انڈیا سمیت دنیا میں 20سال سے زیادہ عرصہ گزارنے والے ایک روسی ڈپلومیٹ اور جاسوس Yuri Bezmenov نے کہا تھا کہ یہ ممالک Useful Idiots (مفید احمق) ہیں یعنی ان ممالک کو کوئی بھی بڑی طاقت اپنی خواہش ، مرضی اور مقاصد کیلئے با آسانی استعمال کر سکتی ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے ڈپلومیٹ نے کہا کہ جب میں بھارت میں لوگوں کو اپنے مقاصد کیلئے صرف ہائر کرنا چاہتا تھا تو مجھے لگتا تھا کہ گویا پوری قوم ہی برائے فروخت ہے۔ بین الاقوامی طور پر مشہور ترین نظریہ Clash of Civilization جو کہ عملی طور پر سامنے آچکا ہے کے مطابق مغربی بلاک کو صرف مسلم اور چائنہ کی تہذیب یا علاقے سے خطرہ ہے ۔ Clash fo Civilizationنظریے کے مطابق بھارت ایکSwinging یعنی جھولتی ہوئی تہذیب ہے اور یہ تہذیب یا ملک مغربی تہذیب کی مزاحمت تو دور کی بات مخالفت بھی نہیں کرتا ۔ حالانکہ ہندو ازم دنیا کا تیسرا بڑا مذہب ہے اور اسکے ماننے والوں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے۔ مغربی تہذیب کیلئے کارآمد ہونے اور چائنہ کی مخالفت کے معاوضے کے طور پر مغربی طاقتیں بھارت کے ایک روایتی پسماندہ ملک کے طور پر تمام معاشرتی مسائل اور اپنی ایک نہیں دونوں آنکھیں بند رکھتے ہیں اور کبھی بھی کسی مغربی طاقت نے بھارت کے کسی بھی معاشرتی، سیاسی و معاشی مسئلے پر کبھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بھارتی وزیراعظم کا حالیہ دورہ جو کہ دونوں ملکوں علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ چائنہ اور انڈیا دونوں ممالک کے نام کو ملا کر زیادہ سکالر Chindia (چنڈیا) کا نام دے رہے ہیں۔ شروع سے ہی اس وقت متنازعہ بن گیا جب بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان سے گزرنے والے اکنامک کوریڈور سے گزرنے والی سڑک پر اعتراض کیا جبکہ حقیقت میں یہ سڑک مقبوضہ کشمیر سے میلوں دور ہے۔ اس اعتراض کے متعلق بھارتی پالیسی یا ارادے کا اندازہ اس اخباری اطلاع سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھار ت نے اپنی خفیہ ایجنسی کے ذریعے تین کروڑ ڈالر سے ایک شعبہ قائم کیا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف معاشی راہداری اور پاکستان میں قائم کئے جانیوالے دیگر پراجیکٹس کو تکمیل تک نہ پہنچنے دینا ہے۔ یہ دورہ کھٹائی کا شکار اس وقت ہوا جب چائنہ کے میڈیا نے بھارتی زیر تسلط مقبوضہ کشمیر اور ارونہ چل پردیش کے علاقے کو بھارتی نقشے کا حصہ نہیں دکھایا واضح رہے کہ ارونہ چل پردیش کا تقریباً 90ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ بھارت اور چائنہ کے درمیان ایک تنازعہ ہے۔ اسی طرح کشمیر کا 38ہزار مربع کلومیٹر علاقہ بھی چین نے 1962ء کی جنگ میں بھارت سے چھین لیا تھا۔ واضح رہے کہ ارونہ چل پردیش سمیت سات ریاستیں جو کہ چین اور بنگلہ دیش کے درمیان واقع ہیں، علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی مغربی بنگال جو کہ بنگلہ دیش سے ملحقہ علاقہ ہے سے شروع ہونے ایک بڑی ساحلی پٹی میں مزید علیحدگی پسند تحریکیں چل رہیں ہیں۔ جسے کاریڈور آف ٹیرر کا نام دیا گیا ہے جن میں مائو ازم کی تحریک اور تامل باغیوں کی تحریک سب سے زیادہ اہم ہیں۔ مائو ازم کی تحریک سیاسی رہنما کے طورپر چین کے بانی رہنما مائوزے تنگ کو اپنا پیشوا مانتے ہیں جبکہ تامل تحریک نسلی طورپراور معاشی پسماندگی کی وجہ سے علیحدگی پسند ہے۔ اس تحریک کی شدت کا اندازہ قیادت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی شہر چنائی جس کا پرانا نام مدراس ہے میں ہونیوالے موجودہ IPL ٹورنامنٹ کے ایک کرکٹ میچ میں تاملوں کی دھمکی کی وجہ سے سری لنکن کھلاڑی میچ میں حصہ نہیں لے سکے تھے۔ حاصلِ کلام کے طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ چائنہ مخالف عالمی طاقتیں انڈیا کے ذریعے چین کو Engageکرنا چاہتی ہیں جبکہ چائنہ اس Rule of Engagement کو پاکستان کے ذریعے بیلنس رکھنا چاہتا ہے اور جیو پالیٹکس کا یہ پہلو موجودہ پاک چائنہ معاشی رہداری اور دیگر منصوبوں سے بلکل ہٹ کر اور بہت پرانا ہے۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ Chindiaیعنی چین ۔ بھارت تعلقات کی گاڑ ی صرف دو پہیوں پر مشتمل نہیں ہے پاکستان کو چین اس گاڑی کو تیسرے پہیے کے طورپر دیکھتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت بھی اس حقیقت کو نہ صرف جانے بلکہ مانتے ہوئے پاکستان سے اپنی کشیدگی ختم نہیں کر سکتا ہے تو کم ضرور کرے تاکہ نہ صرف چائنہ، انڈیا (Chindia) تعلقات بہتر ہوں بلکہ مشرقی اور جنوبی ایشیا کے خطے میں بھی بہتری آئے اور اسی طرح ایشیا کے حالات کو استحکام میسر آئے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024