اس میں کوئی شبہ نہیں! بالکل بھی کوئی شبہ نہیں کہ ایک زمانے میں پیپلز پارٹی بھوکوں ، ننگوں اور غریبوں کی جماعت تھی، لیکن کیا یہ غلط ہے کہ اب یہ جماعت ہوس اور حرص کے مارے بڑی توند والوں کی جماعت بن چکی ہے کہ کھا کھا کر جن کے پیٹ پھٹنے کو آچکے اور جن کی باچھوں تک سے کھایا پیا بہہ رہا ہے؟ بجا! بالکل بجا کہ ایک وقت تھا جب پیپلز پارٹی اُس جیالے کی امید وں کا مرکز تھی کہ بارش میں جس کے جھونپڑے کی چھت ٹپکتی تھی ، جس کے سائیکل کے دونوں ٹائروں کو بیس بیس پنکچر لگے ہوتے تھے،جو لائن میں کھڑا ہوکر ہفتے بھر کا راشن لیتا اور پھر اُس راشن کو دو ہفتوں تک چلانے کی کوشش کرتا تھا اور جو ایک لنگی اور ایک بنیان میں بھی قناعت کرنے کو تیار تھا لیکن کیا یہ غلط ہے کہ اب پیپلز پارٹی بڑے بڑے محلوں، فارم ہاؤسوں، پلازوں اور جہازوں والے ندیدوں کی جماعت بن چکی ہے کہ جن کی آنکھوں سے بھی لالچ ٹپکتا ہے؟ مانا! بالکل مانا کہ ایک وقت تھا جب پیپلز پارٹی قربانی دینے اور کوڑے کھانے والوں کی جماعت کہلاتی تھی، لیکن اِس میں کیا شک ہے کہ اب پیپلز پارٹی ٹانگوں سے بم باندھ کر بھتہ وصول کرنے اور کھالیں تک اُدھیڑنے والوں کی جماعت کہلانے پر بھی شرم محسوس نہیں کرتی؟ منظور! بالکل منظور! کہ ایک وقت تھا جب پیپلز پارٹی پھانسی پر جھولنے اور قیدوبند کی صعوبتیں ہنسی خوشی برداشت کرنے والوں کی جماعت کہلاتی تھی لیکن کیا یہ غلط ہے کہ اب پیپلز پارٹی پر مخالفین کی ٹارگٹ کرنے والا عسکری ونگ پالنے کے بھی الزامات ہیں؟ تسلیم! بالکل تسلیم کہ کبھی پیپلز پارٹی نے سرمایہ داروں کے سرمائے میں غریب مزدور کو حصہ دار بنانے کا دلفریب نعرہ لگایا تھا لیکن کیا یہ غلط ہے کہ اب پیپلز پارٹی ہر کاروبار میں ’’10 پرسنٹ‘‘ سے لے کر’’90 پرسنٹ‘‘ تک اپنی جیب میں زبردستی منتقل کرنے کی دھونس جمانے اور دھمکی لگانے والوں کی آماجگاہ بن چکی ہے؟
پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ نوحہ لکھنے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ گزشتہ چند روز سے ایک سوال ملک کے سنجیدہ حلقوں میں زیر گردش ہے کہ کیا موجودہ پیپلز پارٹی ’’جرنیلوں‘‘ کا کچا چٹھا کھولنے کی دیوانے کی بڑ پر عمل کرسکتی ہے؟ حالانکہ ایسی بڑھک تو پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے قائد عوام اور ایشیا کا ساحر کہلانے کے باوجود خواب میں بھی نہیں ماری تھی۔سوال تو یہ بھی ہے کہ چند روز قبل اسلام آباد میں اپنی آمد کے موقع پر’’مفاہمت کے راجہ‘‘ کو ’’مولا جٹ‘‘ بن کر سیاسی گنڈاسہ لہرانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ معاملات پر مٹی ڈالنے کیلئے مشہور جو لوگ اس ساری صورتحال پر یہ کہہ رہے ہیں کہ آصف زرداری نے فوج کے خلاف جو ’’بہکی بہکی‘‘ باتیں کیں، وہ محض وقتی اُبال تھا یا آصف زرداری کی سیاسی چال تھی یا پھر یہ کہ مسلم لیگ ن سمیت دیگراینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کی درپردہ حمایت سے پیش کیا جانے والا ڈرامہ تھا تو وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے آصف زرداری کے ساتھ ملاقات سے تقریبا ’’ہتک آمیز‘‘ انکار اورپہلی افطاری پر پیپلز پارٹی کے ’’بقراطوں‘‘ کی جانب سے لگائے جانے والے سیاسی شو کی ناکامی سے یہ مفروضہ بھی غلط ثابت ہوگیا۔ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے آغاز کے ساتھ ہی یہ نعرہ بھی بیچ منجھدار ڈوب گیا کہ ’’ایک زرداری، سب پر بھاری‘‘۔ یہ بات بھی درست ثابت نہ ہوسکی کہ آصف زرداری شہد کا چھاتہ ہیں کہ مشکل وقت میں ساری ’’مکھیاں‘‘ ان کے گرد حفاظتی حصار کھینچ دیں گی۔ کیا غلط وقت پر غلط پتے کھیلنے والے آصف زرداری کو اب بھی پتہ نہیں چلا کہ اُن کے گرد خون پینے والے مجنوں کم اور دودھ پینے والے رانجھے زیادہ اکٹھے ہوچکے ہیں۔
چوری اور سینہ زوری آخر کب تک ایک ساتھ چل سکتی ہیں؟ ملک بھر کا خون پینے والی جونکوں نے اب جب سندھ دھرتی کی ہڈیوں کا ’’گودا‘‘ بھی کھانا شروع کردیا ہے توملک کی سلامتی کا حلف اٹھانے والے آخر کب تک چپ بیٹھے ملک کا شیرازہ بکھرتا دیکھتے رہیں؟کیا سندھ کے عوام کی امن، چین اور سکون کے ساتھ جینے ، پیٹ بھر کر روٹی کھانے اور سرپر چھاؤں کیلئے ایک چھت کی خواہش اتنا ہی بڑا جرم ہے کہ اِس کے بدلے سندھیوں کو ہمیشہ غلام بناکر رکھنے کی سزا دیدی جائے؟ اب جب کہ قومی لائحہ عمل پروگرام کے تحت دہشت گردوں کے خلاف جاری رینجرز کے آپریشن کا دائرہ کار بظاہر صوبائی حکومت کی سطح پر مبینہ بدعنوانیوں اور بداعمالیوں تک وسیع کردیا گیا ہے اور اس میں سندھیوں پر ظلم کی نت نئی کہانیاں منظر عام پر آرہی ہیں تو اِس میں قصور کس کا ہے؟ اس میں سیاستدانوں کا اپنا قصور ہے یا قومی ایکشن پلان پر عملدرامد کرنے والوں کا قصور ہے؟ اگر سندھ اور کراچی کو لوٹنے کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے چار اعلیٰ افسران کا ’’تعلق‘‘ پیپلز پارٹی کی قیادت سے نہیں ہے تو پھر یہ سارا شور شرابہ کیوں ہے؟ اور اگر لوٹ مار میں پیپلز پارٹی سندھ کے رہنما شریک نہیں تو بدعنوانی کے مقدمات میں صوبائی وزیر علی مردان شاہ، سابق وزیر تعلیم پیر مظہرالحق، سیکریٹری اطلاعات ذوالفقار شاہلوانی اور ڈائریکٹر منصور راجپوت نے عدالتوں سے حفاظتی ضمانت کیوں کرائی ہیں؟ شنید تو یہ ہے کہ ’’ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘‘ اور اِس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کی قیادت نے ’’رونا،دھونا اور چلانا‘‘ بھی شروع کردیا۔عجیب بات تو یہ ہے کہ سندھ کی حکمران جماعت کی جانب سے حالیہ گرفتاریوں پر فوج اور میڈیا تک ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کیلئے متنبہ تو کیا جارہا ہے لیکن سندھ کے حکمران طبقے کی جانب سے اپنی سمت، نیت اور ارادے درست کرنے کی کوئی کوشش سامنے نہیں آرہی۔ قارئین کرام!! ایک وقت تھاجب پیپلز پارٹی بجا طور پر بھٹوز کی جماعت کہلاتی تھی،اِن بھٹوز میں سے پیپلز پارٹی کے بانی ذولفقار علی بھٹو پھانسی پر جھول گئے، شاہنواز بھٹو نوجوانی میں ہی پیرس میں پراسرار موت کا شکار ہوگیا، مرتضی بھٹو کو سندھ میں اپنی ہمشیرہ کی حکومت میں سرراہ گولیوں سے بھون دیا گیا ، نصرت بھٹو حسرت و غم اور رنج و الم کی تصویر بنے دنیا سے چلی گئیں اور آخر میں عوام کیلئے اپنے گاڑی سے ’’سراُٹھانے‘‘ والی بینظیر بھٹو کو بھی المناک موت کا سامنا کرنا پڑا اور ایک صنم بھٹو رہ گئی جس نے کبھی سیاست کی پہلی سیڑھی پر چڑھنے کی خواہش بھی نہیں، باقی وہ تمام بھٹوز دنیا سے اُٹھ گئے جن کے بارے ’’بھٹوز آر بارن ٹو رُول‘‘ کے افسانے تراشے جاتے تھے۔ جب بھٹوز کے ہوتے ہوئے کسی نے (آمر جرنیل نہیں بلکہ حلف کی پاسداری کرنے والی ) فوج سے ٹکر لینے کی ہمت نہیں کی تو پھر بلاول زرداری، بختاور زرداری، آصفہ زرداری اور سب پر بھاری آصف علی زرداری کی سیاسی ناکامیوں کا پرچم اُٹھاکر فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا پاگل پن کیوں ظاہر کیا گیا؟وہ کام جو پیپلز پارٹی کے عین عروج کے زمانے میں بھٹوز کے ہوتے ہوئے بیسویں صدی کی ساتویں، آٹھویں اور نویں دہائی میں نہ ہوسکا، وہ کام بھلا جاکھرانیوں، مخدوموں، پیچوہوں، تالپوروں، شرمیلوں اور شرجیلوں میں گھرے زرداری اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں کیسے کرسکتے ہیں؟ جاگیں جناب جاگیں!اِس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، جاگیں! ویسے بھی جب بجھ ہی جانا ہے تو بھڑکنے کا کیا فائدہ؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024