ڈاکٹر سید اعجاز حسین کاظمی شوگر سے آگاہی بارے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ سوشل سیکیورٹی ہسپتال گوجرانوالہ میں فری شوگر کیمپ لگایا گیا ۔کمشنر گوجرانوالہ شمائل احمد خواجہ نے افتتاح کیا‘ مہمان خصوصی کمشنر سوشل سیکیورٹی عشرت علی تھے ۔راقم الحروف فری شوگر ٹیسٹ کیلئے قطار میں کھڑا تھاکہ سسٹر عالیہ جبین نے گلاب جامن اور بریانی کا ڈبہ تھما دیا‘ اسی اثناءمیں ایم ایس اعجاز حسین کاظمی اور انچارج کیمپ ڈاکٹر طیب سرور میر میرے پاس تشریف لائے ۔گلاب جامن کا ڈبہ دیکھ کر بیک زبان بولے پرہیز علاج سے بہتر ہوتی ہے۔ انسان کے اندر ہی سنار‘ لوہار‘ درزی‘ موچی ‘ جولاہا‘ ماچھی‘ مزدور‘ کسان ‘ لینڈ لارڈ ادیب کالم نگار‘ افسانہ نویس‘ شاعر‘ نقاد وغیرہ چھپا ہوتا ہے۔ میرے اندر ایک ہی وقت میں سنار ہے اور لوہار بھی۔ میرے اندر جو سنار ہے وہ مجھے آٹھ دس سال سے چمٹی ہوئی ”سویٹ بیماری“ سے بچاﺅ کیلئے پرہیز کی ہتھوڑی سے انسدادی کارروائی عمل میں لاتا رہتا ہے۔ ”شوگر“ ایسا مرض ہے اسکو قابو میں رکھنے کیلئے محض انسدادی کارروائی ہی کارگر ہوتی ہے اندر کا سنار پرہیز کی ہتھوڑی سے بحالی صحت کیلئے برسرپیکار رہتا ہے اچانک اندر کا لوہار بدپرہیزی کا ہتھوڑا چلا دیتا ہے اور ایک ہی وار سے سنار کی سو بار چلائی گئی ہتھوڑی کا ستیاناس کر دیتا ہے۔ گوجرانوالہ کی جان پہچان جان کاشمیری اور میجر محمد شہزاد نیئر کے ساتھ ایک خوبصورت بنگلہ کے یخ بستہ کمرہ میں موجود ہوں اور ”لاٹھی چارج“ ماحول کا اثر لیتے ہوئے فلسفے بگارنے میں لگ گیا ہے ۔ شوگر جیسی باوفا بیماری کے بارے عرض کرنے کا خیال ہے سوگزارش یہ ہے اسے اسکی اوقات میں رکھنے کیلئے کم کھاﺅ اور زیادہ چلو والا مقولا کامیاب نسخہ ہے۔ ٹینشن کو قریب بھٹکنے نہ دیں ورنہ شوگر آپ کو ناکارہ بنا دیگی۔ سیر ضرور کیجئے۔ سیر کیلئے خراماں خراماں چلنا سود مند ہرگز نہیں اور نہ ہی مٹر گشت اس کیلئے جاگنگ ٹائپ سیر ناگزیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے پاس بلانے کا خاطر خواجہ بندوبست کر رکھا ہے جوں جوں انسان کی عمر بھڑتی ہے توں توں مختلف بیماریاں بھی ویلکم کرنے کیلئے سر اٹھاتی ہیں ۔ ہم سالگرہ مناتے ہوئے یہ سوچتے ہی نہیں کہ عمر کم ہو رہی ہے۔ اس بار گیارہ جولائی کو حبس آلود موسم میں اپنے بیٹے میثم عباس جعفری کی سالگرہ بھی بھول گیا۔ یہ بھول جانا بھی ایک بیماری کی ذیلی شاخ ہے عمر زیادہ ہونے کے ساتھ حافظہ بھی جواب دے دیتا ہے۔ بات شوگر کی ہو رہی تھی۔ اس موذی مرض پر کینیڈا کے دو ڈاکٹروں نے تحقیق کی یہ شوگر پر پہلی تحقیق تھی۔ 1922 ءمیں ذیابیطس پر تفتیش اور تحقیق کتوں پر کی گئی۔ اربوں ڈالر استعمال کرنے کے باوجود اس مرض کو لاعلاج قرار دے دیا گیا ہے۔ ہاں اسے کنٹرول رکھا جا سکتا ہے جبکہ یہاں ایسے ایسے”نابغہ روزگار“ معالج موجود ہیں جو چند دنوں میں شوگر کے کامیاب علاج کی گارنٹی دیتے ہیں ایسے بھی موجود ہیں جو چینی دم کر کے دیتے ہیں۔ معزز قارئین کی خدمت میں عرض ہے اس عارضہ میں مبتلا مرد و زن بھنڈی‘ پھول یا بند گوبھی‘ پالک یا ہرے پتے والی سبزیاں ‘ ہری مرچ‘ توری‘ سلاد‘ کریلا‘ لیموں‘ مولی‘ پیاز‘ بینگن‘ کھیرا‘ ککڑی‘ انڈے کی سفیدی اور شلجم استعمال کر سکتے ہیں جبکہ شکر‘ گڑ‘ شہد‘ مٹھائی ‘ جام ‘ جلیبی‘ کسٹرڈ‘ کیک‘ پیسٹری‘ چاکلیٹ‘ پھلوں کے رس‘ انجیر‘ کشمش‘ میٹھا دودھ‘ آئس کریم اور کولڈ ڈرنگ انتہائی مضر ہیں.... مگر اتنی پرہیز کرے کون؟ گلاب جامن اور مرنڈا روبرو ہوں تو علاج سے پرہیز بہتر والی بات الٹ ہو جاتی ہے۔ جی ہاں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024