گزشتہ70برسوں سے کچھ ایسے طاقتورغیرملکی عناصر یقینا آج بھی ہم پاکستانیوں کے درمیان مذہبی‘ گروہی اورنسلی تعصبات کووسیع پیمانے پرفروغ دینے جیسی اپنی گھٹیا حرکات وسکنات میں نہ صرف باہم یکسو، یکجا اور متحد ہیں، بلکہ مسلسل پاکستان کو، پاکستانی معاشرے کو ،پاکستانی ثقافت کو انارکی اور انتشار کی طرف لیجانے جیسی اپنی مذموم کوششوں کوجاری رکھنے میں اُنہیں دورکی کوڑی لانے کی نہ ضرورت محسوس ہورہی ہے نہ ہی اِس راہ میں پیدا ہونے والی پیشہ ورانہ مشکلات کی گتھیوں کوسلجھائے بناءکسی قسم کی تگ ودوکرنے کی کوششیں کیئے بغیر ہمارے دشمن وہ عناصر پاکستان کیخلاف مختلف پینترے بدل بدل کر اب میڈیا کے آسان ترین ذرائع ریڈیو میڈیم، کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کیلئے صف آرا ہوچکے ہیں اِنہیں روکنے ٹوکنے والا دکھائی نہیں دیتا یہی نہ سہی ملکی میڈیا کی غیرمعمولی آب وتاب کے ذریعے سے بھی پاکستانی سماج اور معاشرے کے اِن دشمنوں کو جواب تو کہیں نہ کہیں د یا جانا چاہیئے'یعنی ہم یہ سمجھ لیں ہمارے دشمنوں کاکام بہت آسان ہوگیا ہے؟ اورہمیں پتہ نہیں چل رہا ہے یاجان بوجھ کربحیثیت ِپاکستانی قوم ہم پوری طرح سے ’الرٹ‘ نہیں ہورہے ہیں؟ہمیں اب کوئی وقت ضائع کیئے بغیر پہلے تویہ سمجھنا اور جاننا ہوگا کہ پاکستان اور قوم کے ازلی دشمن نہیں چاہتے کہ پاکستانی سماج جدید سائنسی دنیامیں اپنی کوئی طاقتورملی وثقافتی شناخت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرپائے وہ ہماری ثقافتی وسماجی ترقی کا اور ہماری معاشی واقتصادی ترقی کاراستہ روکنا چاہ رہے ہیں،پاکستانی رائے ِعامہ پراثراندازہونے کیلئے پاکستانی قوم کیخلاف اُنکے پروپیگنڈے کے اِس ”مذموم دھندے“ میں بھارت اورچند مغربی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیاں بلاشبہ کسی نہ کسی خفیہ معاہدے کے تحت ضرورملوث ہونگی،اپنی جگہ یہ ایک حقیقت بالکل صحیح سمجھیں، یہاں ہمیں یہ امر بالکل فراموش نہیں کرنا کہ قیام ِپاکستان کے فوراً بعدجس اہم کلیدی قومی ادارے نے نوزائیدہ پاکستانی سماج کو اور نئی سمتوں کی طرف اُبھرتے ہوئے نئے پاکستانی معاشرے کے ”ملی اورقومی“خدوخال کوقومی سطح پر مسلسل اُجاگرکرتے رہنے میں اہم اور موثر اور انمٹ کردارادا کرنے والاقومی ادارہ ’ریڈیو پاکستان کے علاوہ اور میدان میںکوئی ادارہ نہیں تھا غالبا پاکستانی ٹی وی1964 میں شروع ہوگیا تھا صرف ایک ریڈیو پاکستان تھاجس کی موثراوربامعنی تخلیقی کارکردگیوںکے باوقار سلسلے کی تاریخ ایک بہت ہی نایاب قومی ریکارڈ ہے'جس پرآج بھی 70 برس کی عمروں کوپہنچے ہوئے پاکستانی بزرگ افراد بڑا فخروانبساط محسوس کرتے ہیں۔ نجانے ہمیں یہ خیال کیوں پریشان کیئے ہوئے ہے کہ کیا وہ”ریڈیو پاکستان“اب کہیں گمشدہ تو نہیں ہوچکا ؟ گمشدہ ریڈیو پاکستان ' میں نئی زندگی کی کوئی رمق دوبارہ آسکتی ہے؟ یہ سوچنا یقیناآج کے ریڈیو پاکستان کے اعلیٰ حکام کی اولین ذمہ داری بنتی ہے، یہاں پر یہ کہتے ہوئے ہم آگے بڑھیں گے کہ 2000 میں ا±س وقت کی ہماری حکومت نے اپنی نئی میڈیا پالیسی کے تحت ’آزاد میڈیا‘ کا ایک تصور ضرور پیش کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ’مشروم گروتھ‘ کی مانند پاکستان بھر میں ایف ایم ریڈیوز کا ایک جال سا پھیل گیا۔ ہر کسی نے ’پیمرا‘ کو ایک عدد درخواست دے کر اپنے اپنے علاقوں میں ایف ایم ریڈیو کھول لیئے کسی سے یہ نہیں پوچھا گیا کہ درخواست دہندہ کے پاس ذرائع َ ابلاغ کے میدان میں کوئی خصوصی تجربہ ہے بھی یا نہیں‘ پاکستان کی قومی نظریاتی وحدت کے بارے میں اُسے کوئی علم اور واقفیت ہے یا نہیں ؟آزاد میڈیا کے الیکڑونک چینلز اورایف ایم ریڈیوزکی یکایک چھا جانے والی 'بہار'کے آنے سے چندبرس پیشتربھی’ریڈیوپاکستان‘ کی پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی واضح سماجی ومعاشرتی اہمیت وافادیت اورملکی سطح پرقدرومنزلت کی سطح بہت بلند وبالا سمجھی جاتی تھی اور اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میڈیا کی آزادی اپنی جگہ! مگر بھانت بھانت کے ایف ایم ریڈیوزنے معروف پاکستانی ملی اور ثقافتی قدروں کوکہیں کا بھی نہیں رہنے دیا۔'ریڈیو' ایک ایسا میڈیم ہے جو اب کروڑوں پاکستانیوں سمیت دنیا کے دیگر حصوں کے رہنے والوں کے موبائل سسٹم میں شامل ہوچکا ہے ، لہذاءریڈیو کی افادیت آج بھی ذرائع ابلاغ کے دیگر ٹولز سے بہت زیادہ خصوصیت کی حامل ہے اپنے قارئین کیلئے اِس موضوع کا انتخاب آج اِس لئے ضرور سمجھا گیا ہے کہ امریکا اور چند مغربی ممالک نے 11/9 کے بعد افغانستان میں جوں ہی ڈیرے ڈالے تو ا±نہوں نے پشتو اور دری زبانیں بولنے والی اکثریتی پٹھان آبادی کی ملی ثقافت پر یوں سمجھیں جیسے اُنہوں نے اپنے ’ایجنڈے‘ کے طور پر اِس پورے علاقے پر غیر اسلامی ثقافت کی یلغار کردی، چھ سات برس ہونے کو آئے وقت کے ساتھ ساتھ امریکا نے اپنی نگرانی میں’مشعل ریڈیو' اور’دیوا‘ریڈیو کے ہائی پاور ٹرانسمیٹرز ٹاور لگانے پر بے دریغ ڈالرخرچ کرڈالے ”مشعل ریڈیو“اور”دیوا ریڈیو“ کے پشتو زبان میں نشر ہونیوالے پروگرامز اگر پاکستان میں کہیں 'مانیٹر'ہوتے ہوں گے تو وہ ہی بتاسکیں گے کہ امریکا اور بھارت سمیت دیگرپاکستان دشمن نشریاتی اداروں سے کتنا جھوٹ بولا جارہا ہے، قبائلی علاقوں کے پاکستانیوں گمراہ کرنے کےلئے کیسی کیسی چکنی چپڑی پشتو کہاوتیں گھڑی جارہی ہیں ”مشعل ریڈیو“کے منفی پروپیگنڈا کا جواب دینے کی سکت ریڈیو پاکستان کے تخلیقی ذہانت رکھنے والے پیشہ ورماہرین کے پاس یقینا ہونی چاہیئے ریڈیو پاکستان کو مشعل ریڈیوکے پروگرامز ”ڈیلی مانیٹرنگ سسٹم“ کے تحت سنے جانے چاہئیں ،ممکن ہے کہ پی بی سی میں ایسا کوئی ’کنٹرولنگ مانیٹرنگ سسٹم‘موجود ہو گا یہاں ایک رائے ایک مشورہ وہ یہ کہ اِس وقت قبائلی علاقوں کے دوردراز انتہائی دشوار گزار افغان سرحدوں کے عین نزدیکی علاقوں میں پاکستانی فوج ’آپریشن ردالفساد‘ میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کےخلاف اپنا تاریخ ساز کردار ادا کر رہی ہے پاکستان سے ملحقہ افغان سرحد پر ہماری فو ج کے جوان ہمہ وقت چوکس اور بیدار ہیں' کیا ریڈیو پاکستان اورافواج ِپاکستان کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر باہم مشترکہ نشریاتی سلسلہ شروع نہیں کرسکتے؟تاکہ پاکستان مخالف سمتوں سے جو من گھرت داستانیں باربار پشتوسامعین کے ذہنوں کو مسخر کرنے کےلئے ٹھونسی جارہی ہیں ا±ن کا سد ِباب توممکن ہوسکے، ماضی میں آئی ایس پی آر کے تعاو¿ن سے قومی نشریاتی رابطوں پرتقریبا تین برس تک غالبا2001 میں مسلسل پروگرامز نشر کئے جاتے رہے ہیں، ریڈیو پاکستان کے اعلیٰ حکام کو اِس جانب توجہ فوری دینے کی اشدضرورت ہے اِسے بھی ایک قومی کاز سمجھا جائے' بلوچستان اور پاک افغان بارڈرپر ریڈیو پاکستان کے ہائی پاورٹرانسمیٹرز کی تنصیب کے سلسلے میں وفاقی وزارت ِاطلاعات ونشریات کوفی الفور’ترجیحی بنیادوں پرایکشن لینا ہوگا، ملکی سماجی دشمن عناصر کے لغو اور بے سروپا گمراہ کن پروپیگنڈا مہم کی پشت پناہی کرنے والوں کی ذہنی تسکین کو منتشرکرنے کےلئے سبھی حساس ملکی اداروں کو باہم یکسو اور یک جان ہوکر اِس جانب بلا تاخیر توجہ دینے کا یہی بہترین وقت ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024