تمہی کہو کہ یہ اندا زِ جشن کیسا ہے
آزاد جمہوری ملک میں آزادی کے ساتھ موٹرسائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر نکلنا یہ جشن آزادی منانے کا کونسا طریقہ ہے۔ صرف موٹرسائیکل ہی کیوں میں نے کئی گاڑیاں(کاریں) بھی دیکھیں جنہوں نے سائلنسر نکال کر آزاد شہری ہونے کا عملی مظاہرہ کیا۔ بگل بجانے کی روایت مخصوص مقامات پر ضرور ہوتی ہے لیکن آزادی کے روز اس کا بے جا استعمال فضائی آلودگی پھیلانے اور کانوں کو متاثر کرنے کا سبب بن رہا تھا۔ بہت سے منچلے ون ویلنگ جیسا خطرناک کھیل بھی کھیل رہے تھے۔ موٹرسائیکلوں کی ریس اور آگے نکلنے کیلئے کٹ مار کر کراسنگ گویا ان نوجوانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور وہ اس کے انجام سے بے بہرہ جوانی کی ترنگ میں سب کچھ کر رہے تھے جو ان کے لئے موت اور زندگی بھر کی معذوری کے علاوہ ماں باپ اور خاندان کیلئے زندگی کا روگ بھی بن سکتا تھا۔
اک حادثہ حیات کو تقسیم کر گیا
زندہ تھے جس کے واسطے وہ شخص مر گیا
عمارتوں پر چراغاں دیکھنے کیلئے وہ فیملیز اور لوگ بھی شام کے وقت سڑکوں پر موجود تھے جو شاید عام طور پر ایسا نہیں کرتے جس کے نتیجے میں سڑکوں پر ٹریفک کا اژدھام خطرناک صورت اختیار کر گیا۔ کئی کئی گھنٹے لوگ ٹریفک جام میں پھنسے رہے۔ چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھنے کا عمل دھواں چھوڑتی گاڑیاں‘ انجن کی گرمی گویا اک حشر بپا تھا۔ اس رش میں موٹرسائیکل پر سوار فیملیز بھی تھیں لیکن چشم گنہگار نے یہ منظر بھی دیکھا کہ عجیب عجیب لباس اور حرکات کرتے منچلے نوجوان انسانیت کی تذلیل کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ خواتین کو چھیڑنے‘ تنگ کرنے آوازہ کسنے اور پرس چھیننے کی گھٹیا حرکات بھی اسی جشنِ آزادی کے روز کھلے عام بڑی ڈھٹائی سے جاری تھیں۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
جشن آزادی کا لطف اٹھانے والے انگنت لوگ نہ صرف پریشان تھے بلکہ بہت سے پشیمان بھی کہ الٰہی کیا یہ اندازِ جشن ہے؟ مادر پدر آزاد مخلوق ذہنی‘ فکری‘ جسمانی اورروحانی ایذا پہنچانے کا سبب بن رہی تھی۔ سڑکوں پر ٹریفک وارڈنز کا کردار بھی کوئی زیادہ مؤثر نظر نہیں آیا۔ ویسے بھی وہ جسٹس صاحبان اور افسران ضلع کی گاڑیوں کو گزارنے کے بعد اپنے مراکز میں دبک جاتے ہیں اور جو کہیں ہو تو وہ ’’موبائل‘‘ کی بیماری کا شکار نظر آتا ہے سو جشن آزادی کے روز بھی غیر معمولی کام کی بجائے معمول سے کام چلایا جا رہا تھا۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کرینگے تو شکایت ہو گی
ایک سروے کے مطابق اس بار آزاد قوم نے آزادی کے جشن پر بینرز‘ بیجز‘ سٹیکرز‘ جھنڈوں‘ پوسٹر‘ لباس‘ ٹوپیاں اور دیگر جدید لوازمات خریدنے پر گزشتہ سالوں کی نسبت کئی ارب روپے اجتماعی طور پر زیادہ خرچ کر ڈالے۔ برقی قمقموں کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ ہر محلہ‘ گلی‘ سرکاری و غیر سرکاری عمارات جھنڈیوں سے سجے ہوئے تھے لیکن پھر دوسرے تیسرے روز انگنت جھنڈیاں جس پر پاکستانی پرچم پرنٹ تھا سڑکوں ‘ کوڑے کے ڈھیر اور ہر اس جگہ گری یا بوسیدہ حالت میں نظر آئیں جہاں نہیں ہونا چاہئے تھیں۔یہ ایک اور المیہ تھا۔ زندہ قوموں کا یہ انداز نہیں ہو سکتا۔ تہذیب‘ تمدن‘ روایات‘ اخلاق‘ اخلاص‘ ادب‘ آداب سے ماوریٰ یہ اندازِ جشن جس میں روز بروز خرابات و خرافات کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اسے کیسے روکا جائے۔ اس ہاؤ ہو اور انداز بدتمیزی پر قائداعظم محمد علی جناح اور اکابرین تحریک پاکستان کے علاوہ لاکھوں شہدا کی ارواح کس قدر افسردہ اور غمزدہ ہونگی کہ کیا اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا پاک وطن جسے پاکستان کا پیارا نام دیا گیا اس انداز حیات کا متحمل ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭