علاقائی ہیلتھ کانفرنس....تاریخی کامیابی
وفاقی وزارت ِ صحت کے زیر اہتمام عالمی ادارہ ءصحت ورلڈ ھیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی64ویں علاقائی کانفرنس کی پاکستان میں انعقاد کی خبریں ٹی وی اخبارات میں دیکھ کر ہمیں دو طرح سے خوشی و اطمنان حاصل ہوا ۔ایک یہ کہ ملک میں دہشتگردی کے خاتمے کے بعد امن بحال ہونے پر پوری دینا کے لوگوں کا رخ پاکستان کی جانب دوبارہ سے مُڑ چکا ہے تو دوسرا یہ کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ملک دشمن کوشیشیں بھی مکمل طور پر دم توڑ چکی ہیں۔پندرہ ممالک کے ھیلتھ منسڑوں اوربائیس ممالک کے ھیلتھ نمائندوںکے علاوہ 250ماہرین صحت کا بیک وقت پاکستا ن آکر اس کانفرنس میں شرکت کرناپاکستان کی اہم تاریخی کامیابی ہے جس سے نہ صرف مشرقی بحیرہ روم خطے کے ممالک کے عوام مستفید ہونگے بلکہ صحت کے حوالے سے ملکی مسائل کے حل میں بھی بڑی حدتک مدد ملنے کے امکانات روشن ہو گئے ہیںجن سے فائدہ اٹھانا اب وزارت صحت کا کام ہے . افتتاحی سیشن سے صدر مملکت ممنون حسین نے خطا ب کرتے ہوئے بین القوامی برادری خصوصاً علاقائی ممالک پر زور دیا کہ وہ صحت سے متعلق مختلف چیلنجزسے مقابلہ کرنے کے لئے آپس کا تعاون مربوط بنائیں اور سیاسی معاملات کو ایک طرف رکھ کر صحت کے مسائل کے حل کےلئے جامع حکمت عملی وضع کریںتا کہ متعدی بیماریوں کے پھیلاو¿ اور دیگر صحت کے خطرات پر قابو پایا جا سکے۔مشرقی بحیرہ روم کےلئے ڈبلیوایچ او کے ریجنل ڈائریکٹر ڈاکڑ محمود فکری نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا جنہوں نے اپنی تقریر میں صحت کو ترقی کا محور بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صحت کے حوالے سے انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنا نا وقت کی اہم ضرورت جبکہ صحت میں سرمایہ کاری کرنا بھی سب سے بہتر خدمت ہے مگر جو نہ ہونے کے برابر ہے مگر اس کا فائدہ سب سے زیادہ ہے۔وفاقی وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ نے بھی اس حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطا ب کرتے ہوئے صحت میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت پر زوردیا ۔ان کا کہنا تھاکہ انسانی سرمایہ میں سرمایہ کاری کرتے وقت جب بھی ہم زرائع کی تخصیص کریں تو صحت کو ترجیج دینی چاہیے۔یہ عالمی اور مقامی علم کی دولت ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں عوامی سطح پر صحت کی خدمات کی رسائی کے چیلنج کا سامنا ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ جدت طرازی سے صحت کی مساوی خدمات کو یقینی بنایا جائے64 علاقائی ھیلتھ کانفرنس کے پاکستان میں پہلی بار انعقاد کے پس منظر میں دیکھا جائے تو اس کا یہ انعقاد پاکستان کی عاملی شعبہ ءصحت میں بڑھتی ہوئی اہمیت کا آئینہ دار ہے اور وہ اسطرح سے کہ رواں سال جون میں پاکستان کوورلڈ ھیلتھ آرگنائزیشن کے چیئرمین ایگزیکٹیو بورڈ کے اعلیٰ ترین عہدے پر منتخب کیاگیا،اس کے علاوہ ورلڈ ھیلتھ اسمبلی جوبھی رواں سال جون میں منعقد ہوئی تھی میں بیماریوں کی بین السرحدی روک تھام کے حوالے سے پاکستان کی حکمت عملی نہ صرف کامیاب قرا ر دی گئی تھی بلکہ دیگر ممالک کو اس سلسلے میں پاکستان سے تکنیکی معاونت بھی حاصل کرنے کی سفارش کی گئی ۔یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ اسی سال عالمی ادارہ برائے حفاظتی ٹیکہ جات کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں پاکستان میں حفاظتی ٹیکہ جات کے ترسیل کے نظام اور بہتر کوریج کوریج کو نہ صڑف سراہا گیا بلکہ اس سلسلے میں دیگر ممالک کو پاکستا ن کے حفاظتی ٹیکہ جات کے نظام کو ”رول ماڈل “ بنانے کا مشورہ بھی دیا گیا۔پاکستان میں نہ صرف پولیوکے خاتمے کی پیش رفت پر اطمنان ظاہر کیا گیا بلکہ کینسر پر قابو پانے اور اس بیماری کی روک تھام کےلئے علاقائی دائرہ کار کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس سمت میں مزید آگے بڑھنے پر اتفاق کیا گیا۔پولیو کے خاتمے ،صحت اور ماحول کی ابتری اور ویکسنیشن پلان پر بھی جامع رپورٹس پیش کی گئیںجن میں پاکستان میں قومی صحت کے وژن برائے پائیدار ترقی کے اہداف کو علاقائی صحت وژن کے عین مطابق قرار دیا گیا۔یہاں یہ وضاحت کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ تمام تر معاملات کیس اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے چار سالوں کی وفاقی وزارت صحت کی انتھک محنت اور مثالی قیادت کا اہم کردار ہے اوراس کانفرنس میں پاکستان کو صحت کے حوالے سے علاقائی طور پر ”رول ماڈل “ قرار دیاجاناوزارت صحت کی اسی محنت کا نتیجہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صحت کے حوالے سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے جہاں علاقائی ممالک پر مثبت اثرات مرتب ہونگے وہاں پاکستان میں بھی صحت کی سکیموںکو پہلے سے زیادہ بہتر بنانے میں مدد ملے گی تو ضرور مگرپاکستان کے موجودہ صحت نظام پر نظر دوڑائی جائے تو اس وقت صورتحا ل حوصلہ افزاءقرار نہیں دی جاسکتی۔دیہی مراکز صحت کا زکر کرنا تو دُور کی بات شہر ی علاقوں میں بھی صورتحال افسوس ناک دکھائی دیتی ہے ۔سرکاری ہسپتالوں دیہی مراکز سمیت کہیں بھی طبی سہولتیں صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں ،ایمرجنسی شعبہ کی حالت نہ ہی پوچھی جائے تو بہتر ہے
،یہاںبروقت کوئی کوالیفائیڈ ڈاکڑ تک میسر نہیں ہوتا اورتمام نظام ای پی آئی ٹیکنیشن ہی چلا رہے ہوتے ہیں۔ایسے میں کوئی جاں بلب مریض وہاں آجائے تو اس کی کیا حالت ہو گی اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔دوسرا یہ بھی کہ شہری علاقوں میں ایسے غیر رجسٹرڈ نجی ہسپتال قائم ہیں جن میں گردوں کی ٹرانسپلاٹیشن تک کی جارہی ہے بڑی بے خوفی سے کام کررہے ہیںاور محکمہ صحت دانستہ ان سے چشم پوشی کر رہاہے،یہ ہسپتال راوپنڈی کے علاوہ اسلام آباد کے مضافاتی علاقوں میں با آسانی دیکھے جا سکتے ہیں جہاں شب و روز عطائی ڈاکٹروں کا بلا خوف و خطر انسانی جانوں سے کھیلنا معمول بن چکا ہے ۔ہمیں امید ہے کہ وفاقی وزارت صحت اس جانب نہ صرف پوری توجہ دے گی بلکہ شکایات کے ازالہ کےلئے جامع اور مربوط پالیسی بھی تشکیل دے گی۔
تاکہ اس قسم کی صورتحال کا خاتمہ ہمیشہ کےلئے ممکن بنایا جاسکے جو کسی بھی عوامی حکومت کی بدنامی کا باعث بنتا چلا آیاہے ۔ یہ امید ہمیں اس لئے ہے کہ متذکرہ علاقائی صحت کانفرنس ایک ایسی حکومت کے دور میں منعقد ہوئی ہے جس کے چار سال ملکی تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ عوامی خدمت کے فلسفے کو عملی جامہ پہنانے میں گزرے ، اس حکومت نے جہاں دم توڑتی معیشت کو سہارا دے کر اپنے پاو¿ں پر کھڑ اکیا ،ملکی میں بیرونی سرمایہ کاری کے بند دروازے کھولے ،غیر اور متوسط طبقے کےلئے باعزت سفری سہولتوں کا میڑو بس ،ارونج لائن ٹرین کی شکل میں ا ہتمام کیا ،تواب یہی حکومت ہی غریب عوام کو بہترین طبی سہولتوں کی فراہمی بھی یقینی بنانے کےلئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرے گی کہ عوامی خدمت اس کا انتخابی منشور بھی ہے اور پارٹی لائن بھی ۔