ایک زمانہ تھا جب پاکستان کی فلم انڈسٹری کا چہرہ سرخ و سفید تھا۔ یہ دریائوں‘ ندی نالوں‘ کھالوں کے کنارے ناچتی گاتی اور باغوں اور صحت افزا مقامات کی سیروسیاحت کرتی تھی۔اس بے چاری ہنستی مسکراتی اور ٹھمکے لگاتی انڈسٹری کو نجانے کس فلم بین کی نظر لگ گئی کہ آج کل وینٹی لیٹر پر ہے۔ نئی فلم ریلیز ہونے سے مہینوں قبل اسکے ایکٹروں‘ ڈائریکٹروں‘ نغمہ نگاروں اور مکالمہ نگاروں کا تذکرہ زبان زدعام و خاص ہوتا تھا۔ آنے والی فلموں کے پوسٹرز بھی کھمبوں اور اہم جگہوں پر آنکھوں کو روشن کرنے کا سامان مہیا کرتے تھے۔ سینمائوں میں ان فلموں کے ٹریلر بھی دکھائے جاتے تھے۔ ریڈیو کے ذریعے بھی فلم بینوں کو نئی فلموں کے بارے میں آگاہ کیا جاتا تھا۔۔گزشتہ ایک ڈیڑھ ہفتے سے جو ہماری انقلابی فلم ٹی وی سکرینوں پر جلوہ گر ہوتی ہے کہ اس فلم میں لوڈشیڈنگ کا وقفہ ہیرا رانجھا فلم میں کیدو کے کردار کی طرح لگتا ہے۔ اس فلم میں موبائل کنٹینرز پر انقلابی ہیرو جب وطن عزیز میں ہونے والی دو نمبریوں یا سو نمبریوں کو اپنے الفاظ کا جامہ مکالمات کی شکل میں پہناتے ہیں تو بندے کے پورے جسم میں بجلی سی دوڑ جاتی ہے اور اتنی طاقت اور قوت آجاتی ہے کہ بندہ طوفانوں سے ٹکرانے کا تہیہ دل ہی دل میں کر لیتا ہے۔ ہمارے محترم ہیرو جناب طاہرالقادری کی قادر الکلامی پر تو کسی کوکوئی کلام نہیں۔ جب انہوں نے سابق شیر پنجاب غلام مصطفی کھر کی حکمرانی کی تعریف کرتے ہوئے نتھ ڈالنے کا تذکرہ کیا تو انہوں نے پنجابی زبان کا سہارا لیا۔ ’’اسیں نتھ پا دیاں گے‘ سانوں نتھ پانی آندی اے‘‘ تو ان کے اس ڈدائیلاگ کے جلسے میں بیٹھے اور گھروں میں ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھے لوگوں کو اتنا ہی مزہ دیا جتنا پنجابی فلموں میں سطان راہی کے مکالمے دیا کرتے تھے۔ پاکستان کی غریب عوام کو ان مکالمات کا مزہ اس لئے آرہا ہے کہ انہوں نے سڑسٹھ برسوں میں ظلم و ظلم اور ناانصافیاںہی ناانصافیاں دیکھی ہیں۔گزشتہ پندرہ سولہ برسوں سے تو پاکستانی عوام دہشت گردی‘ لوڈشیڈنگ‘ مہنگائی‘ بیروزگاری اور بیرونی قرضوں کے عذابِ مسلسل میں مبتلا ہے۔ اب پاکستانیوں کو ان پر ہونیوالے عذابوں اور مظالم کی داستان ڈائیلاگ کی صورت میں سناتا ہے تو انکا کتھارس ہوتا ہے۔ جب عمران خان پاکستان کی پولیس کی آنکھوں میں آنکھیںڈال کر کہتا ہے کہ او پولیس والو! تم نہتے عوام پر گولی مت چلانا‘ نہیں تو میں تمہیں خود سزا دوں گا۔ تو عوام خود کو محفوظ سمجھنے لگتی ہے۔ ہمارے ہاں ڈاکوئوں اور قاتلوں کا خوف تو لوگوں کے سروں پر مسلط ہے‘ مظلوم لوگ اب تھانوں میں رپورٹ درج کرانے بھی نہیں جاتے کہ پولیس سے خوف آتا ہے۔ پولیس والا کہیں کھڑا نظر آجائے تو اس سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ اسکی کالی قمیض اور خاکی پتلون کو دیکھتے ہی پولیس کے کارنامے خوف کی صورت میں ذہن میںگھونے لگتے ہیں۔ پولیس والوں سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم جب کسی مجرم پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو حکمران جماعتوں کے ایم پی اے اور ایم این اے کے پائوں ان پر آجاتے ہیں۔ اگر پولیس کا قبلہ درست ہوتا اور اس کا قبلہ حکومتی ارکان نہ ہوتے تو عمران خان اور طاہرالقادری صاحبان اتنے لائو لشکر سمیت اسلام آباد نہیں جا سکتے تھے۔ اگرسانحہ ماڈل ٹائون نہ ہوتا تو شاید حالات میں اتنی تلخی نہ آتی۔ پیپلزپارٹی کی قیادت جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپ رہی ہے۔ ہمارے ہاں تو لوگ مارشل لاء کی جمہوریت کو بھی پسند کرتے ہیں۔ جس طرح بسوں اور ویگنوں کی سیٹیں بھر جاتی ہیں‘ اسی طرح اسمبلیوں کی سیٹیں بھی بھر جاتی ہیں۔ جمہور کو جمہور کس نے سمجھا ہے۔ عوامی مسائل اگر پیپلزپارٹی پچھلے پانچ سال میں حل کر دیتی‘ اگر اس وقت کنٹینر لگا کر کراچی کی ٹارگٹ کلنگ کو روک لیا جاتا تو آج عوام کہتے کہ زرداری صاحب نے قاتلوں کو نتھ ڈالی تھی۔ پلسیوں‘ پٹواریوں اور سٹریٹ کرائم کرنیوالوں کو نتھ ڈالنا نواز لیگ کیلئے کتنا عرصہ درکار تھا۔ کیا نتھیں تیار کرنے کیلئے انہیں کوئی نتھو لال ہی میسر نہ آیا۔ میاں صاحب! اب بھی عوام کی سہولتوں کیلئے کوئی بڑا اعلان کر دیں۔ لوگوں کے دلوں میں آپ کیلئے احترام موجود ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024