی خوبی کاکمال نہ تھا بس کہیں کاسہ لیسی اور کہیںمنافقت،کہیں مفاد اور کہیں دباو نے ایسے افراد کو مسلط کر دیا تھا ،اسی اسلام آبا میں کسی پارک میں ایسا بڑاانسان موجود ہے جو درخت کے سایہ تلے بیٹھا، کئی دہائیوں سے بچوں کو زیور تعلیم دے رہا ہے،کاپی ،کتابیں اپنی تنحواہ سے خرید کر دیتا ہے ،وہ کسی کی مدد سے بے نیاز ہے،مگر بہت سے انگوٹھا چھاپ وزیر بنے،اب بھی ہیں اور ستم یہ ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے انگوٹھا چھاپ ہیں،ان کانہ کوئی وژن ہے اور نہ مشن،بس شامل باجا ہیں اور اپنی ’’ریں ریں ‘‘سے کان کھاتے رہتے ہیں،ماضی کے کل میں بھی اور آج بھی ’’تیس مار خانی‘‘نے ستیاناس کر دیا ہے،یہ تیس مار خان جا بجا ہیں،سیاست میں ان کا بول بالا ہے ،معیشت ان سے پناہ مانگتی ہے،معاشرت ان کی وجہ سے چلا رہی ہے،ادب کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے،ثقافت ہاتھ جوڑے کھڑی ہے،مذہب نے کانوں میں انگلیاں دے رکھی ہیں اور صحافت منہ چھپائے پھر رہی ہے، تیس مار خان ہیں کہ اتراتے ہی چلے جاتے ہیں ان پر کوئی دلیل اثر نہیں کرتی،ایک دفعہ کہیں گھس آئیں تو مر کہ بھی جان نہیں چھوڑتے،پیچھے قلم کے گھسیاروں کا ترکہ چھوڑ جاتے ہیں جو تاریخ کو مسخ کرنے لگتے ہیں ،پر سچ سامنے آجاتا ہے، ڈاکٹرشریف احمد قریشی نے اپنے کتاب ’’اردو کہاوتیں‘‘ میں’’تیس مار خان بنے پھرتے ہیں ‘‘ کے ذیل میں ایک حکائت بیان کی ہے جو مختصر الفاظ میں یوں ہے کہ ایک سپاہی مدت سے بیکار تھا، گھر میں کھانے کے لالے تھے ،ایک دن بیوی کے دبائو پر کہنے لگا کہ کسی طرح میرے ناشتے کا انتظام کر دینا میں کل کام کی تلاش میں جائوں گا ،بیوی صبح اٹھی اور لڈو تیا ر کرنے کے لئے چورے کو اوکھلی میں کوٹنا شروع کیا اس کے اندر ایک کالا سانپ تھا جو کچل کر چورے میں مل گیا ،بیو ی نے تیس لڈو بنائے اور اس کے حولے کر دئے،وہ روانہ ہو گیا ،دوپہر کو بھوک کے باعث رکا ،اس اثنا میں تیس راہزن آن پہنچے،سپاہی نے عاجزی سے کہا کہ میرے پاس کچھ نہیں بس لڈو ہیں ،راہزنوں نے وہ چھین کر کھا لئے،سپاہی نے کچھ دیر بعد دیکھا کہ سب مرے پڑے ہیں، اس نے ان تمام کے کان کاٹ کر رومال میں لپیٹ لئے اور چل پرا ،ایک شہر کے پاس پہنچا،اس شہر کا دستور تھا کہ ہر نیا مسافر بادشاہ کے سامنے حاضر کیا جاتا تھا،بادشاہ نے حال پوچھا تو اس نے شیخی بگھاری،اور 30 راہزنوں کے کان پیش کر دئے،دراصل یہ وہ راہزن تھے جنہون نے سلطنت میںفساد پرپا کر رکھا تھا ،بادشاہ نے ان کے کان ،ناک دیکھے تو خوش ہو ا اور سپاہی کو انعام اور تیس مار خان کا خطاب دیا، تو ایسے ماہر اور جعلی تیس مار خان ہمارے ملک مین بھی آگئے اور چھا گئے، سیاست کو ہی لے لیں،تیس مار خانی کا خوب دور چل رہا ہے،لٹیا ڈوبنے کے بھی سبق نہ ملا،ایسی دہائی مچی کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی،قلمی اور منہ زبانی گھسیارے لگے ہوئے ہیں ،بات نہیں بننے والی،معیشت کو لیں،پتہ نہیں کہا ںبہتری آئی،2006ء میں گوادر گیا،بندر گاہ کے نقوش ابھر رہے تھے،اس وقت ایک نجی فائیو سٹار ہوٹل کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا،گوادر کی کسٹمز کی جدید عمارت میں پبلک میٹنگ میں جو اس وقت باتیں سنیںوہی گیارہ برس بعدپھر سنائی دیتی ہیں، نجی فائیو سٹار ہوٹل تو کب کا بن گیا،مگر سرکاری تیس مار خان اب بھی برسوں سے گھڑے قصے سنا رہے ہیں، بولیںکہ کیا وہاں پانی آ گیا؟سچ جاننا آسان نہیں رہا ہے،ان تیس مار خانوں کی بدولت سارے سرکاری ادارے کئی کئی پردوں میں لپٹے ہوئے ہیں،اجلاس ہوتے ہیں ،ان کے بارے میں ادھورا سچ ہی سامنے آتا ہے،وزیر آعظم کا دفتر ہو یا معاشی وزارتیں،ایف بی آر،ایس ای سی پی، قومی بچت ، منصوبہ بندی کی وزارت ،د ھند کی ذد میں ہیں،کہا جاتا ہے کہ عظیم دماغ خاموشی میں بہترین کام کرتا ہے لیکن یہ کسی اور ملک میں ہوتا ہے،یہاں تیس مار خان خاموشی سے کچھ اور کرنا چاہتے ہیں،نیب کے چیرمین اگر ایک بات سمجھ لیں کہ وہ ان دفاتر کے ’’پریس ریلز‘‘ روز پڑھ لیا کریں،اگر ان میں درج امور کی روز مرہ جانچ ہو جائے تو بہت سی قباحتیں پیدا ہی نہ ہوں،اگر ان پریس ریلز میں کسی فیصلہ کی اطلاع ظاہر نہیں کی گئی تو بس معاملہ مشکوک ہے اس پر فوری کارروائی اور ریکارڈ کو قبضہ میں لینا ضروری ہے، اس میں وزیر آعظم یا کسی کا لحاظ نہ کیا جائے،ان چاپلوس لوگوں کی وجہ سے منزل کھوٹی ہوتی ہے ،مگر یہ کسی سے بے نیاز اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں،یہ نااہل ہیں ان کو معلوم ہے کہ یہ حقدار نہیں ،کسی پڑھے لکھے اور اہل کا حق مار کر یہ مقام پر آئے ہیں،اس لئے چمٹے رہنا چاہتے ہیں ،ان کو کسی کو بھی اپنی راہ پر لگانا آتا ہے،لیکن یہ اوپر کے اشارہ وابرو پر خوب کام دکھاتے ہیں ،اپنی اور اپنے ساتھ اپنے بڑے کی تباہی کا باعث بنتے ہیں ،دوسرے کی کامیابی کو اپنے کھاتے میں ڈالنا آتا ہے،ان کی نشاندہی اور ان سے نجات بہت ضروری ہے،عدلیہ نے بہت سے تیس مار خانوں سے قوم کی گردن چھڑائی ہے،لیکن یہ کام عوام کو اپنے ہاتھ میں لینا پڑے گا ،ان کا ہر حال میں تعاقب کرنا ہوگا،یہ جہان بھی ہین اور جس روپ میں بھی ان سے جان خلاصی کرائے بغیر صحت مند سیاست،تندرست معیشت اور توانا پاکستان ممکن نہیں ہے۔