میٹھے بول میں جادو ہے جیسے جملے اب پرانے ہوچکے پھر بھی یہ حقیقت سدا بہار ہے کہ صاحب اختیار کے سامنے کوئی تلخ بات کرنے سے پہلے خوشگوار باتوں کاگلدستہ فضا کو خوشگوار بنادیتا ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے گذشتہ روز والٹن فلائی اوور کا افتتاح کرتے ہوئے فیروز پور روڈ کو عملاً سگنل فری بنادیا ہے۔لاہور جو کبھی باغوں کا شہر تھا اب میٹر و بس، فلائی اوورز اور انڈر پاسز کا شہر ہے اور یہ سب کچھ مختصر سے وقت میں ایسے کیا گیا جیسے کوئی جادو گر لاہور میں داخل ہوگیا ہو ۔ لاہور کے ایک کونے میں شالامار باغ ہے ۔ جی ہاں وہی شالا مار باغ جسے 1641 میں شاہجہان نے بنوایا جس میں 80ایکڑ کے رقبے میں ایک عالی شان چار دیواری کے اندر410 فوارے ہیں۔ فرخ بخش، فیض بخش اور حیات بخش کے نام سے تین وسیع ٹیرس ہیں، جو 1981 میں یونیسکو کے عالمی ورثے پروگرام سے جڑا ہوا ہے جس میں ساون بھادوں، نگار خانہ، خواب گاہ، حمام،ایوان، آرام گاہ، نواب گاہ، بارہ دی، دیوان خاص اور دوسری عمارات کے ذریعے ایک خاص ماحول بنا ہوا ہے۔ باغ میں داخلے کا ٹکٹ صرف 10روپے ہے۔اگرچہ ایسے تفریحی پارک( جیسے باغ جناح ہے) میں داخلہ فری ہوناچاہئے مگر آثار قدیمہ کے ایسے مثالی حوالوں کی دیکھ بھال اور بہتری کیلئے یہ معمولی ٹیکس کسی کیلئے بوجھ نہیں۔ ہاں بوجھ اس وقت محسوس ہوتا ہے جب باغ اندر گھوم پھر اس کی صفائی،اس کی دوشوں کی حالت زار، اسکی تعمیرات کی طرف عدم توجہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے باغ کے باہر پارکنگ کے ٹھیکیدار کے کارندے جب کار پارکنگ کیلئے آپ کو 50روپے کا چھپا ہوا ٹکٹ تھماتے ہیں جب اندر کینٹین والا آپ سے منہ مانگے دام وصول کرتا ہے اور جب گیٹ کا چوکیدار ٹائم ختم ہونے کے بعد آنیوالوں کو ” مٹھی“ گرم کرنے پر اندر داخل کررہا ہوتا ہے ۔شالا مار باغ میں داخل ہونے والوں کو جو ٹکٹ دیاجاتا ہے( اور یہ صرف اسی باغ تک محدود نہیں ہے) اگر اسکا حسا ب لگایا جائے تو اسکی اپنی آمدنی سے یہاں تعمیر و مرمت، بہترین سٹاف کی تعیناتی اور عوام کیلئے عام بازار کے نرخوں پر اشیاءکی فراہمی ممکن ہوسکتی ہے بلکہ لاکھوں روپیہ بچایا بھی جاسکتا ہے مگر یہ اسی وقت ممکن ہے آمدنی کا فول پروف ریکارڈ ہو ۔ ٹھیکہ سسٹم سے البتہ وہی حال ہوگا جو اب ہے۔بات ہورہی تھی جادوگر وزیراعلیٰ کی طرف سے فیروز پور روڈ کو سگنل فری کرنے کی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے پچھلے دور کا آغاز اسی شا لا مار باغ تک آنے والی لاہور کینٹ روڈ پر فلائی اوور سے کیا تھا۔اسے مغل پورہ فلائی اوور یا شالا مار فلائی اور بھی کہاجاتا ہے۔ اسکے نیچے انڈرپاس بھی بنایا گیا جس سے یہ چوک خلق خدا کی طرف سے شریف حکومت کیلئے سراپا دعا بن گیا مگر وقت کے ساتھ اس انڈر پاس سے جڑے دوسرے مسئلے نمایاں ہوگئے۔اس وقت لاہور میں فیروز پور روڈ سے بھی زیادہ جو روٹ پورے لاہور کو ٹچ کرتا ہے وہ نہر لاہور کا ہے جو ٹھوکر سے بی آر بی تک لاہور کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہو یا لاہور کے وسط میں ان گنت آبادیوں کو ملاتا ہو ا رات دن آباد رہتا ہے۔ نہر کے اس روٹ پر دھرمپورہ سے ٹھوکر تک انڈر پاسز بنا کر اسے سگنل فری بنادیا گیا ہے مگر دھرمپورہ اور مغلپورہ انڈر پاسوں کے بیج میں جو بچہ پھاٹک اور ناچ گھر پھاٹک ایسے دو مشترکہ پوائنٹ ہیں جو جلو پارک جانے والوں اورشالا مار باغ جانیوالوں کیلئے ایک ساتھ عذاب بنے ہوئے ہیں۔ دھرمپورہ انڈر پاس سے اور شالامار انڈر پاس سے آنے والا تیز ٹریفک بیچ میں ان دونوں پھاٹکوں پر سارا دن پھنسی رہتی ہے اور خاص طورپر انڈیا جانے والی گاڑیوں اور ڈرائی پورٹ آنے جانیوالی مال برادر گاڑیوں کے اوقات میں تو گھنٹہ گھنٹہ دونوں طرف کے مسافر دبی زبان میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ دو دو تین تین ماہ میں فلائی اوور بنانے والے وزیراعلیٰ کیلئے لاہور کی آدھی آبادی کو متاثر کرنیوالے ان پھاٹکوں پر فلائی اوور یا انڈر پاس بنانا کوئی کام ہی نہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ پہلے جب شالامار باغ میں تقریبا ت کا موڈ تھا تو جی ٹی روڈ (گرینڈ ٹرنک روڈ) کی توسیع کو ترجیح کا تمغہ ملا۔ شالا مار انڈر پاس اور فلائی اوور سے آنے جانے کا راستہ ہموار ہوا۔ اب ادھر آنا کم کم ہوا ہے تو ماضی میں لاہور کا دل، یہ علاقہ کسی شمار قطار میں ہی نہیں، لوگ پھر بھی امید رکھتے ہیں اور کہہ رہے ہیں ....
چھیتی پہنچیں وے طبیبا
نیئں تے میں مر گئی آں
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024