NAB قوانین میں سقم اور پرائیویٹ سیکٹر کی تباہی(2)
جن کے پاس تو رقوم کا انتظام ہوتا ہے وہ مجبوراً پلی بارگینز کر کے نکل جاتے ہیں، لیکن اس کے برعکس جن کے پاس انتظام نہیں ہوتا اور ان کی رقم کاروبار میں لگی ہوتی ہے یا لوگوں سے لینا ہوتی ہے وہ سالہا سال قید رہتے ہیں۔ اگر ان کی رقم کسی پروجیکٹ میں انویسٹ ہے اور پروجیکٹ ابھی تعمیر و تکمیل کے مراحل میں ہے یا کسی بھی وجہ سے تعطل کا شکار ہوتا ہے تو وہ ادارہ پروجیکٹ کی صورتحالات کی وجہ سے تباہ ہو جاتا ہے۔
آغاز میںکسی فرد یا ادارے کے ڈائریکٹرز کو گرفتار کرنے کے بعد ان کی کردار کشی کی مہم میڈیا میں چلائی جاتی ہے اور میڈیا پر بڑا اسکینڈل بنا کر دکھایا جاتا ہے۔ وہ کاروباری فرد در اصل ملزم ہوتا ہے لیکن اسے مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ گرفتاری کے پہلے مرحلے کے بعد ہی ایک بڑے سکینڈل کا نام بن جاتا ہے، اور اس طرح مارکیٹ میں اس کے کاروباور کو بھی نا قابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ جن لوگوں سے رقم لینا ہوتی ہے، لینے میں بے بس اور ناکام ہو جاتا ہے، جبکہ مارکیٹ میں جن لوگوں کی رقوم اسے دینی ہیں تو وہ اس وقت درخواست دہندہ بن جاتے ہیں اور یوں وہ لین دین کے عدم توازن کا شکار ہو کر ایک بڑی تباہی کے منہ پڑجاتا ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی کمپنی اور کوئی ایسا کاروبار نہیں جس میں اُس کمپنی یا کاروبار کے مالک نے بیک وقت مارکیٹ سے رقم لینییا دینی نہ ہو، لین دین کا معاملہ چلتا رہتا ہے اور کاروبار کامیابی سے چلتے رہنے سے توازن برقرار رہتا ہے۔کسی نقصان یا وقتی کرائسز کے باعث بسا اوقات اس کا توازن خراب ہونے پر کاروباری فرد یا ادارہ مقروض بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر اس کاروباری ادارے یا فرد کو تنگ یا پریشان نہ کیا جائے تو فطری طریقے سے اس کرائسز سے باہر آ جاتا ہے۔ پھل دار درخت پر خزاں بھی آ جاتی ہے مگر اس کو جڑوں سے کاٹ نہیں دیا جاتا بلکہ بہار کا انتظار کیا جاتا ہے۔
ایک کاروباری فرد کو گرفتار کر کے اس کے تمام کمیونکیشن ذرائع بند کر دینا، نوے دن کے ریمانڈ پر دفتر اور کاروباری زندگی سے محروم کر دینا کسی کاروبار کی تباہی کے لئے کافی ہوتا ہے، اور یہی فریضہ نیب انجام دیتا ہے۔ حد یہ ہے کہ چوری، ڈکیتی اور قتل کے مقدمات میں ضمانت ممکن ہے مگر لین دین کے معاملات، کاروباری معاملات اور نیب کے کیسز میں ضمانت نہیں لی جاتی۔ در حقیقت ایک بزنس مین کی گرفتاری نہیں ہونی چاہئیے۔ لیکن یہاں گرفتاری کے بعد سالہا سال ضمانت نہیں لی جاتی تو ایک ادارہ جو سینکڑوں خاندانوں کے روزگار کا ذریعہ ہوتا ہے اس کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے۔ نیب کے لوگ یا معزز عدلیہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کو گرفتار کرنا اور ضمانت نہ دینا اس لئے ضروری ہے کہ یہ لوگ بھاگ جائیں گے۔
(جاری ہے)
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے، ایف آئی اے، NAB، اور پولیس کاروباری لوگوں کو ہراساں نہ کریں اور عزت و باوقار طریقے سے کسی بھی معاملے پر انکوائری کی جائے تو کوئی بھی شخص اپنے کاروبار کو بند نہیں کرے گا اور نہ ہی کہیں بھاگے گا۔ ایک شخص اپنی رقم انویسٹ کر کے دن رات کی انتھک محنت سے اپنا کاروبار قائم کرتا ہے، جس کا مقصد معاشرے میں ایک با عزت زندگی گزارنا ہوتی ہے مگر پولیس، ایف آئی اے یا نیب کروڑوں روپے لگا کر اور دن رات محنت سے کمائی جانے والی عزت اور ساکھ کا جنازہ نکال دیتے ہیں اور بعد ازاں طویل قید و بند سے کاروبار اور خاندانوں کی معاشی تباہ حالی انہیں زندگی سے بھی مایوس کر دیتی ہے۔
جو لوگ نیب کے تفتیشی مراحل سے گزرے ان سب کی مشترکہ رائے ہے کہ نیب کے تفتیشی افسران انتہائی نا تجربہ کار، نا پختہ اور زندگی کے عملی پہلوﺅں سے مکمل نا بلد ہیں۔ نیب چونکہ کاروباری لوگوں کو غلط انداز میں گرفتار کر کے اور ان کی کردار کشی اور بلیک میل کر کے فقط پلی بارگین ارو ریکوری پر کام کرتا ہے لہٰذا تفتیشی افسران کاچناﺅ کرتے وقت نہ تو ان کے تعلیمی کیرئیر اور نہ ہی ان کی ذہانت اور نہ ہی تجربہ کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جو شخص ریئل اسٹیٹ کے شعبہ میں لوگوں کو ڈیل کرتا ہے اسے پراپرٹی اور کنسٹرکشن کے کاروبار کی الف، ب کا بھی پتہ نہیں۔ اسی طرح مختلف کاروباری طبقات کو ڈیل کرنے والے تفتیشی افسران کو ان کاروبار کے متعلق کچھ علم نہیں۔ کیوں کہ کیس سے متعلقہ تمام فیصلہ جات ڈائریکٹرز کرتے ہیں اور ڈائریکٹرز خود اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ ہم ملزم کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ لہٰذا ڈائریکٹرز خود بہت کم سامنے آتے ہیں۔ اور بالکل ناتجربہ کار اور نئے نئے علمی زندگی میں آنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو بطور تفتیشی آفیسر بنا کر سامنے رکھا جاتا ہے اور ان کو عملی طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور خود کم سامنے آتے ہیں۔ پس پردہ رہ کر اپنے منصوبوںکو تفتیشی افسران کے ذریعے علمی جامہ پہناتے ہیں۔
نیب کاروباری افراد سے پلی پارگین کرنے کے بعد جو رقم وصول کرتی ہے اس کا استعمال بھی ذرا غور کریں۔ اطلاعات کے مطابق نیب اس رقم کو بینکوں میں انویسٹ کر کے اس سے ماہانا منافع حاصل کرتی ہے، مثال کے طور پر معروف اسکینڈل ڈبل شاہ سے اربوں روپیہ ریکور کیا گیا مگر وہ رقم کئی سال گزرنے کے باوجود اصل حق داروں کو نہیں ملی اور کئی سالوں سے نیب کے زیر استعمال ہے۔ اس ضمن ایسے اسکینڈل میں نیب رقم وصول کرتا بھی ہے تو اس کو یا تو اصل حقدار کو مل جانی چاہئیے۔علاوہ ازیں مفتی احسان سے تقریباً پچاس کروڑ روپیہ لیا گیا اور اس کو جیل میں ڈال دیا گیا، آج اسے تقریباً چار سال ہو چکے ہیں وہ رقم نیب کے پاس ہے، نہ تو وہ درخواست گزاروں کو ملی اور نہ ہی مفتی احسان اس رقم سے از خود کاروبار کر رہا ہے۔ وگرنہ اتنی رقم سے اگر کوئی سطحی ذہن کا آدمی بھی کاروبار شروع کر دے تو چند سال میں چند ارب روپے کما سکتا ہے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ رقم دے کر پچھلے چار سال سے مفتی احسان جیل میں ہیں۔ مفتی احسان پر کل کلیم تقریباً چار ارب ہے اور اگر اس رقم سے بزنس بھی کیا جائے تو صرف پراپرٹی کا بزنس چند سالوں میں مفتی احسان کے ذمہ سارا کلیم ختم کر سکتا ہے۔ نیب نے مفتی احسان سے رقم بھی لے لی اور حق داروں کو بھی نہ دی۔ مفتی احسان کو جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا اور اس کا باقی مانندہ کاروبار بھی ٹھپ کر دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے عمل کا فائدہ کس کو پہنچا، نیب اتنی رقم اتنا عرصہ کہاں استعمال کر رہا ہے؟ اور اس سے حاصل ہونے والا سود کون لے رہا ہے؟َ جس سے رقم وصول کی گئی اسے جیل میں بھی ڈال دیا گیا اور اس کی ساری پراپرٹی بھی فریز کر دی گئی۔ وہ فرد اور اس کے انویسٹرز اس رقم سے بھی محروم اور اس رقم پر ملنے والے کسی قسم کے منافع سے بھی محروم۔ بعد ازاں کئی سال کے بعد لوگوں کو اصل رقم کے چیکس دئیے جاتے ہیں اور اس دوران اس رقم پر ہونے والا منافع نہ جانے کہاں ہے؟
نیب میں جو لوگ کسی فرد یا ادارے کے خلاف درخواست دیتے ہیں ان کا سٹیٹس نیب کو دیتے وقت تو مدعی کا ہوتا ہے لیکن جب کیس عدالت میں سماعت کے لئے آتا ہے تو اس کی حیثیت بجائے مدعی کے محض گواہ کی رہ جاتی ہے۔ نیب خود مدعی بن جاتا ہے۔یوں لوگوں کی رقوم کی مدعیت نیب کے پاس آ جا تی ہے اور لوگ جن کی رقوم ہوتی ہیں وہ گواہ کی حیثیت نیب عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ پولیس اور ایف آئی اے میں یہی کیس مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔ وہاں پولیس اور ایف آئی اے ایک سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں۔ پولیس یا ایف آئی اے بسا اوقات فریقین کے درمیان پل کا کام دے کر صلح بھی کروا دیتی ہے۔اور مدعی کو اس کی رقم ریکور کروا دیتی ہے اور بعد ازاں مدعی کو عدالت میں لے جا کر ملزم کے حق میں بیان دلوا کر معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے۔ اس طرح اس سارے عمل کا فائدہ مدعی کو ہوتا ہے۔ مدعی کو اس کی رقم مل جاتی ہے جب کہ نیب میں خود مدعی نیب ہوتا ہے، لہٰذا اب ملزم نے رقم نیب کو دینی ہے اور ان لوگوں کو نہیں دینی جن کی اصل رقم ہے۔ کیوں کہ اب وہ صرف گواہ ہیں۔ مثال کے طور پر اس کمپنی یا فرد نے پلی بارگین کی اور پہلی قسط میں 34% ادائیگی کی اب بالفرض وہ اگلی قسط 33% ادا نہ کر سکا اور جیل چلا گیا تو اب نیب جب تک وہ 100% ادا نہیں کردیتا اس رقم میں سے کسی حق دار کو ایک روپیہ کی بھی پے منٹ نہیں کرتی۔ لوگ رقم لینے آتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ ابھی معاملہ عدالت میں ہے جب اس کا فیصلہ ہو گا اور بقایا رقم ملے گی تو ہم صرف اس صورت میںرقم ادا کر سکتے ہیں۔ اور یوں چونکہ وہ فرد اور کمپنی تو 34% دینے کے بعد اس پوزیشن میں نہ رہی اور جیل آنے کے بعد اس کا کاروبار ٹھپ ہو گیا تو ایسی صورت میں سالہا سال ادا شدہ رقم نیب کے پاس رہے گی اور نیب اس سے فائدہ اٹھاتا رہے گا۔ اس طرح جن کیسز میں نیب انکوائری کر لیتا ہے اور فرد یا ادارے کے ڈائریکٹر کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ ریکوری کی رقم بھی نیب کے پاس رہتی ہے اور ٹرائل کو سالہا سال چلایا جاتا ہے۔ اب جتنے سال ٹرائل چلتا رہے گا نیب اس پر بینکوں سے انٹرسٹ لیتی رہے گی، وہ فائدہ نہ تو عوام کو ملے گا اور نہ ہی اس کاروباری ادارے کو جس سے رقم ریکور کی گئی ہے۔
لین دین کے معاملات میں ایک اور ظلم جو بے نقاب کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ ایک ہی رقم کا اگر بالفرض سٹامپ پیپرز پر معاہدہ ہے اور ساتھ چیک بھی ہے تو لوگ چیک پر پولیس کیس کر دیں گے اور پھر سٹامپ پر ایف آئی اے اور نیب میں بھی کیس کر دیں گے۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے کہ ایک ہی رقم کے عوض لوگوں کو تین اداروں کے ہاتھوں پسنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف نیب ایک ہی کیس میں بلا تفتیش مختلف ریفرنس بنا سکتا ہے۔ بندہ ایک ریفرنس سے بری ہوتا ہے تو اس کے لئے دوسرا ریفرنس تیار ہوتا ہے۔ اس طرح نیب کے شکنجے میں پھنسے والا فرد کئی سال تک اسی شکنجے سے اپنی جان نہیں چھڑوا سکتا۔ اس پر مو¿ثر قانون سازی کی ضرورت ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک رقم پر ایک ادارے میں کیس کر دیا ہے تو اس کو دوسرے ادارے میں وہی کیس رجسٹر کرانے کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہئیے۔ اور اسی طرح نیب کو بھی زیادہ ریفرنس بنانے سے روکا جانا چاہئیے۔ کاروباری افراد کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنا، گرفتار کرنا اور ان کی کردار کشی کرنا یہ نہ صرف سینکڑوں خاندانوں کے معاشی قتل کی بہت بڑی وجہ ہے بلکہ ملکی ترقی کی راہ اور انویسٹمنٹ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
نیب عدالت میں کیس ٹرائل ہو اس دوران اگر وہ فرد ضمانت پر ہوگا تو اس کا کاروبار ساتھ ساتھ چلتا رہے گا اور کیس ثابت ہونے پر رقم کا انتطام بھی کر سکتا ہے۔ گورنمنٹ سیکٹر میں ایک بیوروکریٹ نے کرپشن کر کے پیسہ کہیں نہ کہیں بے نامی کے اثاثوں میں یا بصورت کیش چھپایا ہوتا ہے، لہٰذا اسے گرفتار کر کے پابند سلاسل کرنے کا فائدہ ہے کہ وہ اس اذیت اور عذاب سے بچنے کے لئے پلی بارگین کر ےگا اور پیسہ گورنمنٹ کو واپس کرے گا لیکن ایک کاروباری فرد گرفتار ہونے کے بعد پیسے کا انتظام کرنے کے قابل ہی نہیں رہے گا۔ اب نہ تو اس کی ضمانت ہے اور نہ ہی وہ پلی بارگین کرنے کی پوزیشن میں رہ گیا ہے اور یوں وہ مکمل طور پر کولیپس کر جاتا ہے۔کاروباری طبقہ کو کسی بھی صورت کریمینل پروسیڈنگ کے قوانین کے تحت ٹرائل نہ کیا جائے۔ کاروباری طبقہ کے لین دین معلاملات کو سول کورٹس میں چلایا جائے اور ان میں سے بڑے کیسز کے لئے سپیشل سول کورٹس قائم کی جائیں۔
نئی ترمیم کے مطابق نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ریکور کی گئی رقم ایک ماہ کے اندر قومی خزانے میں جمع کروانے کی پابند ہے۔ اب پرائیویٹ سیکٹر میں جن لوگوں سے یا جن کمپنیز سے رقم لی جاتی ہے وہ ظاہر ہے گورنمنٹ کے خزانے میں جمع نہیں کروائی جا سکتی اور نہ ہی ابتداً لوگوں کو لوٹائی جا سکتی ہے، کیوں کہ اس میں لوگوں کے کلیمز ابھی تصدیق کے مراحل میں ہوتے ہیں۔ ایک کاروباری فرد یا کمپنی سے جب نیب پلی بارگین کے ذریعے رقم لیتی ہے تو یہ کمپنی کو بھی دیوالیہ کرنے کے مترادف ہوتا ہے، وہ فرد یا کمپنی تو پلی بارگین اس لئے کرتی ہے کہ اس کے ذریعے اپنے کاروبار اور ساکھ کو بچانا چاہتے ہیں۔ اب نیب رقم لینے کے بعد درخواست گزاروں کو نہیں دے سکتی کیوں کہ معاملہ ابھی عدالت میں زیر سماعت ہوتا ہے، یا بقیہ اقساط نے ابھی آنا ہوتا ہے۔ یہ سارا عمل بسا اوقات ٹرائل کی تاخیر یا بقیہ اقساط نہ آنے کی صورت میں سالہا سال تعطل کا شکار رہتا ہے۔ اور نتیجتاً وہ رقم نہ تو لوگوں کے کام آتی ہے اور نہ ہی اس کمپنی کے جس نے یہ ادا کی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر مشہور کیس مفتی احسان مضاربہ کیس سے نیب نے پچاس کروڑ روپیہ وصول کیا اور بعد ازاں مفتی احسان اور اس کی ٹیم کو جیل بھی بھیج دیا گیا۔ اب اس معاملے کو چار سال بیت چکے اس دوران اگر اس رقم سے مفتی احسان کاروبار کرتے رہتے تو یقیناً ان چار سالوں میں اپنے ذمہ تمام قرض کو ادا کر چکے ہوتے۔ رقم لوگوں کو نہ ملی اور مفتی احسان بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اگر یہ معاملہ اس طرح چلتا کہ نیب انکوائری کرتا رہتا اور انکوائری کے دوران مفتی احسان کے کاروبار کو بند نہ کیا جاتا اور اگر انکوائری ختم ہونے پر واجبات کا فیصلہ ہو جاتا اور مفتی احسان سے شیڈول لے لیا جاتا تو یقیناً تمام لوگوں کو ادائیگی بھی ہو جاتی اور مفتی احسان کا کاوربار بھی چلتا رہتا۔ اور سینکڑوں خاندان معاشی طور پر مفلوج نہ ہوتے۔
پوری دنیا میں ایک مسلمہ اصول ہے کہ کاروباری افراد کے خلاف کسی قسم کی انکوائری کی صورت میں ان کو گرفتار نہیں کیا جاتا کیوں کہ ان کی گرفتاری نہ صرف ملکی معیشت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہوتی ہے بلکہ ان کے خاندان اور ان سے وابستہ سینکڑوں خاندانوں کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔ کسی بھی کاروباری فرد یا ادارے کے خلاف انکوائری کا طریقہ کار کسی قسم کے خوف و ہراس اور گرفتاری کے بغیر ہونا چاہئیے۔ تا کہ کوئی فرد یا ادارہ ہر قسم کے دباﺅ کے بغیر آزادانہ طور پر اس معاملے کو بھی فیس کرے اور اس کے ساتھ اپنے کاروبار کو بھی جاری رکھے اور انکوائری کے اختتام پر اگر اس کے ذمہ کوئی واجبات ہیں تو وہ اس کو آسانی سے ادا کرنے کے قابل ہو۔ کیوں کہ اس کو پابند سلاسل کرنے سے اس کا کاروبار تباہ ہو جاتا ہے اور وہ ادائیگی کے قابل بھی نہیں رہتا۔ کاروباری افراد کے جھگڑوں یا کرائسز کو ڈیل کرنے کے لئے arbitration سینٹرز یا کرائسز مینجمنٹ سینٹرز یا بزنس سپورٹس سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کسی بھی قسم کے معاملے کو ایسے سینٹرز میں ڈیل کیا جائے اور معاملے کو غیر جانب داری اور باریک بینی سے جائزہ لے کر طےکیا جائے اور دونوں فریقین کو اپنی صفائی کا پورا موقع دیا جائے اور بعد ازاں فائنل فیصلہ پر عمل درآمد نہ کرنے والے فریق کے خلاف فوجداری یا کوئی بھی کارروائی عمل میں لائی جائے تو یہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہو گا۔
اس ضمن میں ایک اور کیس ہے جس میں فارما سوٹیکل کمپنیز کو جسطرح نیب نے ڈیل کیا وہ اس انڈسٹری کے مالکان کو Discourage کرنے اور انڈسٹری کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس انڈسٹری کے Tax payer مالکان کو گرفتار کر کے ان سے پلی بارگین کروائی گئی اور انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے مہنگی ادویات فروخت کیں۔ سوال صرف ایک ہے کہ نیب نے جو ان سے ایک ارب روپیہ بصورت پلی بارگین لیا وہ ایک ارب کہاں جائےگا؟ کہاں خرچ ہوگا؟ یہ رقم اصلاً وہ رقم تھی جو عام آدمی نے ادویات خرید کر اپنی کمپنیز کو دی اور ان کمپنیز سے نیب نے لے لی۔ اگر یہ الزام سو فیصد درست بھی تھا تو اس کا طریقہ کار یہ مناسب نہیں جو اختیار کیا گیا۔ اس کا حل یوں بھی ممکن تھا کہ جس کمپنی نے جس قدر پیسہ مہنگی ادویات کی صورت میں کمایا ان کو پابند کیا جاتا کہ وہی ادویات اب اتنی مقدار اور معیار میں سستی فروخت کریں۔ نتیجتاً وہ رقم جو انہوں نے کمائی تھی اس کے برابر رقم کا ڈسکاﺅنٹ پبلک کو ملتا اور زیادہ تر وہی لوگ ان ادویات کو سستا خریدتے جنہوں نے پہلے مہنگی ادویات خریدی تھیں۔ یوں ایک نظامکے تحت وہ رقم دوبارہ پبلک کے پاس آ جاتی۔
دوسری صورت یہ تھی کہ واجبات کا فیصلہ ہو جانے کے بعد جو رقم طے ہوتی اس رقم سے پبلک ہیلتھ سیکٹر میں یا تو ہیلتھ یونٹ بنائے جاتے یا پہلے سے موجود ہسپتالوں کی صورت کو اپ گریڈ کیا جاتا۔ اور عوام کو اس رقم کا فائدہ ملتا۔ مگر نیب کے پاس اس رقم کا جانا سمجھ سے بالا تر ہے۔ اور حتٰی کہ نیب کے ذریعے وہ رقم قومی خزانے میں جانا بھی سمجھ میں نہیں آتا۔
فارماسوٹیکل کمپنیز نے اگر 2007ءمیں مہنگی ادویات فروخت کی تھیں تو جو رقم انہوں نے حاصل کی۔ یقیناً وہ رقم ان کمپنیز نے بزنس میں انویسٹ کر دی ہو گی۔ اور اگر انہی کمپنیز کو گرفتار کر کے پلی بارگین کی جائے تو یک دم ایک بڑی رقم کاروبار سے نکالنے کی وجہ سے لازماً ان کے بزنس تباہ ہوئے ہونگے جو کہ ملک کے لئے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ جس کا اندازہ شاید آج نہ لگایا جا سکے۔ لیکن مستقبل قریب میں اس کے نقصانات سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ اس کی وجہ سے بہت سی کمپنیز کرائسز میں آجائیں گی اور ان کی بقا ممکن نہیں۔ بہت سی کمپنیز discourage ہو کر لپیٹ دیں گے اور بہت سارے دوسرے ملکوں میں شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیں گے اور یوں غیر محتاط رویہ ایک بڑے سیکٹر کو تباہ کرنے کا باعث بنے گی۔ نیب نے صرف چند کمپنیز سے ایک ارب لے لیا یقیناً وہ اتنا اچھا response دیکھ کر ہو سکتا ہے مزید کمپنیز پر یلغار شروع کردیں اور ایسی صورت میں یہ سیکٹر مکمل طور پر تباہی کا شکار ہو سکتا ہے۔ گورنمنٹ کو اس طرف فوری توجہ دینا چاہئیے اور نیب کو اس عمل سے فوری طور پر روک دینا چاہئیے۔