موجودہ المناک صورتحال یکدم نمودار نہیں ہو گئی بلکہ ایک عرصہ سے اونٹ کی پیٹھ پر بوجھ کا تنکا تنکا بڑھتے بڑھتے آخری تنکا اونٹ کیلئے نا قابل برداشت پوزیشن میں اونٹ کی ٹانگوں کا ڈگمگانا شروع ہو گیا۔ اخبارات اور ٹی وی چیلنجز دار الحکومت اسلام آباد کے امن و امان کو سول انتظامیہ کے کنٹرول سے پھسلتے ہوئے محسوس کرکے یکم اگست سے ہی آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت پاک آرمی کی مدد کی باضابطہ طلبی کا اعلان ہو چکاہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی آزادی مارچ اور پاکستان عوامی تحریک کی انقلابی مارچ کے نتیجہ میں اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے عین سامنے ان ہر دو جماعتوں کے فلگ شگاف احتجاجی نعروں میں پوشیدہ مطالبات کی گونج نے ایک المناک کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں دانشوروں اور میڈیا کے محب وطن قائدین کی طرف سے حکومت اور احتجاجی مارچ و دھرنا پر بضد پارٹیوں کے درمیان مشاورت اور مفاہمت بھی اب تک کی گئی کاوشیں باہمی اعتماد کا ماحول پیدا کرنے میں ابھی تک بند گلی میں کوئی مثبت پیش رفت کرنے میں کئی وجوہات کی بناء پر کامیابی حاصل نہیں کر سکیں۔ چنانچہ گزشتہ رات جب آزادی مارچ اور انقلابی مارچ اپنے ہر دو کیمپوں سے نکل کر ریڈ زون کی طرف پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ایک اجتماعی دھرنا دینے کیلئے رواں دواں ہوئے تو لاہور میں پاکستان نیشنل فورم نے اس بظاہر الارمنگ صورتحال کے نتائج سے پیدا ہونے والی صورتحال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کیلئے فورم کے صدر نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں مندرجہ ذیل شخصیات نے شرکت کی۔ جسٹس شیخ ریاض احمد سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان‘ ایڈمرل یستور الحق ملک سابق چیف آف نیول سٹاف‘ لیفٹیننٹ جنرل ایم نصیر اختر سابق کور کمانڈر کراچی‘ لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیاء سابق کور کمانڈر اور چیئرمین پی سی بی‘ جسٹس فقیر محمد کھوکھر سابق فیڈرل سیکرٹری قانون اور جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان‘ ائیرمارشل خورشید انور مرزا‘ اے وی ایم انور محمود خان سابق ڈی جی سی اے اے پاکستان‘ میجر جنرل سعید الدین قاضی سابق جی او سی حیدر آباد‘ میجر جنرل خواجہ راحت لطیف سابق کمانڈر پی ایم اے‘ ڈی ایم ایل اے راولپنڈی‘ مسٹر جمیل اے ناز سابق قونصل جنرل انڈونیشیاء اور لائف ممبر ایف پی سی سی آئی‘ فورم کے صدر کرنل (ر) اکرام اللہ خان کو اجلاس کی کارروائی اور سفارشات کو تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی۔یہ سفارشات مندرجہ ذیل دس نکات پر مشتمل ہیں جو مختصراً حسب ذیل ہیں:۔
(1)اگرچہ دونوں احتجاجی ’’مارچ‘‘ ابھی تک پر امن ہیں لیکن اس بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی پاکستان دشمن کسی بھی نوعیت کی تخریبی کارروائی کر کے جلتی پر پٹرول چھڑکنے کا کام دے۔ ایسی تشویشناک صورتحال سول انتظامیہ اور فوجی قیادت کے لئے HIGHEST حفاظتی تدابیر کا تقاضا کرتی ہے۔ فورم نے تمام قانون نافذ کرنے والے عہدیداروں کے ہتھیاروں سے گولیاں واپس لینے اور ان کی جگہ ربڑ کی گولیوں کے استعمال کو سراہتی ہے۔(2)فورم نے گزشتہ 20 دن کے دوران جبکہ ان کو AID TO CIVIL POWER کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اب تک حساس علاقوں کی پٹرولنگ اور ریاستی عمارتوں کی حفاظت تک محدود رکھا ہے۔ پاک فوج نے موجودہ حالات کے تناظر میں وزارت داخلہ اور سول انتظامیہ کے مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور میڈیا و ذرائع ابلاغ کی تمام بلڈنگ کو بھی مکمل تحفظ مہیا کیا ہے جو قابل تحسین ہے۔ (3)لیکن سب سے اہم موجودہ نازک لمحہ پر کسی قسم کے ممکنہ تصادم کو روکنا ہے ورنہ اگر اس کیلئے بروقت مناسب اقدامات نہ کئے گئے تو موجودہ ثالثی کی وجوہات کی بناء پر وہ نتائج برآمد نہیں کرے گی جو حالات کا تقاضا ہے۔ اس کیلئے کسی ایسے ثالث کی ضرورت ہے جو مصالحت اور مفاہمت کے طے شدہ اقدامات کو ہر مرحلہ پر اپنے اثر و رسوخ کے باعث IMPLEMENT کرنے یعنی نتیجہ خیز بنانے کی عملی صلاحیت رکھتا ہو۔ (4) ماضی کے بعض بحرانوں اور لانگ مارچز و دیگر دھرنوں اور الٹی میٹم وغیرہ کے موقع پر ایک تیسری قوت نے نازک موقعوں پر ایسے بحران حل کرنے میں اپنی صلاحیتوں اور متحارک فریقین کا اعتماد رکھنے کے باعث کامیابی کا مظاہرہ کیا ہے اس پر فوری غور کی ضرورت ہے۔(5)اس موقع پر جبکہ پاکستان حالت جنگ میں ہے اور شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب تیزی سے کامیابی سے ہمکنار ہو کر اپنے آخری مراحل سے گزر رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مشرقی سرحد و لائن آف کنٹرول پر بھی بھارتی فوج اپنی اشتعال انگیزیوں سے باز نہیں آ رہی‘ حکومت اور پوری قوم کا فرض اولین ہے کہ وہ افواج پاکستان سے مکمل تعاون کرتے ہوئے خانہ جنگی یا امن و امان میں خلل اندازی کے مکمل خاتمہ کیلئے پوری قوم افواج پاکستان کو اپنی غیر مشروط ٹوٹل تعاون کا یقین دلائے۔ (6)اگر مندرجہ بالا قومی یکجہتی کا فوری مظاہرہ ایمان اتحاد اور تنظیم کی صورت میں پاکستان کے اندر اور پوری دنیا کو یقین دلانا لازم اور ناگزیر ہے تو موجودہ بحران کو حل کرنے کیلئے بھی شاید اس وقت آئین کے اندر رہتے ہوئے اور اسلام آباد میں AID TO CIVIL POWER کے موجودہ نفاذ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ثالثی کے فریضہ کی بھی پیش کش کی جائے تو فورم کی رائے میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔(7)اگر ایسا ہو جائے تو انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی بھی منصفانہ تحقیقات ممکن ہو سکتی ہے۔ (8)اس کے ساتھ ہی ساتھ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے بارے میں بھی خوشگوار ماحول میں تمام رکاوٹیں دور کی جا سکتی ہیں۔(9)ایسی صورت میں الیکشن سسٹم میں مطلوبہ ریفارمز خود بخود عمل میں آنا مشکل نہ ہو گا۔ (10)سب سے بڑا دوررس اس ثالثی کا فائدہ یہ ہو گا کہ ایک تیر سے دو بڑے مقاصد ہماری توقع سے بہت پہلے حاصل ہو جائیں گے۔ اول -پاکستان کی نیو کلیئر طاقت پورے آب و تاب سے نہ صرف اس خطہ بلکہ عالمی سطح پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وقار اور عزت کے مقام میں بلند رتبہ پائے گا اور دوئم -ہمارا ملک اقتصادی اور مالی سطح پر کشکول کو توڑ کر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائے گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024