32 سال پہلے دینی و تدریسی خدمات سرانجام دیتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری کو جب پہلی دفعہ دل کا درد محسوس ہوا تو یہ کوئی بیماری نہیں بلکہ اپنی قوم‘ مذہب اور ملت کے متعلق فکر تھی جو عارضہ قلب کی شکل اختیار کر گئی۔ ان دنوں شریف برادران ان کے خاص مربیوں میں شامل تھے۔ یہ 1982ء کی بات ہے جب میاں شہبازشریف ان کو لیکر بغرض علاج امریکہ پہنچے اور وہیں پہ ان کی انجیو گرافی ہوئی۔ ڈاکٹروں نے اس کی تشخیص مائیکرو واسکر انجائنا سے کی۔ علاج اور دوائیاں ساتھ ساتھ چلتی رہیں اور پھر 1991ء میں انہیں مرض اور درد کی شدت بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی تو نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) امریکہ کے ڈاکٹر طاہر ملک نے علاج دوبارہ سے شروع کیا اور سولہ دن کے مسلسل ٹیسٹوں کے بعد مشہور کار ڈیالوجسٹ ڈاکٹر رچرڈ کینن نے بتایا کہ دل کی نالیاں جزوی طورپر بند ہیں اور ہارٹ پمپنگ نہیں کرتا اس کو انجکشن فریکشن کے طورپر تشخیص کیا گیا جس کے بعد ڈاکٹرز کی طرف سے اور غیرملکی معالجوں کی طرف سے یہ مشورہ دیا گیا کہ آپ اپنی تدریسی مصروفیات کو کم کرکے اور ذہنی سٹرٹس کو کم کرکے اپنے مرض پر قابو پا سکتے ہیں۔ معالجوں کی مشاورت کو نظرانداز کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے پاکستان اور بیرون ملک امریکہ‘ کینیڈا برطانیہ‘ یورپ‘ امریکہ‘ آسٹریلیا اور ایشیا‘ مشرقِ وسطیٰ اور مشرق بعید میں اسلام کے مذہبی و سیاسی‘ روحانی و اخلاقی‘ قانونی و تاریخی‘ معاشی و اقتصادی‘ معاشرتی و سماجی اور تقابلی پہلوئوں پر ہزارں لیکچرز دیئے۔ جارج ٹائون یونیورسٹی اور یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس امریکہ میں اسلام کے تصور جہاد کے حوالے سے خصوصی لیکچر دیئے اور عالم مغرب کے ذہنوں پر چھائی ہوئی گرد صاف کی۔ برطانیہ میں ہونے والی عالمی گلوبل پیس اینڈ یونٹ کانفرنس کے علاوہ ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں پہلی مذہبی شخصیت کے طورپر شرکت کی۔ سینکڑوں موضوعات پر پانچ ہزار سے زائد ریکارڈ لیکچرز جاری کئے جبکہ ایک ہزار کے قریب کتب دنیا بھر کی زبانوں میں طباعت کے مختلف مراحل میں ہے جن میں سے پانچ سے زائد مارکیٹ میں دستیاب ہیں جبکہ ’’عرفان القرآن‘‘ کے نام سے اردو‘ انگریزی میں عام فہم ترجمہ کیا جبکہ 2010ء میں دہشت گردی اور فتنہ حوارج کے عنوان سے ایک تاریخی فتویٰ جاری کیا جس میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی موجودہ لہر اور اس کے پس منظر کا تاریخی و تحقیقی جائزہ پیش کیا۔ ڈاکٹر صاحب 2002ء کے الیکشن میں لاہور سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے مگر مذہبی تدریسی کام کی وجہ سے تھوڑے ہی عرصے بعد اپنی نشست سے استعفیٰ دیدیا۔ اس وقت دنیا بھر میں سو سے زائد ممالک میں منہاج القرآن کے نام سے اسلام کا آفاقی پیغام امن سلامتی عام کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ ایک چارٹرڈ یونیورسٹی (منہاج یونیورسٹی لاہور) اور پاکستان بھر میں سینکڑوں سکولز و کالجز قائم کئے۔ یہی وجہ تھی کہ 2006ء میں دنیا کے سب سے مستند کارڈیالوجی ہسپتال ’’کروم ویل لندن‘‘ سے ڈاکٹر رچرڈ ہیڈیسن کی زیرنگرانی دوبارہ چیک اپ اور علاج کرایا جبکہ 2010ء میں سٹال ووڈ ہیملٹن (کینیڈا) کے ہسپتال سے علاج کرایا۔ ڈاکٹر صاحب کے ناقدین ان پر تنقید کرنے سے پہلے اگر ان کی اسلامی‘ ملی خدمات کو دیکھ لیں تو شاید وہ انہیں ’’آئرن مین‘‘ تسلیم کرنے کو تیار ہو جائیں۔ 2013ء میں ڈاکٹر صاحب نے الیکشن سے پہلے اسلام آباد میں دھرنہ دیکر ملکی تاریخ میں اپنی سیاسی حیثیت منائی اور مقتدر سیاسی قوتوں کے ساتھ نہ دینے کی وجہ سے کچھ دیر کیلئے اپنی پالیسی پر نظرثانی کی اور پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے جون 2014ء میں وطن واپسی کا ارادہ بنایا تو حکمرانوں نے سانحہ ماڈل ٹائون برپا کرکے چودہ منہاجین کو شہید اور سو کو مضروب کر دیا اور 23 جون کو جب ڈاکٹر صاحب ایک نجی ایئرلائن کے ذریعے لینڈ کرنے والے تھے‘ حکمرانوں نے فضائی دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے گھنٹوں غیرملکی ایئرلائن کے طیارے کو یرغمال بنائے رکھا جبکہ 14 اگست کے دن عوامی تحریک نے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر مارچ کا پروگرام بنایا تو ایک دفعہ پھر حکومتی بربریت کی مثالیں دیکھنے کو ملیں۔ بربریت اور ظلمت کے مسلسل دو ہفتوں بعد 31 اگست کی سیاہ رات کو لاہور منہاجین کیلئے ایک ڈرائونا خواب بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ بھارت سے درآمد شدہ زہریلی آنسو گیس کے شیل برسائے گئے جس کی وجہ سے عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنان شدید متاثر ہوئے جس کے اثرات ابھی تک کارکنان بھگت رہے ہیں۔ خود ڈاکٹر صاحب بھی اس سے فزیکلی متاثر ہوئے اور ستر دن کے بعد حکمت عملی تبدیل کر کے دھرنے کو ملک گیر سطح پر پھیلانے کا اعلان کیا اور فیصل آباد اور لاہور میں تاریخی اور فقید المثال جلسے کئے مگر اس دوران ان کی روزبروز گرتی ہوئی صحت اس بات کی متقاضی تھی کہ جس کیلئے ڈاکٹر صاحب نے اپنے معالجین کے مشورہ پر امریکہ اور کینیڈا کا رخ کیا۔ اس سفر کے دران ان کا نیوکلیئر سٹریس ٹیسٹ ہوا‘ میڈیسن تبدیل کی گئی پھر واپس پاکستان آکر بھکر کا سفر کیا جس کے دوران شدید علیل ہوئے اور پھر ایمرجنسی میں پاکستا ن سے امریکہ پہنچے جہاں ہیوسٹن میں سینٹ لیو کارڈیالوجی ہسپتال میں مسلسل چیک اپ اورتشخیص کے بعد ڈاکٹر ’’نیل اسٹریک مین‘‘ اور آٹھ مزید ڈاکٹرز پر مشتمل ٹیم نے دل کی دو شریانیں 60 فیصد بند ہونے کی رپورٹ دی۔ ڈاکٹرز کے مطابق انجیوپلاسٹی کیلئے شریانوں کا 70 فیصد بند ہونا ضروری ہے۔ کارڈیالوجسٹ ٹیم نے میڈیسن کی ڈوز ڈبل کردی ہے اور ’’بیٹا بلاکر‘‘ نامی دوا تجویز کی جس سے بلڈ پریشر کو نیچے لانا اور ہارٹ بیٹ کو معتدل کرنا مقصود ہے۔ قارئین! یہ میں تفصیلی حقائق اس مرد آہن کے جس کا آج بھی یہ عزم ہے کہ وہ ایک جان تو کیا ہزار مرتبہ بھی اپنی جان دینے وطن اوراپنی ملت پر قربان کرنے کیلئے تیارہے اور جیسے ہی تھوڑے دنوں بعد طبیعت سنبھلی اور ڈاکٹرز نے سفر کی اجازت دی تو وہ پاکستان میں ایک ذہنی انقلاب لانے کیلئے ہراول دستے کی قیادت کریں گے اور وہ لوگ جوآج چہ میگوئیاں اور ڈس انفارمیشن پھیلا کر قوم کو ورغلانے اور مایوس کرنے میں مصروف ہیں‘ ان کو انشاء اللہ بہت جلد شرمندگی و ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ڈاکٹر صاحب کی صحت کی اس پوزیشن میں بھی پاکستان کے معالات سے لاتعلق نہیں ہیں۔ انہوں نے اس اے پی سی کو غیر ضروری اور ناکام قرار دیا ہے جو ڈیڑھ سو بچوںکے بربریت سے قتل کے بعد حکومت نے بلائی تھی۔ اس میں ایک کمیٹی بنا دی گئی جو عموماً معاملات کو لٹکانے کے لئے تشکیل دی جاتی ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024