مینڈیٹ اور قتل کے دو مقدمے
مکافات عمل شروع ہو گیا، تاریخ کا پہیہ گھوم چکا، سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا ایک مقدمہ تھا۔ ایک شخص کے قتل کی ایف آئی آر تھی۔ یہاں دو دو مقدمے ہیں اور قتل کے پرچے ماڈل ٹاو¿ن لاہور اور اسلام آباد میں درج ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ جن مقتدر قوتوں نے انہیں تیرے مبینہ جعلی مینڈیٹ کی کلیرنس دی ہے۔ وہ ان کا تحفظ بھی کریں گی۔ مگر وہ پچھلی صرف تین دہائیوں کی تاریخ بھول گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی انہی قوتوں نے مینڈیٹ دیا تھا۔ جنرل ضیا ءالحق کوبھی یہی قوتیں اقتدار میں لائی تھیں، پھر نوے کی دہائی میں کس طرح دو دو بار نواز شریف اور بے نظیر کے مینڈیٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ جانے انہیں کیوں یاد نہیں رہا کہ 12اکتوبر 1999ءکو ان کا ہیوی مینڈیٹ کس طرح رسوا ہو کر ملک بدر ہوا۔پاکستان کی تاریخ میں سب کو اقتدار کی قیمت چکانا پڑی ہے۔ کوئی ایک بچا ہے تو وہ آصف زرداری تھا۔ اور وہ اس لیے بچا کہ اقدار میں ہونے کے باوجود کبھی اقتدار کی طاقت استعمال نہیں کی۔ چند آرڈینس جاری کیے اور کچھ دوست ممالک سے MOA'sپر دستخط کیے۔ اختیارات کے استعمال کی صلیب پر وزرائے اعظم کو لٹکائے رکھا۔ اور خود انہیں رسوا ہوتے دیکھتا رہا۔ یوسف رضا گیلانی کے بعد آنے والے وزیراعظم سہمے سہمے ہی رہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود، ان سارے معاملات میں اِن رہتے ہوئے بھی جانے کس عقل کے اندھے نے انہیں تیسرے مینڈیٹ کی راہ دکھادی۔ اور دونوں بھائی اس خاردار راہ پر دوڑنے لگے۔ اس بار Establishmentسچ مچ ان کا امتحان لینا چاہتی تھی۔ دیکھنا چاہتی تھی کہ جنہیں اقتدار میں آکر کمیشنوں اور انڈر ہینڈ ڈیلز کا بے پناہ تجربہ ہے وہ عوام کے مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ گذشتہ سال 11مئی کو انتخاب ہوئے۔ اقتدار سنبھالا اور 20جون کو قوم سے پہلا نشری خطاب کیا۔ باڈی لینگوئج موصوف کی بے چینی ظاہر کر رہی تھی۔ کیونکہ ٹیبل پر مسائل کی جو لسٹ تھی۔ ان میں دہشت گردی سے پیدا ہونے والی بد امنی ، افراط زر کے نتیجے میں مہنگائی کا ہنگامہ۔ انرجی کی کمیابی کے باعث لوڈ شیڈنگ ، لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے سرمایہ کاری کا انجماد، فیکٹریوں اور کارخانوں کی بندش ، لاکھوں نئے بے روزگاروں کا اضافہ، جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح، خزانے کی ابتر صورتحال اور سب سے بڑھ کر چار حلقوں میں دھاندلی کا الزام شامل تھا۔ ان میں سے ایک حلقہ خواجہ سعد رفیق اور دوسرا حلقہ ایاز صادق کا بھی تھا۔ جنہیں وہ قومی اسمبلی کا سپیکر منتخب کرا بیٹھے تھے۔ اب ری کاو¿نٹنگ میں دونوں شکست خوردہ ثابت ہو رہے ہیں۔ ایک کے 44ہزار ووٹ کم ہیں اور دوسرا 26ہزار ووٹ پیچھے ہے۔ انہی دونوں حلقوں سے انتخابی دھاندلی ثابت ہو چکی ہے۔ باقی دو حلقے بھی کم و بیش یہی نتائج رکھتے ہیں۔ ان سارے معاملات کا موصوف کے خطاب میں کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ پی ٹی آئی نے ابتداءمیں صرف چار حلقوں میں ری الیکشن کا مطالبہ کیا تھا مگر ۔ نازک اندام بھائیوں کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔ یہ مطالبہ بڑھتے بڑھتے ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ ادھر پی اے ٹی نے بھی اپنی الگ تحریک چلا دی۔ دونوں تحریکوں کے قائدین دو الگ الگ گروپوں میں اپنے ہزاروں کارکنوں کو لیکر اسلام آباد پہنچ گئے۔ لاہور میں پی اے ٹی کے کارکنوں کو روکنے کی کوشش میں گولی چلا دی گئی۔ 14کارکن جاں بحق ہو گئے۔ طاقت کا دوسرا مظاہرہ اسلام آباد میں ہوا جس میں مزید ہلاکتیں ہوئیں۔ یہاں ضرورت تھی مذاکرات کی، عمران خان اور طاہر القادری سے لاہور میں ہی مذاکرات کر لیے جاتے۔ مگر صدقے جائیے شریف برادران کے مشیروں کے جنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ گولی حاکموں کے حکم سے نہیں چلائی گئی۔ سارا نزلہ غریب سی سی پی او لاہور شفیق گجر اور ڈی آئی جی آپریشن اور چند دیگر پولیس افسران پر گرا دیا۔ مگر اب یہ تیسرا مینڈیٹ بچھو کی طرح ڈسے گا۔ انکے خلاف قتل عام کے دو مقدمات درج ہیں۔ اب انہیں بے نظیر کی سافٹ اپوزیشن کا سامنا نہیں بلکہ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے انکی ناک کے نیچے موجود ہیں۔ بڑے صاحب کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اگر عتزاز احسن کی الزامات پر مبنی تقریر کے جواب میں اگر معافی مانگنا پڑی تو کیا وہ سمجھتے ہیں انہیں معافی مل گئی۔ پارلیمنٹ ہاو¿س کے دھرنے دراصل قوم کے صبر کا امتحان ہے۔ قوم کسی خونی انقلاب کی متحمل تو نہیں ہو سکتی جس کا ذکردونوں تحریکوں کے سربراہ کر رہے ہیں۔ اس لیے بڑے بھائی کے پاس مذاکرات کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔