آج مجھے بچپن میں سنا ہوا لطیفہ یاد آ رہا ہے کہ ایک ہاتھی اور چوہے کی آپس میں دوستی اور بے تکلفی ہو گئی تو ایک دن چوہے نے ہاتھی سے پوچھا ۔تمہاری عمر کیا ہے۔ ہاتھی نے جواب دیا 2سال۔ پھر ہاتھ نے چوہے سے پوچھا۔ تمہاری عمر کیا ہے تو چوہے نے جواب دیا۔ عمر تو میری بھی 2سال ہے مگر میں بچپن میں ذرا بیمار شماررہا ہوں۔گذشتہ روز صحافی حامد میر پر کراچی میں ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ زخمی بھی ہوئے۔ یہ خبر دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کے درمیان جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ میں حامد میر اور اس کے برادران عامر میر اور فیصل میر کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ ہماری بیشتر شامیں بشیر ریاض صاحب کے ہاں گپ شپ میں گزری ہیں۔ اپنے اسی جارحانہ رویہ کی وجہ سے حامد میر کی عامر میر اور فیصل میر سے کبھی بھی ذہنی ہم آہنگی نہیں بنی اور سالوں تک ان کی آپس میں بول چال بھی بند رہتی ہے۔ فیصل میر (گذشتہ الیکشن میںموصوف پی پی پی کے صوبائی امیدوار تھے اور چند سو ووٹ لے کر ضمانت ضبط کروا بیٹھے ) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میر برادران کی لاہور میں کیا عزت و توقیر ہے ۔
71ء کی جنگ اور پھر سانحہ مشرقی پاکستان میں جناب وارث میر کے طرزِ صحافت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مجیب الرحمن خاندان کے ساتھ ہونیوالے سانحات کے بعد حسینہ واجد جب دوسری دفعہ وزارتِ عظمیٰ سنبھال کر جب مسند اقتدار پر براجمان ہوئیں تو موصوفہ نے پاکستان سے خصوصی طور پر حامد میر کو بنگلہ دیش بلوایا اور ایک خصوصی تقریب میں مرحوم وارث میر کی بنگلہ دیش کے قیام کے سلسلے میں دی جانے والی خدمات کے صلے میں نیشنل ایوارڈ سے نوازا اور یہ ایوارڈ جناب حامد میر نے وصول کیا۔ اس کے علاوہ گذشتہ دور میں ممبئی میں ہونیوالے بم دھماکوں کے بعد فوری طور پر ایک نام ابھر کر سامنے آیا وہ تھا اجمل قصاب کا ۔
جناب حامد میر صاحب کی خصوصی کاوشوں اور اسی میڈیا گروپ جس کی جڑیں دشمنوں کی سرزمین میں پنہاں ہیں ایک من گھڑت قصہ گھڑا گیا جس کا مقصد پاک فوج اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنا اور قابو میں لانا تھا۔ بعد کی تحقیقات اور واقعات نے یہ سب کچھ ثابت بھی کر دیا کہ اس سازش کے پیچھے کن عوامل کا ہاتھ ہے جبکہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہونے والی غیر ملکی جارحیت سے ہر پاکستانی آگاہ ہے۔ حامد میر سمیت اکثر ناقدین کو بلوچستان میں ڈیرھ دو سو گمشدہ افراد کا غم تو نظر آتا ہے اور وہ اس کے لیے بے تحاشا تڑپتے بھی ہیں مگر حامد میر صاحب کو گوانتاناموبے اور جلال آباد کے ایئر بیس پر قائم کی گئی امریکی جیلوں میں بند ان گمنام مجاہدین کی تعداد کا شاید علم نہیں جو ہزاروں میں ہیں جبکہ پچھلے 30سالوں کے دوران کشمیر میں شہید کیے جانے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ، کشمیری عورتوں کی عصمتیں لٹنے کے واقعات بیس ہزار اور بھارت کے ہاتھوں گمشدہ کشمیری نوجوانوں کی تعداد 25ہزار سے کم نہیں جبکہ گزشتہ بارہ سال سے ملک کے اندر غیر ملکی تخریب کاروں اور انکے آلہ کاروں کے ہاتھوں مرنے والے سویلین کی تعداد 70ہزار جبکہ درجن بھر اعلیٰ افسران اور فوجی جرنیلوں اور جوانوں کی تعداد 8 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ جبکہ ہزاروں فوجی جوان تخریب کاری کے ان واقعات میں مستقل معذور ہو چکے ہیں۔
ان نام نہاد انسانی حقوق کا علم بلند کرنے والے ذہنی اندھوں کو چند سو گمشدہ افراد کی فکر کھائے جا رہی ہے جو یا تو کسی ڈرون حملے کا نشانہ یا کسی فضائی حملے میں لقمۂ اجل بن چکے ہیں یا اگر چند افراد کو نیشنل سکیورٹی کے نام پر روکا بھی گیا ہے تو کیا ملکی اور عالمی قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتے؟ انسانی حقوق کا پرچار کرنے والی عالمی قوتوں کے پاس قومی سلامتی کے نام پر ہزاروں افراد کو پابندِ سلاسل رکھا گیا ہے لیکن ان کی بات کرنا شاید ہماری ذمہ داری نہیں۔ کیا پاکستان کے عوام کو آئی ایس آئی کے ایک سابقہ اہلکار کرنل امام کے متعلق حامد میر کی حکیم اللہ محسود سے وہ گفتگو جو آج بھی سوشل میڈیا پر موجود نہیںاور پھر طالبان کا پاکستانی میڈیا کے کچھ کنگ میکر صحافیوں سے روابط اب کوئی پوشیدہ بات نہیں رہی۔ پاکستان کے سینکڑوں جرنلسٹ جو کچھ عرصہ پہلے تک مڈل کلاس طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آج کروڑوں اور ارب پتیوں کی لسٹ میں شامل ہیں۔ سیاست دانوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، عدلیہ، وکلا اور اسٹیبلشمنٹ کا بے رحمانہ احتساب مانگنے والے کیا کبھی خود کو بھی قوم کے سامنے احتساب کے لیے پیش کریں گے؟ جناب حامد میر پر قاتلانہ حملہ کسی بھی طریقے سے جسٹیفائیڈ نہیں کیا جا سکتا یہ ایک ایسا اقدام تھا جس نے بھی کیا وہ انتہائی قابلِ مذمت ہے مگر حامد میر صاحب پر ہونے والے حملے کے صرف چند منٹ بعد ہی تحفظ پاکستان کی ضامن آئی آیس آئی پر عامر میر اور مخصوص میڈیا گروپ کی طرف سے لگانے جانے والے الزامات اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بطورِ ملزم اپنے چینل کی سکرین پر دکھانا اور ایک لامحدود اینٹی آرمی کیمپئن شروع کرنا نہ صرف غداری کے زمرے میں آتا ہے بلکہ ان لمحات میں متعلقہ ٹی وی چینل دیکھ کر یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ پاکستانی نیوز چینل نہیں بلکہ بھارت کا دور درشن ٹی وی پروگرام لگا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال سینکڑوں صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے دوران زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں پاکستان کے موجودہ معروضی حالات میں ایسے اندوہناک واقعات کا رونما ہونا بعیدالقیاس نہیں کیونکہ ابھی تک ایسی کوئی آنکھ والی گولی یا بم ایجاد نہیں ہوا جو یہ تمیز کر سکے کہ مدمقابل معصوم ہے یا ظالم لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ چند ٹکوں کی خاطر اپنے ازلی دشمنوں کا آلہ کار بن کر ملکی سالمیت کو دائو پر لگانے کا موجب بنیں۔
جس گھر میں رہتے ہوں اس کے دیگر افراد سے اَن بن بھی ہو جاتی ہے، مسئلے مسائل بھی ہو جاتے ہیں خود راقم کو نامساعد حالات میں کم از کم دودفعہ پاکستان سے جلاوطنی اختیار کرنا پڑی جبکہ میری فیملی اور بچے اب بھی جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں پاک فوج اور ملکی سلامتی کی ضامن آئی ایس آئی پر دشنام طرازی کروں ۔اور میرے سمیت بیس کروڑ پاکستانی آج یہ پاک فوج سے سوال کر رہے ہیں کہ کن مصلحتوں کی وجہ سے وہ دشمنانِ اور غدارانِ پاکستان کونظرانداز کرتی چلی آ رہی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی پاکستانی فوج کا دوش ہے کہ وہ عالمی مجبوریوں اور مصلحتوں کا شکار ہو کر غداروں کے ٹولے کو قدم جمانے کے مواقعے دے رہی ہے۔یا د رکھیے اگر زخم کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو پھر سانحہ مشرقی پاکستان کی طرح بازو بھی کٹ جاتے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024