منو بھائی موت کی ان گمنام وادیوں کو چل دیئے جدھر سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔ان کے قلم نے پچاس برس تک انسانی مسائل پر لکھا۔اب وہ اپنا آخری کالم بھی لکھ چکے ۔ ان کا قلم بھی فل اسٹاپ کا منتظر تھا ۔ آخر یہ فل اسٹاپ بھی آگیا۔ آخر کار یہ آنا ہوتا ہے ۔ آخری ہچکی قلم کو بھی تو آتی ہے ۔ منو بھائی نے اپنے علمی ترکہ میں ایک نظم ’’احتساب ‘‘ بھی چھوڑی ہے ۔ وہ مختصر لفظوں میں لمبی بات کرنے کا ہنر جانتے تھے ۔ ان کے کالم بھی مختصر ہوا کرتے تھے ۔ لیکن نظم ’’احتساب‘‘ انہوں نے خاصی لمبی لکھی ہے ۔ شاید اسلئے کہیں حاکم اسے منہ زبانی یاد نہ کرلیں۔ انہیں اچھا نہیں لگتا ہوگا کہ کوئی حاکم ان کی نظم لہک لہک کرپڑھے ۔ حبیب جالب کے شعروں کی گت بنتے انہیں نے بہتیری دیکھی ہوگی۔ شعروں میں بھی جان ہوتی ہے ۔ وہ اپنے پڑھنے والوں پر نظر رکھتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر خوش بھی ہوتے ہیں اور کبھی برا بھی مناتے ہیں۔کسی کومرزا غالب کا شعر غلط سلط پڑھتے سن کر میر مہدی مجروح بول اٹھے تھے ۔ ’میاں یہ مرزا نوشے کا کلام ہے، اسے غلط پڑھیں تو اللہ میاں خفا ہوتے ہیں ‘۔ آج اخبارات میں لندن میں مقیم اردو کے شاعر ساقی فاروقی کی موت کی خبر بھی ہے ۔ آخر سب کو مرنا ہی ہوتا ہے ۔ لو ختم کہانی ہوگئی ۔ لیکن ساقی فاروقی کی کہانی اب شروع ہوئی ہے ۔ فیض نے کہا تھا ۔’ دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے‘ ۔ ساقی فاروقی نے اور بڑی بات کی تھی۔ انہوں نے اپنے اللہ سے مانگا بھی تو کیا مانگا۔
ہم وہ عاجز ہیں کہ ہر روز دعا مانگتے ہیں
اور اک تم کہ خدائی نہیں دیتے ہم کو
لو اور سنو !آسمانوں کے مالک نے اسے آسمانوں پر ہی بلا لیا۔اب وہیں لینا دینا ہوگا۔ اب وہی جانے اسے کیا ملتا ہے ۔ ہم زمین پر بیٹھے فیصل عجمی کی طرح سوچتے رہتے ہیں۔
سوچتا ہی رہتا ہوں وہ جہان کیسا ہے
دوسری طرف سے یہ آسمان کیسا ہے
آج کے اخبارات میں ایک خبر اور بھی ہے ۔ اس خبر کو آپ برائے فروخت کا اشتہار بھی سمجھ سکتے ہیں۔ پہلے آئیے ، پہلے پائیے۔ اس خبر کے مطابق سینٹ کے مارچ 2018میں ہونے والے انتخابات میں سینیٹر بننے کیلئے سیاسی جماعتوں نے پچیس سے تیس کروڑ روپوں کی شرط عائد کر دی ہے ۔ آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ 2018کے الیکشن میں سینیٹر بننے کیلئے خطیر رقم مانگی جار ہی ہے ۔ اس کیلئے بڑی جماعتوں نے ابتدائی طور پر پارٹی فنڈ کے نام پر پچیس سے تیس کروڑ روپے رقم کا تعین کیا ہے ۔ ابتدائی طور پر کا مطلب یہ ہے کہ یہ رقم بڑھ بھی سکتی ہے اور یقینا بڑھے گی بھی ۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چاروں صوبوں کی کھرب پتی شخصیات نے اس سلسلہ میں سیاسی جماعتوں کے ’’مالکان‘‘ سے ملاقات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔گفت و شنید جاری ہے ۔ سودے ہو رہے ہیں۔ مول تول جاری ہے ۔ درمیان میں کمیشن ایجنٹ بھی ہونگے ۔ان کی کمیشن کتنے پرسنٹ ٹھہری ہے ، ہم بالکل نہیں جانتے ۔ ایک بات اور بھی ہے ۔ میرے خیال میں اب گاہکوں کی تلاش میں سیاسی جماعتوں کو زیادہ تردد کی ضرورت پیش نہیں آئیگی۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے بتایا ہے کہ 6ہائوسنگ سوسائٹیوں کے آڈٹ کروائے گئے ہیں۔ ان میں 12ارب روپوں کی کرپشن کی نشاندہی ہوئی ہے ۔ یہ آڈٹ آئی کیپ سے سرٹیفکیٹ حاصل کردہ کمپنی سے کروایا جاتا ہے ۔ ذیلی کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ جن لوگوں پر کرپشن کے الزامات ہیں انہیں ہائوسنگ سوسائٹیوں کے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی جائے ۔ اب جن لوگوں کیلئے سینٹ کے دروازے یوں کھلے ہوں ، انہیں ہائوسنگ سوسائٹیوں کے عہدوں کی بھلا ضرورت بھی کیا رہتی ہے ۔ سینٹ کی ممبری بڑی کار آمد شے ہے ۔ اس میں ٹکے ٹکے کے لوگوں کی منت ، خوشامد اور ترلوں کے بغیر ہی بندہ ممبر پارلیمنٹ بن جاتا ہے ۔ پھر ریٹائرمنٹ کے بعد بندہ لفظ ’’سینیٹر ‘‘ کو اپنا تخلص قرار دیکر مستقل طور پر اپنے نام کا حصہ بھی بنا سکتا ہے ۔ ہمارے ایک فیصل آبادی کالم نگار دوست نے ایسا ہی کیا ہے ۔ آجکل ہر محفل میں یہ سوال اک دوسرے سے ضرورپوچھا جاتا ہے۔ کیا مارچ میں سینٹ کے الیکشن ہونگے؟ اس سوال کا جواب ہر آدمی اپنی مرضی منشاء سے دیتا ہے ۔ کوئی الیکشن ہونے کا امکان ظاہر کرتا ہے ۔ بعضوں کے خیال میں سینٹ تو کیا ابھی چند سال کوئی الیکشن بھی نہیں ہوگا۔ احتساب ہوگا ، کڑا احتساب۔ پچھلے دنوں یوسف رضا گیلانی نے بھی کچھ ایسی ہی پیشین گوئی کی تھی ۔ انہوں نے کہا تھا کہ آئندہ الیکشن میں صرف وہی حصہ لیں گے جو زندہ رہیں گے ۔ یاد رہے ، سیاستدان سیاست کے بغیر زندگی کو موت ہی سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ یوسف رضا گیلانی سے بھی بڑے لوگ ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے یوسف رضا گیلانی کو وفاداری کے صلے میں وزارت عظمیٰ بخشی تھی ۔ پھر یوسف رضا گیلانی نے کسی زرخرید غلام کی طرح وفاداری نبھائی بھی ۔ وزیر اعظم ہائوس چھوڑ دیا لیکن سوئٹزرلینڈ کی حکومت کوچوری شدہ پاکستانی عوامی دولت کی واپسی کیلئے خط نہ لکھا۔ایسے طاقتور زرداریوں کی صدارت کیلئے قانون قاعدے بھی بدل دیئے جاتے ہیں۔ پھر انہیں ملک کی صدارت پیش کی جاتی ہے ۔ ان پر احتساب کوئی اثر نہیں کرتا۔ سنا ہے پچھلے دنوں انہوں نے کوئٹہ میں ملک کی سب سے مہنگی سیاسی خریداری کی ۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔اس خریداری میں کرنسی کونسی استعمال میں لائی گئی ؟ گاہک جانتا ہے یابیچنے والے ۔ ہم عوام بھلا کیا جانیں ۔ پنجابی محاورے کے مطابق ’ہم پاکستانی عوام کا شمار نہ 3میں ہوتا ہے اور نہ 13میں‘۔ یہ خریداری آئندہ صدارتی الیکشن میں ان کے کام آئیگی۔ امکان ہے کہ آئندہ صدر پاکستان یہی آصف زرداری ہونگے ۔ ہمارے گوجرانوالہ کے پروفیسر اسیر عابد نے ’’دیوان غالب‘‘ کا منظوم پنجابی ترجمہ کیا تھا۔ گوجرانوالہ سے یہ اعزاز ہی نہیں سنبھالا جارہاتھا۔پچھلے دنوں لاہور کتابوں کی ایک نمائش میں ہمارے ہاتھ پروفیسر اسیر عابد کا کیا ہوا علامہ اقبال کی’’بال جبریل ‘‘کا’’ جبریل اڈاری‘‘ کے نام سے منظوم پنجابی ترجمہ ہاتھ آگیا۔’بال جبریل‘ سے ایک شعر اور ’’جبریل اڈاری ‘‘سے اسکے ترجمے سے کالم تمام کرتا ہوں۔ یاد رہے ؛ انہوں نے ’سرمایہ پرستی‘ کا ترجمہ لفظ ’’زرداری‘‘ سے کیا ہے اور کیا خوب کیا ہے ۔
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے ترِی منتظر روز مکافات
زرداری دا بیڑہ دس خاں کیہڑے دن جا ڈُبنا
بیٹھا جگ اڈیکے ‘ ہوسن کیہڑے روز نتارے