حضرت علیؓ کا قول مبارک ہے کہ علم ایک نکتہ ہے جسے جاہلوں نے پھیلا دیا ہے۔ اس سے مراد ہے کہ بات کو کسی مرکز پر سمیٹنے کی بجائے طوالت دینا اور بلا مقصد بات کو طول دینا ہے۔ قرآن مجید میں سورہ¿ شعراءکی آیت نمبر 22 میں بنی اسرائیل کو فرعون کی حکومت و جبروت سے آزادی کا ذکر ہے اور آیت نمبر24 میں اللہ کی توحید و ربوبیت مذکور ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی ازحکم خدا فرعون سے مبارزت صرف اور صرف اقرار توحید اور آزادی انسان کے لئے تھی۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کی بنی اسرائیل کے حکمرانوں، مذہبی پیشواو¿ں اور بددیانت افسران حکومت کے خلاف تھی جس کا انجیل مقدس میں ذکر ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں بھی شرکوں، ظالموں اور سرمایہ داروں کے خلاف کھلا پیغام عبرت ہے۔گویا ان تینوں ابراہیمی سلسلہ کے مذاہب کی تعلیمات کا بنیادی نکتہ توحید، انسانیت اور مساوات ہے۔ اس کے علاوہ جتنے مذاکرات، مناتشات، معاملات ، نظریات ، مجادلات ، مباہلات اور تفصیلات ہیں وہ بقول حضرت علیؓ حقیقت سے انحراف اور مقصد الٰہی کے خلاف ہیں۔ مسلمانوں میں قرآن مجید کے انقلابی، انسانی، فطری ، سیاسی، اقتصادی، عائلی، قانونی اور آفاقی پیغام کی طرف کوئی توجہ نہیں یہ لوگ صدیوں سے ملوکیت و ملائیت کا شکار ہیں اور اسلام حقیقی سے دور ہیں یہ رجعت پرست اور تنگ نظر ملاو¿ں کی زد میں ہیں۔ مسلمانوں کے فرقے نفاق و انتشار، نفرت و عداوت اور کشت و کشتار کا شکار ہیں۔ہر کلمہ گو مسلمان باعث توقیر ہے جیسے کہ ہر انسان از روئے قرآن باعث تکریم ہے۔ اسلام کے نام پر دہشت گردی یہود وہنود کی سازش ہے۔ پاکستان اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست بن جائے تو اسلامی ریاست ہے وگرنہ غیر اسلامی ہے۔جہاں جہاں بھی انسانی حقوق کی پامالی اور انسانی اقدار کی بدحالی ہے وہ ریاست جبر و کفر ہے۔ تمام مذاہب کے پیروکاروں نے اپنے اپنے مذاہب میں تاویلوں اور تنقیدوں سے حقائق کومسخ کردیا اور خدا کے ازلی و آفاقی پیغام کو چہیتاں بنادیا۔ بقول الطاف حسین حالی”حقیقت خرافات میں کھو گئی۔“سورہ¿ شعراءمیں چند انبیاءکا ذکر ہے ۔ حضرت موسیٰؑ ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت نوح ؑ و ھود و لوط اور شعیبؑ کا اور ان کی اقوام کا اختصار سے ذکر ہے۔ ان قوموں نے رسولوں کو جھٹلایا اور عذاب پایا۔ سورہ¿ شعراءمیں ظالمین و مشرکین کی مذمت ہے اور محرومین و مستحفین کی حمایت ہے۔ بیان توحید ہے۔ جنت کی نوید ہے اور سرمایہ داروں اور مشرکین کی تادیب ہے۔عذاب جہنم کا اعلان ہے ۔کم تولنے والوں اور معاشرتی برائیوں کا ارتکاب کرنے والا انسان نہیں شیطان ہے۔ جدت پسندوں اور رجعت پرستوں میں نظریاتی جنگ جاری ہے۔ تاریخی بیماری ہے اور ساحر کی ہے۔امریکہ کے رجعت پرست پادری A.W.tozerکے دس لیکچر شائع ہوئے ہیں۔ انگریزی کتاب کا عنوان”جان کی انجیل سے دس وعظ“ہے۔اس کا لب لباب یہ ہے کہ مذہب میں عقل و دلیل کی گنجائش نہیں بلکہ اندھی عقیدت اور اندھا اعتقاد بنیاد مذہب ہے وہ ”وحی“پر کسی دلیل کے قائل نہیں۔ وہ ”عقلی صداقت“ اور ”الہامی صداقت“میں سے الہامی صداقت کے قائل ہیں۔”روشن فکری“کے خلاف ہیں۔”بنیاد پرستی“کے حامی اور ”اجتہادی فکر“کے مخالف ہیں۔اسی طرح مسلمانوں میں ”معتزلہ“دین میں دلیل کے قائل تھے جبکہ ”اشعریہ“وحی کے اثبات و صداقت کے لئے دلیل کے قائل نہ تھے۔”سمعنا و صدقنا“ان کا مطمح نظر تھا جبکہ معتربین افلاتتفکرون اور افلایعقلون پر زور دیتے تھے۔آج کے دور میں بھی مسلمانوں میں اجتہادی اور عقلی طرز فکر کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سیاسی، اقتصادی، قانونی اور معاشرتی مسائل کے قرآنی حل کے حصول میں ناکام ہیں اور ہماری تمام تر توجہ مسلکی ، فقہی اور تاریخی تنازعات پر مبذول ہے۔ امریکہ میں چند احباب کبھی کبھی مجھ سے ملاقت کرنے آتے تھے۔ وہ عیسائی پادری تھے۔ان کا تعلق JEHOVA WITNESS کے فرقہ سے تھا۔ یہ لوگ حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے بلکہ مسلمانوں کی طرح نبی مانتے ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں کا دوسرا بڑا فرقہ ( EVANGICAL RATIONALISTS) بھی حضرت عیسیٰ ؑ کے خدا کا بیٹا ہونے کے عقیدے کے خلاف ہیں۔ یہ لوگ قرآن کے تصور توحید کے قریب ہےں۔ اے ۔ڈبلیو ٹونر کتاب کے صفحہ 13پ رقم طراز ہیں۔”عیسائی بنیاد پرست کہتے ہیں کہ عیسیٰ خدا کا بیٹا ہے جبکہ آزاد فکر عیسائیوں کا اعتقاد ہے کہ عیسیٰ عظیم انسان تھے لیکن ان کے خدا ہونے پر ہمارا اعتقاد نہیں“۔یعنی یہ روشن فکر اور جدت پسند لوگ ”ثثلیت“کے عقیدے کے قائل نہیں۔ یہ توحید کے نظریہ کے قریب ہیں۔ دراصل اس قسم کے نظریاتی اور عقیدتی مباحث و مسائل ہر مذہب کا حصہ ہیں۔ یہ کار لاحاصل ہے اور انہی مباحث نے ردعمل کے طور پر عقل پرستوں کو مذہب سے دور کردیا ہے۔ بقول اقبال
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بناسکتے ہیں پاژند
سورہ¿ شعراءمیں ذکر تو انبیاءاور اقوام پارینہ کا ہے مگر اسے سورہ¿ شعراءاس لئے کہا گیا کہ اس کا احتشام شاعروں کے بارے میں قرآن مجید کی رائے پر مبنی ہے۔آیات 224 ،225 اور 226 میں ان شعرا کی مذمت کی گئی ہے جو بہکے ہوئے ہیں اور مادی وہم و گماں میں سرگرداں ہیں اور پھر فیصلہ کن آیت یہ نازل ہوئی”اور وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں“۔ بقول ڈاکٹر اقبال یہ لوگ گفتار کے غازی ہیں کردار کے غازی نہیں لیکن آیت نمبر 227 میں ان شعراءکی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے جو ایمان لائے، نیک عمل کےئے اور اﷲ کو کثرت سے یاد کرتے رہے۔گویا شاعران خیر بھی ہیں اور شاعران شر بھی ہیں۔ شاعری کی قرآن مجید میں کہیں مذمت نہیں کی گئی۔ بلکہ سورة یٰسین کی آیت نمبر 69 میں ارشاد ربانی ہے۔”اور ہم نے اسے شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ ان کے شایان شان ہے۔یہ (کتاب) تو فقط نصیحت اور روشن قرآن ہے“۔”وما علمنہُ الشعر“کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں یعنی ہم نے نبی کوشعر کی تعلیم نہیں دی۔گویا شاعری ایک فن اور علم ہے جو ہر ایک کے نصیب میں نہیں۔ حدیث مبارکہ میں شاعر کو ”تلمہند الرحمان“یعنی خدا کا شاگرد کہا گیا ہے۔ شاعری سیکھنے سے نہیں سیکھی جاتی۔یہ الہامی قوت ہے۔شاعر پیدائشی ہوتا ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ کیا وہ اس عطیہ پروردگار سے کار شیطانی کر رہا ہے یا کاررحمانی بجا لارہا ہے۔کیا وہ حرص و ہوا اور مخرب الاخلاق تخلیق کررہا ہے یا اصلاح و فلاح معاشرہ کےلئے مثبت اور مفید درس دے رہا ہے۔ یہ بات شاعروں تک ہی محدود نہیں اگر کوئی نثار اپنے افسانوں، ناولوں اور نثری تخلیقات میں اخلاق باختہ مضامین و افکار کی ترویج کر رہا ہے تو وہ بھی ازروئے اسلام قابل مذمت ہے۔ انبیائے کرام مصلحین وقت تھے۔ بات مثبت اور منفی افکار کی ہے جو شخص اپنے اشعار، افکار اور اعمال سے انسانیت کی مذمت کررہا ہے اور مومن ہے اور جوانسانوں میں نفاق و انتشار پیدا کررہا ہے وہ زندیق ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024