سروقد،کشادہ پیشانی، گھنی داڑھی جیسے سنگ سیاہ پر سپیدی کی ژالہ باری ، روشن آنکھیں، زندہ و بیدار ابھرے ہوئے رخسارجیسے گندمی رنگ میں کالی سرخی کے آثار، آنکھوں سے ذہانت کی ٹپکتی دھار، ذی علم، چوڑے ہاتھ،سر پر رکھے سفیدٹوپی لیکن علاقائی رواج کے مطابق ذرا ٹیڑھی، ذی عقل ،قلیل الجثہ کثیر المطالعہ، جوانی میں ہی تفکر کے غازی، ایسے ہی گزرا ان کا ماضی، مطمح نظر اسلامی اقدار، عوامی حقوق کا پاسدار، تکلفات سے بیزار، سخن فہم، نفاست پسند، قائم اللیل، نائم النہار، نازک رفتار، آہستہ گفتار، دُبلے پتلے، نوید قافلہ بہار، یہی ہے جماعت اسلامی کے گلے کا ہار، محولہ بالا چہرہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا ہے۔ مجموعی صورت کے اعتبار سے وہ قابل محبت انسان ہیں۔ اتنے بڑے عہدے پر ہونے کے باوجود انکے رویے سے رعونت کی بجائے محبت ٹپکتی ہے۔ میرا جواں دل صرف انکی تعریف و توصیف کے ہی مزے نہیں لے رہا بلکہ انکی سیاست نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ ان کی سیاست کے آج چارسُو چرچے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے ہر ذرہ خاک کو اپنے لئے مقدس قرار دیا ہے۔ انکے خلوص اور دیانت اظہار کو جانتے ہوئے ان کیخلاف کسی قسم کا شبہ اور غلط فہمی باقی نہیں رہ سکتی۔ جماعت اسلامی سے اختلافات کے باوجود مَیں ماضی میں قاضی حسین احمد کا مداح رہا، اب سراج الحق کے خلوص کا قائل ہوں۔ شدید حزن کی دوری کیلئے قومی تسلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پچھلے پانچ سال سے جماعت کے کارکنان انتہائی مایوس ہو چکے تھے، جماعت اسلامی کی حالت دیکھ کر کبھی کبھار انکے منہ سے دبی دبی سسکیاں بھی نکل جاتی تھیں لیکن اطاعت امیر میں ان کی جبینوں پر شکنوں کوجال بُنتے کبھی دیکھا نہ ہی کبھی سرراہ انہوں نے اپنے امیر کی کمزوریوں کو موضوع گفتگو بنایا حالانکہ تیز ہَوائوں کے موسم میں جب پھول ایکا ایکی جھڑنے لگتے ہیںتو سبزہ زاروں کی ہریالی بے سبب پیلی پڑنے لگتی ہے اور دل خواہ مخواہ کسی نامہرباں رُت کے خوف سے بھر ہی جاتے ہیں۔ لیکن ایک نظم کی لڑی میں پروئے کارکنان کے چہروں پر مایوسی دیکھی نہ ہی انکی زباں سے حرف شکوہ نکلا۔ برادرم آصف سلیم کے گھر میں میرا جب بھی ایسے کارکنان سے سامنا ہوتا تو میں انہیں چھیڑنے کیلئے خود ہی کہتا کہ جماعت کے موجودہ انجام پر ٹسوے بہانے والے یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ آمر ضیاالحق کی تاجپوشی جماعت کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی تھی اور پھر دوسرے آمر پرویز مشرف کو تخت طائوس پر بٹھانے والوں میں بھی جماعت شامل تھی۔ ایم ایم اے اگر 17ویں ترمیم پاس کروانے کیلئے حمایت نہ کرتی تو آمر کے اقتدار کو اس قدر طول نہیں مل سکتا تھا۔ ایم ایم اے نے مشرف کے دستر خوان سے نعمت کی ہڈیاں چچوڑی تھیں، کاش ان کے علم میں آ جاتا کہ زمانہ آگے نکل چکا ہے اور آمریت کے راگ پرانے ہو چکے ہیں۔ بڑے احباب ماضی کی طرف دیکھ رہے تھے جبکہ نئی پود مستقبل کی طرف لپک رہی تھی حالانکہ سب مذہبی جماعتوں کے قائدین میں علت مشترکہ قلبِ سلیم تھا اور اقرب الی الفہم بھی یہی تھا کہ ڈکٹیٹر سے فاصلہ ہوتا لیکن مشرف کے دور میں مراعات لینے والوں نے 2008ء کے الیکشن میں عوام کے ردعمل کا بھی سامنا کیا اور پھر پچھتائے لیکن تب پچھتانے کا وقت گزر چکا تھا۔ جماعت اسلامی کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہو گا۔
2008ء میں عام الیکشن اور 2013ء میں کراچی میں الیکشن کا بائیکاٹ کرنا جماعت کی بڑی سیاسی غلطیاں تھیں، بائیکاٹ سے جماعت نے بیٹھے بٹھائے یکایک اپنی سیاسی پہچان کھوئی اور کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے یہ سب سے بڑا آشوب ہوتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی شناخت کھو بیٹھے، پھرجب وہ ایک لمبے عرصے کے بعد عوام کے پاس ووٹ کیلئے جائے تو لوگ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے پہنچاننے کی کوشش کریں، سو جماعت اسلامی نے یہ غلطیاں کی ہیں لیکن سیاسی میدان میں اب غلطی کی گنجائش نہیں اس لئے سراج الحق کو سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا ہونگے تاکہ وہ قافلے کی دھول بننے کی بجائے خود سالارِ قافلہ بن سکیں۔ سراج الحق نے جس طرح نوجوان کو اپنے قافلے میں شامل کرنے کی کوشش شروع کر رکھی ہے ۔ ارکان شوریٰ نے اگر انکے سامنے پابندیوں اور اصول و ضوابط کی کوئی دیوار کھڑی نہ کی تو وہ جماعت کیلئے دورِ نو کے بانی ٹھہرائے جائینگے۔ اس سلسلے میں انکے دولت کدے پر علمی صحبت کا انعقاد بھی ہونا چاہئے جس میں حالاتِ حاضرہ سے تعلق رکھنے والے ارباب فکر و علم کو بُلا کر سیر حاصل گفتگو کی جائے اور نوجوانوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے کیونکہ جماعت اسلامی لیپ ٹاپ سے نوجوانوں کے دل جیت سکتی ہے نہ ہی اپنے جلسوں میں قوم کے بچوں اور بچیوں کو نچوانے کا اسکے ہاں کوئی رواج ہے لیکن اسکے باوجود جماعت کے کارکنوں کی مستقل مزاجی اور جاں سپاری اس زمانے کے حالات میں مجھے عجب اور انوکھی بات معلوم ہوتی ہے۔ کارکنوں میں دیانتداری، انہماک جاںنثاری اور جذبہ ہمدردی یہ سب وہ اوصاف ہیں جو مثالی ہیں۔ سراج الحق کا مزاج بھی اسی ٹائپ کے کارکنوں کا ہے۔ سید زادے نے اپنی امارت میں کبھی اجتماع عام نہیں کیا، بحیثیت انسان ان میں بھی خامیاں تھیں لیکن سبکدوشی کے بعد ان کا ذکر مناسب نہیں۔ انکی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہ ہر بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھے۔ قاضی حسین احمد جیسا مردِ قلندر جماعت کو نصیب نہیں ہو گا، انکے دور میں جماعت منصورہ سے نکل کرقریہ قریہ اور دیہات میں گئی اور لوگوں کو اپنے وجود کا احساس دلوایا۔ مجھے یقین ہے کہ سرالج الحق اس راستے کا انتخاب کرینگے۔ سراج الحق کا تکمیل پاکستان کے نام سے سیاسی مہم کا آغاز نوجوانوں میں انکے سیاسی جذبے کو ابھارے گا۔ سیاسی کعبہ الگ ہونے کے باوجود سراج الحق نے عمران خان کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی۔ مذہبی سوچ الگ ہونے کے باوجود علامہ قادری کے پاس گئے اور سیاسی جماعتوں کے نفسا نفسی کے عالم میں انہوں نے اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالنے کی بجائے سوچ سمجھ کر اپنے پتے کھیلے۔ ایک سیاسی رہنما کی یہی دانشمندی ہوتی ہے۔ عمران خان نے نئی پود کو بگاڑا اور وہ ان تمام قدروں سے تہی دست ہیں جنہیں اسلامی تہذیب نے پرورش کیا ہے لیکن اسکے باوجود سراج الحق نے عمران کو مفاہمت کی تبلیغ کی۔ سراج الحق کا اجتماع عام بندگی ربّ اور محبت رسولؐ میں اضافے، منافقت کے خاتمے اور نظام میں تبدیلی کا سبب بنے گا۔ اجتماع عام کو سراج الحق کے نام سے منسوب کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جماعت نے پچھلے پانچ سال میں کوئی اجتماع نہیں کیا۔ اس اجتماع عام کا سہرا سراج الحق کے سر ہے
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024