مرحوم منو بھائی نے غالباًدو سال پہلے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ اپنے کارکنوں کو سخت موسموں میں سڑکوں پرمتحرک رکھنے والا پرجوش خان اچانک یوٹرن لے کے حکمران جماعت کو پھر سے مضبوط کردیتا ہے ۔جب تحریک انصاف اکیلی بڑے بڑے جلسے کر لیتی ہے ۔تو انہیں نہ جانے کس’سیانے ‘کے مشورے نے طاہر القادری کے کنٹینر پر جانے پر مجبور کردیا ہے ۔تعلیم کہیں سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے ۔مگر زندگی کے کسی بھی شعبہ میں کامیابی کے لیے مناسب تربیت کی بہت شدت سے ضرورت پڑتی ہے ۔لگتا ہے کہ خان صاحب تربیت سے بلکل محروم ہیں ۔نہ ان سے گھر کے معاملات سنبھالے جاتے ہیں۔نہ ان سے اپنی پارٹی کے لوگ اور نہ ہی وہ اپنی زبان سنبھال پاتے ہیں ۔جس اسمبلی میں جا کے وزارتِ عظمی کا خواب آنکھوں میں سجائے وہ ہر روز سڑکوں پر دھرنے کرتے رہتے ہیں ۔اسی پارلیمنٹ پر لعنت بھیج دیتے ہیں ۔ہاں یہ سچ ہے کہ پارلیمنٹرین غلط کاموں میں ملوث ہیں ۔عوامی مینڈیٹ سے پارلیمنٹ میں جانے والے اپنے حلف کا پاس نہیں رکھ پاتے ۔ پارلیمنٹ سے بھاری تنخواہیں لیتے ہیں ۔ مگر مہینوں تک پارلیمنٹ جانا بھی گوارہ نہیں کرتے ۔تو محترم خا ن صاحب مجر م پارلیمنٹرین ہیں پارلیمنٹ نہیں ۔ملک میں انصاف کا نظام لانے سے پہلے اپنے ساتھ انصاف کرنا سیکھو۔نظام بدلنے سے پہلے خود کو بدلنا بہت ضروری ہوتا ہے ۔آزادی کے نام پر لوگوں کی زندگیوں سے اور ملک کے مستقبل سے کھلواڑ اب بند ہونا چاہیے۔ملک میں ترقی کاسفر ابھی شروع ہی ہوتا ہے کہ ہم سازشوں کے زریعے اپنے لوگوں کے خلاف محاذ قائم کرنے لگتے ہیں ۔لاہور میں ناکام جلسی نے ساری سیاسی جماعتوں کی ہوا نکال دی ہے۔جمہوریت نواز ملکوں میں آئے روز سیاسی بحث و مباحثے ہوتے رہتے ہیں ۔ مخالفین حکمران جماعت کے خلاف ایشوز پر سخت ردِعمل دیتے ہیں۔ایسے ممالک میںلوگوںمیں تعلیم اور تربیت کی وجہ سے برداشت اور ڈائیلاگ کا رواج عام ہوچکاہے ۔اس کے ساتھ ساتھ بہت سے ممالک میں شخصی حکومتیں اور بادشاہی نظام بھی چل رہا ہے ۔ اور کچھ ملک ہماری طرح آدھے تیتر آدھے بٹیر کا نمونہ پیش کر رہے ہیں ۔ عرب ملکوں کو اللہ پاک نے ہر طرح کے وسائل سے نواز ر کھا ہے ۔مگرعرب دنیا میں ابھی تک شائد ہی کوئی نامور تعلیمی درسگاہ قائم ہوئی ہو ۔اعلی تعلیم کے لیے برصغیر کے لوگوں کی طرح عرب ممالک کے لوگ بھی یورپ کا رخ کرنے پر مجبور ہیں ۔جس امت کی ہدایت کا سفر ‘‘اقرا‘‘ سے شروع ہوتا ہے ۔اس امت کے حکمران اپنے عوام کے لیے تعلیمی نظام ہی وضع نہیں کرپاتے ۔کتنے افسوس کی بات ہے ۔جن انگریزوں کی ہم برائی کرتے ہیں ۔ مسلم امہ کے بچے آج بھی اعلی تعلیم کے لیے انہی کی درسگاہوں میں جانے پہ مجبور ہیں ۔سیانے کہتے ہیں کہ تاریخ کو یاد کرتے رہنا چاہیے اور تاریخ سے سبق بھی سیکھنا چاہیے ۔دنیا میں قوموں نے کیسے عروج حاصل کیا اور کن غلطیوں کو دہرانے سے لوگ زوال کا شکار ہوا کرتے ہیں ۔اللہ پاک نے قرانِ حکیم میں بھی پچھلی امتوں کے عروج و زوال کی کہانیاں بڑی تفصیل سے بیان کی ہیں ۔مگر لگتا ہے ہماری قوم نے تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کا عہد کیا ہوا ہے ۔ہمیں دشمن طاقتیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں اور کر رہی ہیں ۔ہم آج بھی دشمن کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ۔ ۔مغرب اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے کبھی ہمیں جمہوریت کا درس دیتا ہے تو کبھی اپنے فائدے کے لیے آمر کے سر پہ اپنا ہاتھ رکھ دیتا ہے ۔ اسی لیے اقبال ؒ موجودہ جمہوری نظام کو ابلیس کی ایجاد کہتے ہیں ۔علامہ اقبال مسلمانو ں کے مغرب زدہ طبقے کو انتہائی پست فطرت کہتے ہیں ۔علامہ مرحوم ایسے لوگوں سے سخت بیزار تھے جو مسلمان معاشرے میں رہتے ہیں ۔بظاہر مسلمانوں کے رہبر بنتے ہیں مگر ان کے دل و دماغ پر اغیار کا قبضہ ہے ۔وہ اپنی باتوں میں قران و حدیث کی بجائے مغربی مفکرین کا حوالہ دینا اہم سمجھتے ہیں ۔اقبال کے نزدیک جو لوگ آنکھیں بند کر کے مغربی تہذیب کی تقلید کرتے ہیں ۔اور اپنی تاریخ و تہذیب سے بیگانگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ایسے لوگ دراصل جاہل اور کور نظر ہیں۔مغربی تعلیم سے بہرہ ور ہونے والا ہمارا نوجوان ذہنی اور روحانی طور پر تہی دامن ہوچکا ہے ۔اسلامیت اور وطنیت کا تصور اس کے دل و دماغ سے مٹادیا گیا ہے ۔ اقبال کا شاہیں آج اپنا مستقبل یورپ کی غلامی میںسمجھتا ہے ۔ ہمیں بنیادی حقوق میں الجھا کے ووٹ لے لیے جاتے ہیں ۔ہمارے پارلیمنٹرین پارلیمنٹ جا کے ملک کی بہتری کے لیے قانوں سازی میں حصہ لینا گوارا نہیں کرتے ۔تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں اندرونی لڑائیوں کو ختم کر کے اپنا تعلیمی اور سیاسی نظام خود ترتیب دینا ہوگا ۔مگر اس کے لیے یقین محکمٟعمل پیہم کی ضرورت ہے ۔مستقل مزاجی سے ہی ترقی کا سفر شروع ہوسکتا ہے ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38