محکمہ ماحولیات نے پاکستانیوں کے لئے ایک خطرناک پیغام جاری کیا ہے۔ اس پیغام میں بتایا گیا ہے کہ پورے پاکستان میں اور خاص طور پر لاہور میں سموگی خطرات شہریوں کی زندگی پر زہریلے اثرات ڈال رہے ہیں اور ان کے ابدان سے قدرت کا عطا کردہ حفاظتی نظام تباہ کر رہے ہیں۔ یہ انتباہ پڑھ کر ہمارا خیال شہر لاہور اور دیگر شہروں میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے بھر مار کی طرف چلا گیا۔ لاہور میں روزانہ لاکھوں موٹرسائیکل، کاریں اور دوسری گاڑیاں سڑکوں پر رواں دواں دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے سائیلنسروں سے نکلنے والا دھواں اور پیٹرول ڈیزل سے آلودہ گرم ہوا پورے شہر میں آلودگی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں سے نکلنے والے گرم اور تپش آمیز دھویں کے علاوہ پورے ملک میں سوئی گیس کے چولہے بھی ماحولیاتی تپش سے اضافہ کر رہے ہیں۔ لاہور میں گاڑیوں موٹرسائیکلوں کی کثرت دیکھ کر ہمیں پچاس سال پہلے کا لاہور شہر یاد آنے لگا ہے۔ لاہور کا مال روڈ ( اب شاہراہ قائداعظم ) شام کے وقت اتنا پرسکون ہوتا تھا کہ لاہور کے شرفاء اور ان کی بیگمات انارکلی سے اسمبلی ہال تک خوب سیر کرتے تھے اس زمانے میں کاروں اور موٹرسائیکلوں کی بھرمار نہیں تھی۔ وقفے وقفے سے کوئی کار یا موٹر سائیکل آتی جاتی دکھائی دیتی تھی۔ یہ زمانہ تانگوں کا زمانہ تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے مولانا مودودی ، علامہ عنایت اللہ مشرقی، مولانا صلاح الدین، حکیم آفتاب احمد قرشی ، ظہیر کاشمیری ، حمید نظامی ، شورش کاشمیری، مزاحیہ اداکار ظریف ، اداکار سنتوش کمار، اداکارہ مسرت نذیر اور اس کے والد محترم کو مال روڈ پر سیر کرتے ہوئے دیکھا۔ مولانا مودودی اور علامہ مشرقی تانگوں پر بیٹھ کر اچھرہ کی طرف جایا کرتے تھے۔ تانگوں کا اڈہ مال روڈ پر اس جگہ تھا۔ جہاں اب مسجد شہدا جلوہ نما ہے۔ بیڈن روڈ پر کیری ہوم ہوٹل ہے۔ یہ تمام لوگ یہاں کھانا بھی کھایا کرتے تھے کیونکہ اس زمانے میں اس ہوٹل کا کھانہ بہت اچھا ہوتا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ مال روڈ اور لاہور کی دوسری تمام سڑکوں پر موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کی بھرمار نہیں تھی۔ یہ شہر دھویں کے اثرات سے بالکل پاک تھا۔ اسی لئے لاہوریوں کو مال روڈ پر سیر کا مزہ آتا تھا اور وہ اس سڑک پر سکون سے سیر کرتے تھے۔
کرتے تھے مال روڈ کی سب سیر مرد و زن
لاہور میں سکوں کا سمندر تھا موجزن
مال روڈ پر گورنر ہائوس کے سامنے باغ جناح کے سبزہ زار اور گلزار پھیلے ہوئے ہیں۔ لاہور کی بہت سی مشہور شخصیات اس باغ میں تیز تیز چلتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ دانتوں کے مشہور ڈاکٹر صوفی صاحب بھی ہمیں کرتے ہوئے ملے اور ہمارے ساتھ مکالمہ بازی کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین اور مشرق اخبار کے چیف ایڈیٹر ضیااللہ سلام انصاری صاحب سے بھی دلچسپ جملوں کا تبادلہ ہو جاتا تھا۔ افسوس کہ دونوں شخصیات اب اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔ بات کہاں سے کہاں نکلی جا رہی ہے۔ بات سموگ کے نقصانات سے شروع ہوئی تھی ایک شعر پڑھ لیجئے پھر سموگ والے روگ کی طرف آتے ہیں۔
باغ جناح میں جب جاتے ہیں
بیتے دن یاد آجاتے ہیں
پورے پاکستان میں گاڑیوں، موٹرسائیکلوں ، بسوں ، رکشوں اور ٹیکسیوں بھرمار نے ماحولیاتی آلودگی کا طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ سموگی آلودگی اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں نے لاہوریوں کو بے شمار بیماریوں کا شکار بنا لیا ہے۔ لاہور میں ڈاکٹروں کی ایک کانفرنس میں انکشاف کیا گیاہے کہ سموگ جب سانس کے ذریعے پھیپھڑوں تک پہنچتا ہے تو انہیں شدید نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کانفرنس میں ناک کان اور گلے کے ماہرین نے بتایا کہ سموگ کی وجہ سے دمہ اور الرجی کے امراض میں اضافے کا خدشہ ہے۔ سموگ کے بداثرات کی وجہ سے سانس کے امراض میں شدت پیدا ہو جاتی ہے اور مریض کے لئے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ محکمہ تحفظ ماحولیات کے ایک اجلاس میں انکشاف کیا گیاہے کہ شہریوں کو بیمار کرنے والی سموگ ایک بار پھر لاہور پر حملے کے لئے تیار ہے۔ مذکورہ محکمہ نے دیگر تمام متعلقہ اداروں کو ریڈ الرٹ جاری کر دیا ہے۔ اجلاس کی صدارت کرنے والی وزیر ماحولیات ذکید شاہنواز نے سٹی ٹریفک پولیس، محکمہ زراعت ، ہوم ڈیپارٹمنٹ اور دیگر محکمہ جات کو حفاظتی انتظامات کی ہدایات جاری کیں اور لاہور کی ٹریفک پولیس کو حکم دیا کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف موثر حکمت عملی بنائیں۔ نہ صرف یہ کہ ان گاڑیوں کے چالان کریں بلکہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو تھانوں کی حدود میں بند کردیں۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ محکمہ زراعت کسانوں میں فصلوں کو کٹائی کے بعد آگ لگانے سے ماحولیاتی اور سموگی نقصانات سے آ گاہی کی مہم شروع کرے۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ناکارہ کوڑے کباڑ کو آگ لگا کر ختم کرنے کی بجائے متبادل طریقہ اختیار کیا جائے تاکہ سموگی نقصانات جو شہریوں کی زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں ان پر قابو پایا جا سکے کیونکہ قبل از وقت احتیاطی تدابیر اختیار کرکے سموگ سے بچایا جا سکتا ہے ۔ شہریوں کا بھی فرض ہے کہ سموگی نقصانات سے بچنے کے لئے خود بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں ورنہ پھر یہ شعر سب پر لاگو ہو جائے گا۔
سارے شہر ہو جائیں گے روگی
جب آئے گا اک طوفان سموگی
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38