بچپن کے دنوں کی کئی یادوں میں سے کچھ آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ میرے دادا جی چوہدری برکت علی وڑائچ جنہیں اہل علاقہ احترام سے ’’میاں جی‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ میاں جی اپنے آبائو اجداد کی طرح کھیتی باڑی کے پیشے سے منسلک تھے۔ چونکہ ان کا بیشتر وقت ’’کھوہ‘‘ ڈیرے پر گزرتا تھا، اس لئے تینوں وقت کا کھانا ڈیرے پر ان کو پہچانا میری ذمہ داری تھی۔ ایک دن حسب معمول میں صبح کا ناشتہ لے کر ڈیرے پر پہنچا تو دیکھا میاں جی اپنی اونچی آواز میں مزارعوں کو پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ فوری طور پر چارہ کاٹ کر دو یا تین دن کا ذخیرہ کر لو کیونکہ بارش آنیوالی ہے۔ یہ اوائل اپریل کے دن تھے۔ سورج صبح ہونے کے باوجود پوری تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ بارش کے بظاہر کوئی آثار دکھائی نہ دے رہے تھے، ملازموں کی حیرانگی اور میرے استفسار پر میاں جی نے جواب دیا کہ ہم جدی پُشتی کسان ہیں، زمین کا سینہ چیر کر رزق تلاش کرنا ہمارا پیشہ ہے اور موسم کا زراعت کے شعبے سے گہرا تعلق ہے اور یہ ہُنر میں نے بھی اپنے آبائو اجداد سے سیکھا ہے۔ آج آسمان رنگا رنگ دیکھ کر میں بتلا سکتا ہوں کہ آج بڑی تیز کی بارش ہونے والی ہے اور پھر ایسا ہی ہوا، چند ہی گھنٹوں بعد نہ تھمنے والی موسلادار بارش شروع ہو چکی تھی جو مسلسل دو تین دن جاری رہی، جس سے کھیت پانی سے بھر گئے، مگر میاں جی کی چھٹی حس یا علم سے اگلے چند روز کا چارہ مزارعین نے محفوظ کر لیا تھا۔ انہی میاں جی کا یہ پوتا جب (راقم) مڈل و ہائی سکول پہنچا تو طلبا سیاست کا آغاز کر دیا۔ کالج میں سٹوڈنٹس یونین کا صدر چُنا گیا اور صرف 19 سال کی عمر میں پہلی جلاوطنی کر کے سوئٹزر لینڈ پہنچا۔ جلاوطنی میں بیگم نصرت بھٹو و محترمہ بے نظیر سے سیاسی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔
1999ء سے لے کر 2007ء تک شہید بی بی کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے قومی و بین الاقوامی لیڈروں اور سربراہان مملکت و وزرائے اعظم سے بالمشافہ ملنے، تبادلہ خیال اور بات کرنے کے مواقع حاصل ہوئے بلکہ جدوجہد جمہوریت کے سلسلے میں ضیائی آمریت اور مشرف کے مارشل لاء سمیت سول ڈکٹیٹر نواز شریف کی حکومتوں سے ٹکر بھی لی اور ابھی تک بے بنیاد مقدمات کا سامنا ہے۔ اس دوران متعدد مرتبہ جیلیں بھی کاٹیں اور سابق صدر آصف علی زرداری اور راجہ پرویز اشرف کا جیل فیلو بھی رہا۔ میثاقِ جمہوریت اور این آر او جیسے معاہدوں کا عینی شاہد ہوں اور کئی راز سینے میں پنہاں ہیں مگر آج میں کہتے ہوئے تکلف نہ برتوں گا کہ سیاست اور اقتدار کے شوقین آصف علی زرداری نے جو ’’میکاولی‘‘ طرزِ سیاست کے گرویدہ ہیں، نے اپنا اقتدار بچانے کیلئے نواز شریف، پرویز کیانی، چوہدری افتخار اور بیوروکریسی کے ساتھ ’’یملا‘‘ بن کر اقتدار کی کانٹوں بھری راہ پر خوشدلی سے چلتے رہے اور کامیاب ہوئے لیکن نواز شریف مئی2013ء کے الیکشن میں بظاہر کلین سویپ کرکے بھی نواز شریف صرف ایک سال میں ہی کلین بولڈ ہو چکے ہیں جبکہ آصف علی زرداری ٹولہ الیکشن ہار کر بھی سندھ، کشمیر، گلگت بلتستان کی حکومتیں سنبھالے ہوئے ہیں اور چمکیلی بتیسی نکال کر عوام کا منہ چڑا رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے حکمرانوں کے پاس ترکی اور چین کے علاوہ کوئی تیسرا ملک ایسا نہیں کہ جس سے کاغذی معاہدے بھی کر سکیں۔ اس دوران جدہ کے جادوگر خود اپنے دام میں صیاد آ گیا کہ مصداق عراق شام میں بُری طرح پھنس چکے ہیں۔ انہیں اب سرور محل کے سابقہ مکینوں سے کوئی خاص مطلب نہیں۔ جبکہ ہمسایہ بھارت میں انتہا پسند ہندو جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ بلوچستان میں بھارتی شورش اس کا ثبوت ہے۔ سرحدوں کے اندر بھی اندرونی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔
پچھلے ایک سال میں ایک پیسے کی غیر ملکی انویسٹمنٹ ملک میں نہیں، صرف غیر ملکی قرضہ جات کا بوجھ بھرا ہے۔ قرضوں کا حجم 20 ارب ڈالرز سے 75 ارب ڈالرز کی نفسیاتی حدیں عبور کر چکا ہے اور وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ ڈالر 96 سے 107 اور پھر 98 پر لے آنا مضبوط ملکی پالیسی ہے؟ جبکہ گذشتہ ایک سال میں مہنگائی کا جِن بے قابو ہو چکا ہے۔ ضروریات زندگی کی روزمرہ اشیاء تین سو فیصد مہنگی ہو چکی ہیں۔ گیس اور پٹرول چراغ لیکر ڈھونڈنے سے نہیں ملتا، جب ملے تب ایفورڈ ایبل نہیں ہوتا۔ لاء اینڈ آرڈر کا ناگ پھن پھیلائے بیٹھا ہے، دہشت گردی عروج پر ہے، سکیورٹی اہلکاروں کی گذشتہ ایک سال کے دوران سینکڑوں شہادتیں ہوئیں، ہزاروں سویلین شہید ہوئے اور حکومت مذاکرات و مذاکرات کھیلتی رہی۔ چوری، ڈاکہ زنی، قتل، اغواء برائے تاوان اور سٹریٹ کرائم ریاست کیلئے ناسُور بن چکے ہیں، بھتہ خوری و بال جان بن چکا ہے۔ لوڈشیڈنگ کے عذاب نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہزاروں فیکٹریاں، کارخانے اور ادارے بند ہو چکے ہیں، بیروزگاری سے خودکشیوں اور دیگر جرائم میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ممبران اسمبلی اور وزیروں کو اغواء کیا جا رہا ہے۔ حکومت عوام سے کئے کسی ایک وعدے کی لاج بھی رکھنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اسمبلیوں میں تین چوتھائی اکثریت کے باوجود وزیراعظم گذشتہ ایک سال سے سینٹ میں جانے سے کترا رہے ہیں۔ کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی۔ 60 فیصد محکمے اور وزارتیں، وزراء اور چیئرمینوں کے بغیر چل رہی ہیں۔ حتیٰ کہ وزیر خارجہ ، وزیر دفاع ، وزیر قانون، وزیر تعلیم جیسے محکموں میں ایڈہاک بیس پر کام چلایا جا رہا ہے۔ حکمران ہر مرض کی دوا بس ایک ہی ’’پھکی‘‘ جمہوریت کو گردانتے ہیں۔ اداروں کے درمیان کھنچائو کا یہ عالم ہے کہ وزیر دفاع اپنی ہی فوج پر تنقید کرتا ہے۔ تو قارئین ایسے حالات میں کسی میاں جی یا ان کے پوتے کی پیشن گوئی یا تجربہ کی ضرورت باقی رہتی ہے؟
قائد انقلاب نے چیلنج دے دیا حکمرانوں کو مگر حکمران چیلنج کا جواب دینے کی بجائے فرار کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں مگر کیا یہ سب مفاد پرستوں کا ٹولہ ملک سے فرار ہو سکے گا۔ اب کسی اور تجزیئے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟حکمرانوں کی ذرا سی لغزش سبز انقلاب کو سرخ راستوں پر ڈال سکتی ہے۔ ’’اللہ پاکستان کی خیر کرے ۔ آمین!‘‘
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024