جب نواز شریف نے جنرل جاوید قمر باجوہ کو پاکستان کی مسلح افواج کا سربراہ بنایا تو اگلے ہی روز ان کے دیرینہ اتحادی سینیٹر ساجد میر جو انہی کی برادری اور قبلہ کے ہیں۔ انہوں نے جنرل صاحب کے عقیدہ پر ایک بلاجواز اعتراض اٹھایا۔ جس پر اس خاکسار نے ” ایک سازش“ کے عنوان کے تحت فوری طور پر کالم لکھ کر قوم کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا ،خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے چند دن بعد اپنے بیان سے رجوع کر لیا۔ اب کیپٹن صفدر پھر سے یہ گھڑے مردے اکھاڑ رہے ہیں۔ جس سے اداروں کے اندر بے اطمینانی کا اندیشہ خارج از مکان نہیں۔ اگرچہ اس موقع پر سینیٹر ساجد میر نے دوبارہ وضاحت کرتے ہوئے اپنے سابقہ نقطہ نظر کو درست قرار دیا ہے۔ کہ جنرل صاحب راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ لیکن کیپٹن صفدر کو نواز شریف کے اہل ہونے کی بناءپر کسی طور چین نہیں آ رہا۔ جنرل باوجوہ کی تعیناتی پر لکھا گیا کالم دوبارہ حاضر خدمت ہے۔ تاکہ قارئین کے ذہن میں کچھ باتیں تازہ ہو سکیں۔
یہ 1970ءکی بات ہے ملک میں پہلی مرتبہ ” ایک فرد ایک ووٹ “ کی بنیاد پر پہلے انتخابات ہونا قرار پائے۔ یہ وہی انتخابات ہیں جس کے نتیجے میں جمہوریت بھی ہاری اور مشرقی پاکستان بھی الگ ہوا۔ ملک کی اہم سیاسی جماعتوں میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کے علاوہ صرف مسلم لیگ یا پھر جماعت اسلامی شامل تھیںجبکہ مغربی پاکستان سے پاکستان پیپلزپارٹی، نیشنل عوامی پارٹی، پاکستان مسلم لیگ، جماعت اسلامی ، جمعیت علماءپاکستان اور جمعیت علماءاسلام شامل تھیں۔ اصغر خاں ایک بڑے سیاسی راہنما ضرور تھے مگر ابھی تحریک استقلال وجود میں نہ آئی تھی یا شائد ابتدائی ایام میں تھی۔ کیونکہ سوائے اصغر خاں کے تحریک استقلال کے پلیٹ فارم سے دیگر کوئی امیدوار میدان میں نہیں تھا۔ راولپنڈی کے شہری حلقے سے ان کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی کے خورشید حسن میر اور جماعت اسلامی کے مولانا فتح محمد قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ جماعت اسلامی نے کبھی بھی نہ تو عوامی لیگ کو اپنا اصل مد مقابل جانا اور نہ پیپلزپارٹی کو۔ عوامی لیگ ان کے نزدیک کچھ ”وجوہات“ کی بناءپر ایک ترنوالہ تھی اور پیپلزپارٹی بھی غیر سنجیدہ اور غیراہم جماعت تھی۔ اس حلقے میں بھی جماعت نے خورشید حسن میر کو سیاسی طور پر ”ایویں“ ہی سمجھا اور اپنی انتخابی مہم، تحرو تقریر اور نعروں کا رخ اصغر خاں کے خلاف موڑ دیا۔ پیپلزپارٹی اپنے نعرے ”روٹی کپڑا اور مکان“ پر انتخاب لڑتی رہی تو جماعت اسلامی نے حسب معمول خلفائے راشدین کا دور واپس لانے کا روائتی اور مسحور کن ہتھیار استعمال کیا۔ مذہبی انداز میں انتخابی مہم چلاتے چلاتے وہ”ختم نبوت“ کے مسئلہ کو بھی سامنے لے آئے۔ چونکہ وہ اپنا مقابلہ اصغر خاں سے سمجھتے تھے اس لئے فوری طور پر اصغر خاں کو قادیانی قرار دے دیا۔ حالانکہ خورشید حسن میر کے خلاف یہ پروپیگنڈہ زیادہ آسان تھا۔ کیونکہ ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو کو اکثر علماءنے کافر قرار دے دیا ہوا تھا اور کچھ پیپلزپارٹی والے بھی مولویوں کے معاملے میں ”دمادم قلندر “ کرتے رہتے تھے۔ لیکن اصغر خاں کو اصل حریف جان کر ان کے خلاف قادیانی ہونے کا فتوی دے دیا گیا۔ وقت نے زیادہ سفر نہیں کاٹا تھا کہ چند ہی ہفتوں بعد جب یہ فتوی پٹ گیا تو اس میں ترمیم کر دی گئی اور کہا کہ اصغر خاں نہیں ان کی بیگم قادیانی ہیں۔ بد قسمتی سے یہ بھی ہمارے علماءکے ایک ناخواندہ گروہ کا جن کے کچھ سیاسی مقاصد ہوتے ہیں ایک حربہ رہا ہے۔ اب کون سسرال تک جا کر چھان پھٹک کرے کہ وہ کس مسلک یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں جماعت اسلامی کے اس گروہ کو اس وقت چاروں شانے چت ہونا پڑا جب یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ اصغر خاں کی بیگم اور مولانا مودودی کی بیگم صاحبہ تو آپس میں خالہ زاد ہیں۔ عقیدے کی بناءپر لگائی جانے والی یہ انتخابی آگ تو بجھ گئی مگر اس پر مولانا فتح محمد نے کبھی معذرت نہیں کی۔ پیپلزپارٹی کے خورشید حسن میر کی فتح نے مولانا فتح محمد کی اخلاقی ساکھ کو خراب کیا اور جس مقصد کیلئے اصغر خاں کے خلاف یہ سارا گند اچھالا گیا وہ بھی کسی کام نہ آیا۔ انتخابات ہوئے عوامی لیگ نے 181 نشستیں جیتیں اور پیپلزپارٹی نے 82 نشستیں۔ اقتدار عوامی لیگ کو کیوں نہ منتقل کیا گیا اس پر بہت کچھ لکھا گیا اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔ فی الوقت یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اب ایک نیا پاکستان تھا جس کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے پیپلزپارٹی حکمران جماعت اور خورشید حسن میر وزیر بنے۔ وقت گزرتا رہا لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی۔ مشرقی پاکستان بطور ایک الگ ملک ”بنگلہ دیش“ کے منظور ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اور بھی بہت سے کام تیز رفتاری سے کئے۔ 1971ءکے جنگی قیدی رہا کروائے اور مغربی پاکستان کا چالیس ہزار کلومیٹر رقبہ اندرا گاندھی سے مذکرات کے ذریعے واپس لیا۔ جیسے تیسے ملک ایک ڈگر پر چل پڑا۔ انہیں کے دور میں 1974ءمیں ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج کے طلباءاور مقامی آبادی میں اس وقت تصادم ہوگیا جب ٹرین ملتان سے راولپنڈی جاتے ہوئے ”ربوہ“ رکی اور طلباءکو زد وکوب کرنے کی خبریں یکلخت پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل گئیں جس نے پورے پاکستان کو اپنی لپٹ میں لے لیا اور پھر شہر شہر قریہ قریہ کوچہ کوچہ گلی گلی لوگ ختم نبوت کے دیوانے بن کر نکل آئے۔ خوش قسمتی سے تمام مکاتب فکر کے علماءیکسو ہوگئے۔ ایسی تحریک چلی کہ کوئی بھی اسے روک نہیں سکتا تھا۔ بے شمار لوگ گرفتار کئے گئے مگر اب لوگوں نے طے کر لیا تھا کہ زندگی یا تحفظ ختم نبوت تیسرا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ تحریک چلتی رہی تشدد جاری رہا گرفتاریاں ہوتی رہیں ذوالفقار علی بھٹو بھی کوئی فیصلہ نہیں کر پائے تھے کہ کیا عوام کے مطالبے پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے یا نہیں۔ اسی اثنا میں انہوں نے یوں تو قادیانی راہنماﺅں کے علاوہ علماءسے بھی مشاورت کی مگر قائل وہ صرف آغا شورش کے دلائل سے ہوئے دراصل دیگر علماءقادیانیت کا مذہبی پہلو پیش کرتے مگر آغا صاحب نے جب اس کا سیاسی پہلو بھی بیان کیا کہ یہ فتنہ نہ صرف پاکستان بلکہ خود ذوالفقار علی بھٹو کیلئے تباہ کن ہے تو بھٹو نے طے کر لیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ۔ ایک جلسہ عام میں آغا شورش نے کہا کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تو میں زندگی بھر اس کی مخالفت نہیں کروں گا اور وقت اس بات کا گواہ ہے کہ آغا صاحب نے ہمیشہ اپنے اس عہد کا پاس رکھا۔ میں اس وقت ڈسٹرکٹ جیل (اب سنٹرل) گوجرانوالہ میں ختم نبوت کا اولین قیدی ہونے کی بناءپر تین ماہ سے پابند سلاسل تھا جب اطلاع ملی کہ 7 ستمبر کو قومی اسبملی کا اجلاس ہوگا۔ جو قادیانیوں کے مستقبل کا تعین کرے گا۔ اس اجلاس نے قادیانیوں کوغیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرار داد منظور کی اور یوں 7 ستمبر 1974 کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس کا باقاعد ہ اعلان کرکے یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے ختم کردیا ذرا ٹھہرئیے مسئلہ آئینی طور پر تو حل ہوگیا مگر اس کا غلط استعمال ابھی بھی ختم نہیں ہوا تھا۔ کبھی سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور وٹو اس کی زد میں آئے اور پرویز رشید کے بارے میں بھی یہی کچھ سننے کو ملا (واللہ اعلم باالصواب )
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024