شہید ایسا پاکیزہ، محترم اور باوقار لفظ ہے جس کے آگے سب تعظیم سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آنکھوں سے احترام ٹپکنے لگتا ہے۔ ہمارے ہاں اتنے پاک لفظ کو بھی سیاست میں گھسیٹ کر فائدے اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پہلے پہل غیرطبعی موت مرجانے والے سیاست دانوں کو شہید کہا جانے لگا۔ اب کرپشن، بدعنوانی یا کسی دوسری وجہ سے اپنی سیاسی مدت حکمرانی پوری نہ کرنے والے سیاست دانوں کوبھی سیاسی شہید کے تمغے لگائے جاتے ہیں۔ سیاسی شہادتوں کی مشہوری کے لئے ضروری ہے کہ اُس سیاسی لیڈر کی سیاسی جماعت کا سائز بڑا اور اس کی پارٹی کی پراپیگنڈہ مشینری تیز ہو۔ اگر کوئی سیاسی لیڈر کسی عدالتی سازش کے نتیجے میں پھانسی چڑھا دیا جائے تو اُسے پارٹی کے بڑے سائز اور تیز پراپیگنڈہ مشینری کے باعث خودبخود شہادت کے رتبے پر فائز کردیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف کئی گمنام افراد مقدمے کی پیروی کی سکت نہ رکھنے یا مخالف گروہوں کے طاقتور ہونے کے باعث بے گناہی میں پھانسی چڑھ جاتے ہیں مگر انہیں کوئی شہید نہیں کہتا۔ اسی طرح اگر کوئی سیاسی لیڈرگولی یا بم سے مارا جائے تو اس کی شہادت کی مشہوری بھی اس کی سیاسی جماعت کے سائز اور اس کی پارٹی کی پراپیگنڈہ مشینری کی تیزی پرہی منحصر ہے۔ ورنہ گولی یا بم سے مرنے والے بیشمار دوسرے شہریوں کو شہید کے طور پر یاد رکھنا تو ایک طرف ان کے نام بھی تیسرے دن کے اخبارات میں عموماً موجود نہیں ہوتے۔ اس طرح کے تقابلی جائزوں کو سامنے رکھ کر خیال آتا ہے کہ کیا سیاست میں شہادت کے رتبے کے لئے ایکٹو سیاسی جماعت اور حالات کا فائدہ اٹھانے والے شروڈ پیروکاروں کا ہونا ضروری ہے؟ ۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کو شہادت کے رتبے سے ہٹاکر صرف بڑے سیاسی رہنمائوں کے رتبے پر فائز رکھا جائے تو کیا اُن کے سیاسی قد میں کمی آجائے گی؟ شاید ایسا نہیں ہے بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ اُن کے پیروکاروں میں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے سیاسی فلسفے کو آگے بڑھانے کا ویژن نہیں ہے۔ اسی لئے اُن کے فلسفے کی بجائے مظلومیت کی چادر پھیلا کر سیاسی روزگار مانگا جاتاہے۔ پیپلز پارٹی کے اِن رہنمائوں کی مثال اس لئے دی گئی کہ اپنے رہنمائوں کی غیرطبعی اموات کو شہادتوں سے جوڑکر سیاسی فائدہ اٹھانے کی سب سے زیادہ کوشش اِسی جماعت نے کی ہے جبکہ پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی، مذہبی ونسلی جماعتوں میں بھی سیاسی قتل ہوئے ہیں اور انہیں بھی اپنی اپنی جماعتوں میں شہداء ہی کہا جاتا ہے لیکن ان کے بارے میں عوام یاتو زیادہ باخبر نہیں ہیں یا جلدی بھول گئے ہیں۔ اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ یہ سب جماعتیں سائز اور پراپیگنڈہ مشینری کے اعتبار سے پیپلز پارٹی سے چھوٹی ہیں۔ اس حوالے سے سب سے بڑی مثال پاکستان میں سب سے پہلے غیرطبعی موت کا شکار ہونے والی اعلیٰ ترین شخصیت لیاقت علی خان تھے جنہیں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر موجود ہوتے ہوئے سرعام قتل کردیا گیا لیکن اُن کی پارٹی اور پراپیگنڈہ مشینری نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ صرف تکلفاً لکھا جاتا ہے۔ سیاسی قتل اور سیاسی رہنمائوں کی حادثاتی اموات سے گلوبل ہسٹری بھری پڑی ہے لیکن اُن سب ممالک میں اپنے مقتول سیاسی رہنما کے نام پر سیاسی کمائی کرنے کا فیشن نہیں ہے۔ مثلاً امریکہ کو آزادی دلوانے والے ابراہم لنکن یا ہردل عزیز کینیڈی کے قتل پر اُن کی اپنی سیاسی جماعتوں نے اپنے لیڈروں کی ڈیڈ باڈیز کی سیاسی مارکیٹنگ نہیں کی بلکہ اُن کے جمہوری فلسفے کو لے کر آگے بڑھے۔ مارٹن لوتھر کنگ نے امریکہ میں کالے امریکی اور سفید امریکی میں فرق ختم کرنے کی تحریک چلائی ۔وہ بھی گولی سے قتل ہوا۔ اُس کی لاش پربھی سیاسی مارکیٹنگ نہیں کی گئی بلکہ کالے اور گورے انسانوں کو ایک جیسے حقوق دینے والے ’’مارٹن لوتھر ویژن‘‘ کو خوب پھیلایا گیا جس کے نتیجے میں ایک بلیک امریکی یعنی اوباما امریکہ کا صدر منتخب ہوا۔ ہمارے ہاں جمہوریت جیسی ستھری اور نکھری شے کو سیاسی مفادات نے گندہ اور آلودہ کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہادت جیسے پاک لفظ سے بھی سیاسی مفاد اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس بدترین سیاسی خودغرضی اور مفاد پرستی میں ایک نئی ترنگ ’’سیاسی شہید‘‘ کے نام سے ایجاد کرلی گئی ہے۔ اِس میں اُس حکمران کو فٹ کیا جاتا ہے جوکسی وجہ سے اپنی طے شدہ مدت حکمرانی کے اختتام سے پہلے ہی ایوانِ اقتدار سے باہر ہو جائے۔ اس کیٹگری میں مشہور ہونے والی سب سے بڑی مثال نواز شریف کی ہوسکتی ہے کیونکہ اگر نواز شریف کو حکمرانی کی طے شدہ موجودہ مدت ختم ہونے سے صرف چند ماہ پہلے عدالتی فیصلے کے تحت وزیراعظم ہائوس سے باہر آنا پڑا تو وہ 1993ء اور 1999ء کی طرح ایک مرتبہ پھر ’’سیاسی شہید‘‘ بننے کی کوشش کریں گے۔ حالانکہ گزشتہ 70 برسوں میں عدالتی فیصلوں اور انتخابی پٹیشنوں کے ذریعے بیشمار سیاسی ورکر نااہل ہوئے لیکن انہیں کوئی سیاسی شہید کے نام سے نہیں جانتا۔ یہاں تک کہ سب سے پہلی اسمبلی کے زبردستی برخواست کئے جانے والے اراکین اور مولوی تمیز الدین بھی سیاسی شہید کے طور پر مشہور نہیں ہوئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نواز شریف کے لئے مسلم لیگ ن کا سائز اور پراپیگنڈہ مشینری نااہل ہونے والے دوسرے عام سیاسی ورکروں سے بہت بڑی ہے۔ یہاں ایک بات اور بہت اہم ہے کہ سیاست میں شہید کہلانے والی شخصیات کومخالف سیاسی جماعتیں عموماً شہید نہیں مانتیں۔ شہید کا بابرکت لفظ صرف اُن بہادروں کے لئے ہونا چاہیے تھا جو پروٹوکول اور ناقابل تسخیر سیکورٹی والی گاڑیوں کے جھرمٹ کے بغیر سنگلاخ اور بے رحم محاذوں پر بھوکے پیاسے رہ کر وطن کے دشمنوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دیتے ہیں یا وہ جانباز جو وطن کے اندر چھپے ہوئے دشمن کے بچھوئوں اور سانپوں کو مارتے ہوئے اپنے آپ کو قربان کردیتے ہیں۔ پاک فوج، رینجرز، ایف سی، پولیس اور دوسرے سیکورٹی اداروں کے ہزاروں افسران اور سپاہی شہادت کی اصل تعریف میں فٹ آتے ہیں لیکن اُن کی مشہوری اقتدار کے مزے لوٹنے والے سیاسی شہدا کی نسبت کم ہوتی ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ جانباز مٹی کی محبت میں اپنی جان قربان کرنا فخریہ فرض سمجھتے ہیں جبکہ سیاست دان اقتدار کی محبت میں ہرجائز ناجائز دائو پیچ لگانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ کیا وہ بہادر جانباز شہید اور سیاست کے شہید برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا سیاست میں لفظ شہید کے بے جا استعمال پر کوئی آئینی روک نہیں ہونی چاہئے؟ کیا اس حوالے سے چیف جسٹس صاحب ازخود نوٹس لے سکتے ہیں؟
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024