مئی کا مہینہ اہل کراچی کیلئے کبھی خوشی کی خبر لے کر نہیں آیا تھا، 12مئی 2007ءکو کراچی میں شہریوں کے قتل عام کو اِس برس آٹھ سال مکمل ہوگئے تھے، اس سانحے کی آٹھویں برسی خیریت سے گزرنے پر شہریوں نے بھی سکھ کا سانس ہی لیا تھاکہ اگلے روز تیرہ مئی کو اُس وقت ایک بار پھر کراچی میں دہشت اور خوف کے سائے گہرے ہوگئے جب اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی بس پر فائرنگ سے 45 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، دہشتگردی کا یہ واقعہ صفورا چورنگی کے قریب پیش آیا اور یوں اسے سانحہ صفورا کہا جانے لگا۔جاں بحق ہونے والوں میں 27 مرد اور 16 خواتین شامل تھیں۔ اسماعیلی برادری پر اگرچہ یہ کوئی پہلا حملہ نہیں تھااوربلوچستان کے علاقے میں اِس طرح کے کئی واقعات پہلے بھی پیش آچکے تھے، لیکن کراچی جیسے شہر میں بس کو روک کرایک مخصوص مکتبہ فکر کے افراد کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارنے کی یہ پہلی واردات تھی، جس نے سیکورٹی اداروں کو بھی گھماکر رکھ دیا۔جائے وقوع سے تفتیشی ٹیم کو کچھ پمفلٹس بھی ملے جن میں اگرچہ براہِ راست اس حملے کا تو ذکر نہ تھا لیکن یہ ضرور کہا گیا کہ دولتِ اسلامیہ کا آغاز ہو چکا ہے، یوں اس واقعہ کے بعد ملک میں پہلی بار شدت پسند تنظیم داعش کا نام سامنے آیا، جس کے بعدملک میں داعش کی موجودگی کے بارے میں سوالات اٹھائے جانے لگے، لیکن ذمہ دار ادارے پاکستان میں داعش کی موجودگی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہی رہے۔ اس کیس کی تفتیش کے دوران سیکورٹی ادارے جلد ہی سانحہ صفورا میں ملوث ملزموں تک پہنچ گئے، جن سے تفتیش سے پتہ چلا کہ سانحہ صفورہ میں ملوث ملزمان خود کو دولت اسلامیہ کہنے والی کالعدم جماعت کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔سانحہ صفورا میں 25 افراد کا گینگ ملوث تھاجن میں سے 14 کی شناخت کرکے آٹھ افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا ۔گرفتار کیے جانے والے ملزمان نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے لیے بھی ایک فہرست تیار کر چکے تھے۔
سانحہ صفورا غالبا پاکستان میں داعش کی پہلی کارروائی تھی اور یہ داعش کا ”خوف“ ہی تھا کہ سانحہ صفورا کی تفتیش بڑی جاندار بنیادوں پر کی گئی ، کڑی سے کڑی ملتی چلی گئی اور ملزمان ایک ایک کرکے گرفتار ہوتے چلے تھے۔ اس سانحہ کی تفتیش کرنے والی انسداد دہشت گردی پولیس نے شہر میں داعش کی حمایتی خواتین کا ایک گروہ بھی پکڑا جو خواتین کی ذہن سازی اور چندہ اکٹھا کرنے کے علاوہ شدت پسندوں کی شادیوں کا انتظام بھی کرتا تھا، انسداد دہشت گردی پولیس کے مطابق خواتین کے اس نیٹ ورک کی سرپرستی صفورا بس حملے کے مرکزی ملزم سعد عزیز اور سہولت کار خالد یوسف باری کے خاندان کی خواتین کرتی تھیں اور شہر کی 20 سے زائد صاحب حیثیت خواتین دہشت گرد تنظیموں کو زکواة، خیرات اور چندے کی صورت میں فنڈز فراہم کرتی تھیں۔ اس گروہ کو صاحب حیثیت افراد کی مالی حمایت ہی حاصل نہ تھی بلکہ یہ لوگ خود بھی کھاتے پیتے اور پڑھے لکھے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ سانحہ کا مرکزی ملزم سعد عزیزخود پڑھا لکھا نوجوان جبکہ مالی معاونت کے الزام میں گرفتار خالد یوسف پی آئی اے کا سابق ملازم تھا۔ اب حال ہی میں گرفتار کیا جانے والا نجی یونیورسٹی کا وائس چانسلر اور سانحہ صفورا کے ملزمان کا سہولت کار عادل مسعود بٹ امریکہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صاحب حیثیت شخص بتایا جا رہا ہے۔ عادل مسعود نے 1994 میں کالج آف اکاو¿نٹنسی اینڈ مینجمنٹ سائنس کی بنیاد رکھی تھی اور اِس ادارے کی تین برانچوں میں دو ہزار سے زائد طالبعلم زیر تعلیم ہیں۔
یہ داعش آخر ہے کیا؟ دراصل داعش کے معنی الفاظ کے اعتبار سے دولت اسلامیہ عراق و شام کے ہیں، کیونکہ اس گروہ کی ابتدا شام میں پیدا ہونے والے بحران کے بعد ہوئی،کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کے لوگ پہلے القاعدہ میں شامل تھے ، لیکن پھر اندرونی اختلافات کے بعد القاعدہ سے جدا ہوگئے، شام میں جاری محاذ پر انہوں نے ایک اور تنظیم کی بنیاد رکھی جسے النصر فرنٹ کانام دیا گیا اور پھر بعد میں اس گروہ سے خود کو جدا کر کے ایک اورنام یعنی ”داعش“ نام رکھ لیا گیا۔بظاہر داعش اسلامی احکام کے اجرا پر تاکید کرتی نظر آتی ہے،لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔عراق کے بعد شام میں اس تنظیم کی عسکری کامیابیوں اور وسائل کی بھرمار نے چھوٹے چھوٹے دھڑوں میں تقسیم شدت پسندوں کو داعش کی جانب راغب کیا، اور یوں آج اس تنظیم کے وسیع علاقہ، لڑاکا طیارے، جدید جنگی اسلحہ، تیل کے ذخائر اور پچاس ہزار سے زائد جنگجو موجود ہیں۔
سانحہ صفورا سے پہلے پاکستان میں جب بھی شدت پسندی کا تذکرہ کیا جاتا تھا تواس کے ساتھ ہی مدارس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کہا جاتا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی کے فروغ میں مدارس کا بڑا کردار ہے،لیکن پڑھے لکھے نوجوانوں کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے بعد اب محض مدارس ”مجرم“ نہیں رہے۔ بالخصوص القاعدہ اور داعش سے تعلق رکھنے والے ملزمان کے اقرار جرم نے دہشت گردی اور دہشتگردوں کا نیا روپ بھی دکھادیا ہے۔ ایک جانب اگر سانحہ صفورا کے بعد اب پاکستان میں ”داعش“ کا نام بھی پوری شدومد سے لیا جانے لگا ہے تومدارس کے بعد دیگر کالجز اور جامعات پر بھی چھاپے پڑنے لگے ہیں۔
قارئین کرام!! داعش کی عراق اور شام میں کامیابیوں کے بعد خطے کے دیگر ممالک جہاں کسی ناں کسی حوالے سے شدت پسند تنظیمیں پہلے سے موجود تھیں، ان ممالک میں داعش کے ابھرنے کے خدشات ظاہر کیے گئے لیکن کسی بھی ملک نے اس پر توجہ نہ دی اور یہ ممالک داعش کے نام سے ہی دھوکا کھاگئے کہ داعش تو صرف عراق اور شام کے علاقوں تک محدود رہے گی، لیکن حالیہ چند مہینوں کے دوران داعش کی عالمی سطح پر کارروائیوں کے بعد اب گویا تمام ملک جاگنے لگے ہیںاور داعش کے خلاف ایک بڑا عالمی اتحاد بنتا نظر آرہا ہے،لیکن سانحہ صفورا کی تفتیش میں حقائق سامنے آنے کے بعد پاکستان میں کوئی عملی اقدام کرنے کی بجائے ایک نعرہ ہی سننے کو ملتا ہے کہ ”داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دینگے“۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں شدت پسند تنظیموں کی پہلے ہی کوئی کمی نہیں، ایسے میں داعش بھلا کہاں فٹ ہوگی؟ لیکن یہ کہتے ہوئے بزعم خود افلاطون بنے حکام یہ بھول جاتے ہیں جن شدت پسند تنظیموں کو کالعدم قرار دے کر وہ مطمئن ہوجاتے ہیں، وہی تنظیمیں نام بدل کر دوبارہ میدان میں آجاتی ہیں۔ قوم کو باتیں تو بہت سنائی جاتی ہیں لیکن پچاس ہزار سے زائد افراد کی لاشیں اٹھانے والوں کو یہ بھی تو بتایا جائے کہ شدت پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ٹھوس اور عملی اقدام کیاکیا گیاہے؟ آخر ہم کب تک شترمرغ بنے رہیں گے؟