ضلعی انتظامیہ اسلام آباد کا غریب پرور فیصلہ(1)
ضلعی انتظامیہ اسلام آباد کا سیکشن 4,3اور5 آرڈیننس 2000کے تحت شادی ایکٹ نافذ کرنا واقعتا خوش آئند اقدام ہے۔اس فیصلے کے مطابق شادی بیاہ کی تقریبات میں ایک سے زائد پکوان پرپابندی عائد ہے ، آتش بازی اور فائرنگ پر بھی سخت ممانعت ہے اور کوئی تقریب بھی رات10بجے سے تجاوز نہ کر پائے گی۔ڈپٹی کمشنر نے متعلقہ خاندان اور شادی ہالز کے مالکان کے لئے بھی ہدایا ت اور سخت احکامات جاری کئے ہیں ، یہ اقدام سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں عمل میں آیا ہے مگر سوال یہ ابھرتا ہے کہ اس فیصلے پر کس حد تک عملدرآمد ہو پائے گااور اس کے نفاذ میں متعلقہ ادارے اور عوام کس حد تک سر توڑ کوشش کریں گے۔
تاریخ اس طرح کے فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ فیصلے اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ فیصلے نہ ہونا بدنصیبی اور وقت پر درست فیصلے ہونا خوش نصیبی ہے جبکہ ان فیصلوں پر نفاذ نہ ہونا بدبختی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی رکاوٹ آپ ہیں ، راستے کا پتھر ہیں ، ٹھوکر یں کھانا جس کے مقدر میں ہو ۔ سفر ذہن میں ہے نہ کسی منزل کی جستجو ہے، بس راستے میں بھٹکنا ہی ترجیح اوّل ہے ۔کوئی پتھر بیت اللہ کی دیواروں میں نصب ہوا، کوئی مسجد کی زینت بنا ، کوئی کسی مفلس اور حاجت روا کا ٹھکانہ ہوا ، کسی نے قبر کے اندر یا باہر جگہ پائی ، کوئی جائے حاجت میں جا کر لگا اور کوئی پتھر عمر بھر یوں ہی دربدر کی ٹھوکریں کھاتا رہا۔ اب خود ہی غور کرنا چاہئے کہ ہم کس منزل کے مسافر ہیں۔
دورِ فتن سے ہر گز انکار نہیں مگر ان فتنہ و فسادات میں ہم نے بھی توکوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ جینا تو جینا ، مرنا بھی مشکل کر دیا۔ پہلے ذرا جینے کی بات ہو جائے۔ سادگی اور سادہ مزاجی سے کوسوں دور ہوئے ،خرافات کو اپنایا اور بات وہیں پہنچی کہ کوا چلا ہنس کی چال‘ اپنی بھی بھول گیا۔ سادہ غذائیں ، قابل عزت لباس ، اچھی روایات اور بہترین اخلاقیات ، ان سب میں سے ہمارے پاس کچھ بھی تو نہیں رہا۔معاشرے میں نام نہاد مرتبہ برقرار رکھنے کے لئے حلال و حرام کی تمیز بھی گئی۔ یہ ساری باتیں زندگی سے متعلق ہیں اورشادی بیاہ کی تقریبات و رسومات بھی اسی سے واسطہ رکھتی ہیں۔ اولاً یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم نے اسلام سے کیا کچھ اخذ کیا اور کس قدر عمل پیرا ہیں، ثانیاً اس متصادم زندگی سے ہم کیونکر نبردآزما ہو سکتے ہیں۔
آج گوناگوں پکوان اور مختلف بے ڈھنگی رسومات کا سہارا لیا جاتا ہے جن کی وجہ سے ایک غریب شخص اپنی بہن بیٹی کو بیانے سے رہا۔ معاشرے نے اس کا جینا محال کر دیا ہے۔ عمریں بیت جانے پر اولاد کے ہاتھ پیلے نہیں ہو پاتے۔ طرح طرح کے خیالات و خدشات سر پر منڈلاتے ہیں۔ مثلاً قیمتی لباس زیب تن نہ کیا ، بہت سے پکوان تیار نہ کئے ، ناچ گانا ،آتش بازی اور فائرنگ نہ کی ، جم غفیر کودعوت ولیمہ نہ دی ، سونے کے زیورات کی بوچھاڑ نہ کی،گراں اور اونچے دام کا جہیز نہ دیا تو لوگ کیا کہیں گے؟۔ نمود و نمائش سر چڑھ کر بولتی ہے۔ مستحقین کے بجائے اشرافیہ کو مدعو کرنا اعزاز ٹھہرتا ہے۔ناک کٹ جانے کی فکر میں فضول خرچی اس حد تک کی جاتی ہے کہ آئندہ زندگی متعلقہ خاندان قرض کے سائے تلے جیتا ہے۔ حالانکہ گراں ملبوسات زیب تن کرنے کے بجائے بہت سے غرباء و ناتا داروں کے تن کو ڈھانپا بھی جا سکتا ہے جو آپ کی شان و شوکت کے آڑے آپ کی خوشیوں میں شریک ہونے سے جھجکتے ہیں۔ اگر ہم ان معاملات میں میانہ روی اور معتدل رویہ اختیار کریں تو کوئی بہن، بیٹی نکاح ایسے احسن عمل اور اسلامی فریضے سے محروم نہیں رہ سکتی۔ آج بہنوں اور بیٹیوں کے سر میں چاندی اتر آتی ہے مگر کسے فرصت جو اس سانحہ پر اشک بہائے۔ضلعی انتظامیہ نے یہ فیصلہ تو صادر کردیا مگر اس کے بھرپور اور مکمل نفاذ کے لئے متعلقہ حکومتی اداروں کا متحرک ہونا بھی اشد ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کو اپنے تئیں بھی فکر لاحق ہونی چاہئے تا کہ معاشرے کی اصلاح ہو سکے اور ناتواں لوگ بھی مذہبی، معاشرتی و اخلاقی فرائض بآسانی ادا کر سکیں۔ درحقیقت ہمیں نمود و نمائش، انا اور بے جا شان و شوکت کے خول سے نکلنا ہو گا ورنہ دین و دنیا ، دونوں سے ہاتھ دھونا مقدرٹھہرے گا۔اب ذرا زندگی سے ہٹ کر موت اور اس سے متعلق روایات پر بھی بات کرلی جائے۔ (جاری ہے)
جملہ معترضہ کہ بھلے وقتوں میں جینا اور مرنا دونوں کام آسان تھے کیونکہ لوگ زندگی اور حقیقت کے عین قریب تھے، اور اب تو مرنا بھی کتنا دشوار ہوگیا ہے؟ اس قدر دشوار کہ وقت نزع اور موت کی کٹھن منزل بارے فکر کے بجائے ایک مفلس یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کے مر جانے پر گوروکفن کا بندوبست کیسے ہوگا کیونکہ اس خاطر بھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے۔ غریب کی پونجی تو اس سے عاجز ہے۔جائے قبر میسر نہ ہونے پر آپ کو متعلقہ ادارے کے افراد کو وافر رقم دینا پڑتی ہے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ معمار و مزدور کا بندوبست کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔آپ کے سامنے کچی ، پختہ اور تیار قبر کا معاوضہ بھی ہوتا ہے ، جس کے باعث آپ کو قطعاً مرنے کا جی نہیں کرتا ۔ آپ تصوف کی اصطلاح کے اعتبار سے نہیں بلکہ اخراجات کے خوف سے، مرنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں کیونکہ حقیقی موت پر، معیارات پر نہ اترنے والے پکوان کو تنقید و تنقیص کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مثلاً پلائو میں مرچ افزوں جبکہ نمک خفیف ہے ، چنے بھی پتھر کے مشابہ ہیں اور اگر یخ نان کے بجائے تنور کی دہکتی روٹی ہوتی تو بہتر ہوتا وغیرہ وغیرہ۔تاہم مخیر، صاحب توفیق و استطاعت حضرات کا خالق کی رضا کی خاطر مخلوق کے لئے خوان بچھانا احسن ہے بلکہ مقبول ہے، ان کی بات اور ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ ہم حقیقی زندگی اور زندگی کی حقیقت سے کتنے دور نکل گئے ہیں۔ ہم نے زندگی کو سہل کرنے کے بجائے مزید دشوار کر دیا۔ بناوٹ و سجاوٹ کے گرداب میں جیئے جا رہے ہیں بلکہ جی سے جا رہے ہیں۔ زندگی اور رشتوں سے مسلسل دور ہوتے جا ر ہے ہیں۔ جینا اور مرنا واقعی مشکل ہوگیا ہے۔ فقط ضلعی انتظامیہ اسلام آباد نہیں، بلکہ ملک کی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ سے بھی گزارش ہے کہ شادی ایکٹ کے علاوہ متذکرہ صورت حالات کے پیش نظر کوئی موت ایکٹ بھی متعارف اور نافذ کیا جانا چاہئے ، اس پر غریب عوام صد شکر بجا لائیں گے، گویا جان جانِ آفریں کے سپرد کرنا سہل ہو جائے گا۔ آخری جملے میں فقط طنز کے نشتر نہ تلاش کئے جائیں۔