کبھی کبھی تو محسوس ہوا کہ بس چند لمحات یا پھر کچھ سیکنڈز ۔ کہانی ختم ہوا چاہتی ہے ۔ کیفیت ہی کچھ ایسی ہوتی تھی ۔ سانس گلے میں اٹکنے لگتا ۔ پسینہ سے ہاتھ ۔ سر بھیگ جاتے ۔ ایک آدھ مرتبہ نہیں ۔ سینکڑوں بار اِس عالم سے گزرے ۔
جب بھی ایسی حالت پاتی ۔ زیادہ تر وقت میں سر سے پاوٗں تک سر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ۔ غم ۔ آزمائش ۔ زندہ رہنے کے دُکھ کے خاتمہ کی گھڑی سمجھ کر دل چاہتا کہ دھمال ڈالنا شروع کر دوں ۔ اپنے عظیم الشان" ربِ ذی شان "کے دیدار مبارکہ کا تصور ۔ اپنے پیارے" نبی محمد مصطفیٰ رسول مقبول ﷺ "سے ملاقات کا جانفزا لمحہ سعید ۔ اپنے "شہید بیٹے محمد میثاق عبدالقیوم "سے ملاقات ۔ جان لیوا جُدائی کے خاتمہ کا وقت ۔ کیا کچھ خوش نہیں کرتا تھا ۔ کیسے کیسے خوش کُن خیالات ظاہری وجود کو کِسی اور ہی دنیا میں لا کھڑا کرتے کہ اردگرد سے بے خبر ہو جاتی ۔ پر وقت گزر جاتا اور گزرتا گیا ۔ ماہ و سال کا مقدر تو چلنا ہی ہے ۔ بڑھنا ہے ۔ ختم ہونا ہے۔ مگرجب جان کُسل ہو جائیں تو جیتے جی انسان مر جاتا ہے۔" مُردے" کی طرح بن جاتا ہے پرفرق اتنا سا کہ سانس زندہ انسان مانند لیتا ہے ۔
سانس تو اب بھی گلے میں پھنسی ہوئی ہے ۔ بے چینی ، اضطراب ہے ۔ نہ دائیں نہ بائیں ۔ نہ بیٹھے ہوئے ۔ نہ کھڑے ہوئے ۔ کِسی طور قرار نہیں ۔ کِسی پل چین نہیں۔ "وجود "گوشت پوست کا نہیں ۔ پتھر کا بے جان روبوٹ معلوم ہوتا ہے ۔ ایسا پتھر جو بے حد وزنی ہو ، کِسی حکم کے تحت بندھا ہوا مشینی انسان جو میکانکی انداز میں چل رہا ہو ۔ چند سانسیں جو "کتابِ زندگی کا آخر ی پیراگراف" لکھ رہی ہیں ۔ باقی ہیں ۔ "حکم ربی تعالیٰ کریم "ہے ۔ پوری ہونی ہیں۔تبھی جاکر کتابِ زیست مکمل ہوگی ۔
"صبر" کتنا مشکل ہے ۔ کوئی مجھ سے پوچھے ۔ کِس طرح زندگی گزر نہیں ۔ کٹ رہی ہے ۔ غم کی تلو اریں ہیں جو سانسوں کو تیز دھار سے ذبح کر رہی ہیں ۔ دن بِیت جاتا ہے تو شکر کے کلمات ادا ہوتے ہیں کہ چلو دن گزر گیا ۔ رات گزرتی ہے تو تب بھی سیاہی پر روشنی چڑھ آنے ۔ غالب ہونے پر زبان ۔ دل ۔ دماغ سجدہ شکر میں چلے جاتے ہیں پر اِس طرح کہ بوجھ مزید وزنی ہوجاتا ہے ۔
نا شکری کا وصف تو پہلے بھی کم نہ تھا۔ ہر ہر کروٹ پر" یا اللہ شکر ہے" کہتی ۔ کروٹ بدل لیتی ۔ گھر بیٹھے کام ہونے کی دعائیں مانگتی ۔ کام ہو جاتے ۔ کوئی خواہش ہوتی مخصوص کھانا کھانے کی ۔ چند لمحوں میں آجاتا تو خوشی سے پُھولے نہ سماتی ۔ ہر کِسی کو بتاتی ۔ اپنے" اللہ رحمن" کے آگے ۔ اُس کے در پر زیادہ وارفتگی سے جھک جاتی ۔مگر وہ "جنت" جیسی زندگی تھی ۔ ایسی زندگی جو غم سے آشنا تو تھی ۔ چھوٹی موٹی تکالیف ۔ بیماریوں ۔ مشکلات کی راہ سے گزر رہی تھی ۔ زندگی کا کوئی لمحہ ایسا بھی نہیں دیکھا کہ برسات کے بادلوں کی طرح خوشیا ں برسی ہوں۔ کامل زندگی تو تب بھی نہ تھی ۔ مگر "کوہ احد "سے بلند غم ۔ آزمائش کا پہاڑ بھی نہیں دیکھا تھا کبھی۔ جینے کی اُمنگ تھی ۔ ہمہ وقت سماجی ۔ گھریلو مصروفیات اچھی لگتی تھیں ۔ ہر وقت کے ہر لمحہ کو کچھ نہ کچھ کرنے کا جنون طاری رہتا ۔ کچھ انوکھا ۔ کچھ منفرد تھکاوٹ سے چُور ہونے کے باوجود متحرک رہنے میں طمانیت ۔ کامل خوشی تھی ۔ مہمانوں کے آنے کی خوشی دو چند ہو جاتی ۔ انواع و اقسام کے کھانے تیار کرواتے ۔ گپ شپ ۔ سیر سپاٹے میں مگن ۔ سبھی کچھ بھلا معلوم ہوتا تھا ۔ دل چاہتا تھا اور ہمیشہ دُعا گو رہی کہ" اللہ تعالیٰ" مرنے سے پہلے خوشیوں میں ۔ خوشحالی کے ساتھ پوری دنیا کی سیر ضرور کروا دینا ۔ یہی سوچتی ۔ بولتی تھی کہ"ـ یا اللہ کریم آپ" کی بنائی "دنیا "اتنی دلکش ۔خوبصورت ۔ ہوش اُڑا دینے والے مناظر سے بھری پڑی ہے تو "یا اللہ غفور الرحیم" آپ خود کتنے خوبصورت ہونگے ۔۔۔
ہر پل ۔ ہر لمحہ اپنوں کے ساتھ ۔ سب کے ساتھ۔ پھر بہت سارے ۔جو پیارے بھی بہت تھے ۔ بچھڑ گئے تو دل کا اطمینان بھی رخصت ہونے لگا ۔ بے کیفی طاری ہونے لگی ۔ ایسے میں بہت ہی پیارا ۔ اکلوتا "بیٹا جی" "اللہ تعالیٰ رحیم "کو پیارے ہوگئے تو تب سب کچھ100"ڈگری "تک بدل گیا۔اگر کچھ اچھا معلوم ہوتا ہے تو صرف ملاقات کا تصور ۔ یہی واحد چیز ہے جو"بے جان مُردے "کو دوڑا رہی ہے ۔
"اے کعبہ کے پاک رب "۔ کوئی شکوہ نہیں ۔ شکایت نہیں ۔ اکیلی "میں" نہیں لاکھوں ۔ کروڑوں" مائیں" اِس طرح کے غم سے گزر ی ہونگی ۔ گزری ہیں ۔ مگر دل دُکھی ہے۔ بے حد مضطرب ۔ انسان ہوں۔ اسلئیے ۔ بندہ بشر کی ہمت ۔ طاقت ۔ صلاحیت سے کما حقہ آگاہی کا ہم میں سے کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا ۔ "دعویٰ "کیا ہم تو اتنی طاقت بھی نہیں رکھتے کہ منہ سے "ربِ ذی شان کریم "کے اِذن کے بغیر ایک لفظ بھی نکال سکیں "رب کعبہ" اپنی شان ۔ اپنی رحمت کے مطابق ہمیں ہمیشہ کے لیے معاف فرما دیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024