سیدہ عابدہ حسین پاکستان کی سیاست کا اہم، منفرد اور غیر متنازعہ کردار ہیں۔ انکے بارے میں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ وہ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئیں، والد کرنل سید عابد حسین کو بڑی جاگیر وارثت میں ملی جو ان کی واحد اولاد عابدہ حسین کو ٹرانسفر ہو گئی۔ سیدہ عابدہ حسین کے جیون ساتھی فخر امام کا انتخاب والدین نے کیا ۔ تاہم لڑکی کی مرضی بھی اس میں شامل تھی۔ فخر امام نے اپنی تعلیم لندن اور امریکہ میں مکمل کی جبکہ عابدہ حسین لاہور سے او لیول کرنے کے بعد سوئٹزر لینڈ چلی گئی تھیں۔ ان کا سوئٹزر لینڈ تعلیم کےلئے جانے کا خصوصی پس منظر ہے۔ عام خواتین کے برعکس سیدہ عابدہ حسین اپنے سن پیدائش کو چھپاتی نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ قیام پاکستان سے ایک سال قبل پیدا ہوئیں۔ 62ءمیں وہ اپنی خالہ ثروت سے ملنے مری گئیں جہاں صدر جنرل ایوب خان کے چھوٹے صاحبزادے طاہر ایوب خان اپنی بہن جمیلہ اور بہنوئی کے ساتھ چلے آئے۔ طاہر لاہور سے آئی لڑکی میں دلچسپی لے رہا تھا اور گفتگو کےلئے بے تاب نظر آتا تھا۔ اس نے واپسی پر اس لڑکی سے شادی کےلئے اپنے والد سے بات کی۔ صدر ایوب خان نے گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ ملک امیر محمد خان کو کرنل عابد حسین کے گھر لڑکی کا ہاتھ مانگنے کےلئے بھیج دیا۔ کرنل عابد اور نواب کالا باغ بے تکلف دوست تھے۔ کرنل صاحب نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ اپنی اکلوتی بیٹی کا رشتہ اپنے خاندان میں کریں گے۔ یہ انکار ایوب خان کو گراںگزرا۔ فیملی فرینڈز نے کرنل عابد حسین کو مشورہ دیا کہ وہ بیٹی کو تعلیم کےلئے سمندر پار بھجوا دیں۔ اس پر کرنل عابد حسین اور ان کی بیگم اپنی اکلوتی اولاد کو سوئٹزر لینڈ کی درس گاہ میں چھوڑ آئے۔ یہاں سے مزید تعلیم کےلئے عابدہ کو اٹلی بھی جانا پڑا۔ فوج نے اکبر بگٹی کی ہمشیرہ کو ڈیرہ بگٹی میں قید کر دیا۔ نواب اکبر خان بگٹی کرنل عابد کے پاس آئے کہ وہ نواب ابر محمد خان سے رہائی کی بات کریں۔ کرنل عابد نے بگٹی صاحب کو گلبرگ کے گھر میں بٹھایا۔ خود گورنر ہاﺅس گئے اور آدھے گھنٹے میں واپس آگئے۔ انہوں نے نواب کالا باغ سے کہا، اگر اکبر بگٹی گورنر ہوں ۔ وہ آپ کی ہمشیرہ کو قید کر دیں تو آپ پر کیا گزرے گی۔ نواب صاحب نے جواب دیا بگٹی صاحب کے ڈیرہ بگٹی پہنچنے سے قبل انکی ہمشیرہ گھر پہنچ چکی ہو گی۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔پاکستان میں 1972ءمیں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی ۔ اُس وقت عابدہ حسین پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ایم پی اے تھیں۔ کانفرنس میں شامل کئی غیر ملکی سربراہان کےلئے انکے شایان شان رہائش گاہیں درکار تھیں۔ ان میں ایک گھر عابدہ حسین کا بھی تھا۔ مزید برآں اس خاندان کے مزید تین گھر بھی حاصل کئے گئے۔ زور جبر سے نہیں مالکان کی رضامندی سے۔ یہ سب کچھ اور مزید بہت کچھ سیدہ عابدہ حسین نے اپنی بائیو گرافیE POWER FAILUR میں بیان کیا ہے۔ 707 صفحات کی کتاب رنگین اور بلیک اینڈ وائٹ تصاویر سے مزین ہے۔ کتاب میں بنیادی طور پر پاکستان کی سیاست پر بات کی گئی ہے تاہم سیاسی کلچر کے ساتھ ساتھ مذہبی، معاشی اور سماجی کلچر بھی اس انگریزی کی کتاب کا خاصہ ہے۔
محترمہ عابدہ نے سیاست کی ابتدا پاکستان پیپلز پارٹی سے کی۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے تو عابدہ حسین کی دعوت پر تشریف لائے۔انکاریڈ کارپٹ استقبال ہوا تاہم بھٹو صاحب کی شاید یہ جاگیر دارانہ سوچ تھی کہ ایسے سوال کئے جس سے تقریب کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ بھٹو صاحب نے پوچھا کہ گھر کتنے رقبے پر ہے۔ بتایا گیا 4 ایکڑ پر، اس پر بھٹو نے کہا لاڑکانہ میں ہمارا گھر اس سے بڑا ہے۔ پھر پوچھا آپکے داداکی جائیداد کتنی تھی، اسکے جواب میں بھی کہا میرے دادا کی جائیداد سے کم ہے۔ ایک موقع پر بھٹو صاحب نے عابدہ حسین کو بُلا کر اپنی حکومت کے مثبت اور منفی پہلوﺅں کی نشاندہی کرنے کو کہا۔ مثبت پہلو تو بے شمار تھے، منفی پر محترمہ نے مصلحت سے کام لیا۔بقول محترمہ کے این اے پی حکومت کے خاتمے کاانہوں نے ذکر نہیں کیا۔ بھٹو صاحب روس کے دورے پر گئے تو عابدہ حسین بھی ساتھ تھیں۔ اس دورے میں بے نظیر بھٹو نے لندن سے آ کر شامل ہونا تھا۔ بھٹو صاحب عابدہ حسین کو بے نظیر سے ملوانا چاہتے تھے۔ اس دورے میں وزیراعظم کو سیگن سے بھٹو صاحب نے عابدہ حسین کا تعارف کرایا تو کوسیگن(kosygin) نے عابدہ حسین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ” آپ اس پیاری لڑکی کو یہیں چھوڑ جائیں تاکہ یہ روس کا دل جیت سکے اس سے پاک روس دوستی مستحکم ہو گی۔“ بھٹو صاحب نے کہا کہ ان کوانکی معصومانہ شکل و صورت کی وجہ سے نہیں ان کی پارٹی اور ملک کیلئے خدمات کے باعث وفد میں شامل کیا ہے۔
جنرل ضیاالحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی الیکشن کرائے۔ ان میں بیگم عابدہ ضلع کونسل جھنگ کی چیئرمین منتخب ہوئیں۔ فیصل آباد کے میئر نذیر کوہستانیا تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ انہوں نے میئر کا عہدہ خریدا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے بعد جنرل ضیاالحق نے اپنی صدارت کو جائز قرار دینے کیلئے ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا اور جیت کیلئے سرگرم ہو گئے۔ ڈپٹی مارشل لاءایڈمنسٹریٹر میجر جنرل غلام محمد نے فیصل آباد میں چیئرمین ضلع کونسل شورکوٹ اور ٹوبہ کو طلب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ریفرنڈم کے حق میں 80 فیصد ووٹنگ ہونی چاہئے۔ اپنے لیکچر کے اختتام پر میئر نذیرکوہستانیا کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا کہ میں 85 فیصد ووٹ ڈلواﺅں گا۔ اس کے بعد ڈپٹی میئر صدیق سالار تھے انہوں نے کہا 90 فیصد ووٹ میرے علاقے سے جنرل ضیاالحق کی حمایت میں پڑینگے۔ ٹوبہ کے چیئرمین ضلع کونسل نے 100 فیصد کی یقین دہانی کرائی۔ عابدہ حسین کی باری آئی تو انہوں نے کہا سو فیصد سے آگے چونکہ کوئی فگر نہیں جس کی میں یقین دہانی کرا دوں۔ چونکہ جنرل ضیاالحق کے مدمقابل کوئی امیدوار نہیں، اس لئے ووٹ کاسٹنگ 20 فیصد تک ہو سکتی ہے۔ اس پر پیچھے بیٹھے ایک فوجی افسر نے کہا خدا کی قسم اس خاتون کو شوٹ کر دینا چاہئے۔ اس پر عابدہ حسین نے احتجاج کیا۔ محترمہ کو توقع تھی کہ میجر جنرل اس افسر کو معذرت کےلئے کہیں گے لیکن کمانڈر نے صرف دھمکی آمیز زبان استعمال کرنے والے کو کمرہ چھوڑنے کیلئے کہنے پر ہی اکتفا کیا۔
عابدہ حسین جس ملک میں وزٹ کےلئے گئیں، تعلیم کیلئے یا امریکہ میں سفیر رہیں وہاں کے حالات بڑی مہارت سے بیان کرتی ہیں۔ بھٹو صاحب کے ساتھ ماسکو گئیں تو وہاں پڑنے والی سردی کو اس انداز سے بیان کیا کہ پڑھنے والے کو بھی ٹھنڈک کا احساس ہونے لگتا ہے۔ فخر امام جنرل ضیاالحق کی خواہش کے برعکس غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں منتخب اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد انکے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی ائر مارشل نور خان فخر امام کی جیت کیلئے پُرامید تھے۔ اس موقع پر عبدالحمید جتوئی نے کہا کہ سرحد، بلوچستان اور سندھ کے ارکان ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ جنرل ضیاالحق نے مداخلت کی تو پنجاب کے ارکان ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔ بالآخر ایسا ہی ہوا۔ کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی جس کی قیمت باٹا کی طرز پر 2195 روپے رکھی گئی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38