اقبال اور اجتہاد
اگر ہم تعصب و تنگ نظری کو بالائے طاق رکھ کر برصغیر کی گزشتہ صدی کی تاریخ کے اوراق پر عمیقانہ نگاہ ڈالیں تو ہمیں اس بات کا اقرار کرنا پڑے گا کہ اس سرزمین نے علامہ اقبال سے بڑھ کر کوئی شخصیت پیدا نہیں کی۔ عمومی طورپر لوگ ٹیگور کو علامہ اقبال سے بڑا شاعر کہتے ہیں مگر شاید موازنہ کرتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ٹیگور فقط ایک شاعر جبکہ علامہ اقبال صاحب مجموعہ وظائف و اوصاف و کمال تھے۔ علم و حکمت‘ شاعری سیاسی شعوری‘ فلسفہ و اللھیات اور سائنس‘ وہ کون سا میدان ہے جس میں علامہ نے اپنا لوہا نہیں منوایا۔آپ جب شاعری کرنے پر آئے تو قرآن کی آیات کی تفسیر کر ڈالی۔
سیاست کی بات کرنے لگے تو اقوام و ملل کو انقلاب ایران کی نوید سنا دی۔ اسلام کے سیاسی نظام کا تجزیہ کرنے پر آئے تو مشرق سے لیکر مغرب تک بسنے والے مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے مسلمانوں کو امت کا سبق سکھا کر ایک لڑی میں پرو دیا اور جب اہل مغرب کی درسگاہوں سے اسلام کو دقیانوسی مذہب ہونے کی صدا سنی تو Reconstruction of Religious Thought in Islam جیسی مختصر مگر انتہائی جامع کتاب لکھ کر امت محمدیہ کو اجتہاد جیسا علم عطا کرکے زمانہ¿ جدید کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھا دیا۔Renaissance اور صنعتی و علمی انقلاب کے بعد اہل یورپ نے دانستہ طورپر انسانیت کو دو گروہوں Civilized or Uncivilized میں تقسیم کرکے رکھ دیا۔ اس بے ہودہ تقسیم کا مقصد پوری انسانیت کو بالعموم اور عالم اسلام کو باالخصوص زچ کرنا تھا۔ اہل یورپ نے مسلمانوں کو یہ بات باور کرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ وہ ایک غیر منطقی اور دقیانوسی مذہب کے پیرو ہیں اور اسلام جدید تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ اس بات کو مسلمانوں کے اذہان میں نقش کرنے کیلئے اہل یورپ نے سب سے پہلے مستشرقین اور مورخین کے ذریعے مسلمانوں کی تاریخ کو خلط ملط کرکے پیش کرنا شروع کیا۔ دوئم اپنے علماءاور سائنسدانوں کی بدولت اسلامی احکامات و تعلیمات کو غیر سائنسی قرار دیکر مسلمانوں کے عقائد و اعتماد کو متزلزل کرنا چاہا۔ اس سارے معاملے کی اہمیت و نزاکت کو سمجھتے ہوئے اہل یورپ نے جان بوجھ کر اسلامی تعلیمات و احکامات کے مآخذ ”وحی“ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اہل یورپ کے دانشوروں کا خیال تھا کہ وحی علم کے ذریعے کے طورپر استعمال نہیں کی جا سکتی۔ علامہ اقبال نے اہل یورپ کے ان نظریات کو خیال خام سے تعبیر کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات اور وحی کے ذریعے علم ہونے کے حق میں اپنی کتاب میں دو باب نمبر :
1۔ Knowldge and religious experiences
2۔ The philosophical test of the revalation of religions experience.
کے عنوان سے لکھے اور ان ابواب میں یونانی و جدید فلسفہ کی مدد سے وحی کو علم کا ایک مو¿ثر ذریعہ ثابت کیا۔ انہوں نے فلسفہ و اسلام میں بڑھتی ہوئی خلیج کو بھی کم کیا اور مسلمانوں کو باور کرایا کہ فلسفہ بذاتِ خود غیر اسلامی علم نہیں ہے بلکہ فلسفی اس کو غیر شرعی انداز میں پیش کرکے اسلام سے دور کر دیتے ہیں۔ انہوں نے انتہائی محنت شاقہ کے بعد مسلمانوں کو علوم دنیوی کی جانب راغب کیا اور انہیں قائل کیا کہ مسلمانوں کا مستقبل اس بات میں مضمر ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو نئے علوم و فنون کے سیکھنے کیلئے وقف کر دیں۔اس وقت کے مسلمان بالعموم اور ہندوستان کے مسلمان بالخصوص سینکڑوں سال پرانی روایات اور تقلید کا طوق اپنے گلوں میں سجائے ہوئے تھے اور انہیں علوم سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔
اس بات کو دلیل بنا کر اہل یورپ نے مسلمانوں کے احساسات کو ٹھیس پہنچانے کیلئے دوسری ترکیب یہ لگائی کہ انہوں نے دین اسلام کو بحیثیت مذہب دقیانوسی قرار دیدیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی تعلیمات آج سے 1400 سال پہلے کے زمانے کیلئے تو ٹھیک ہو سکتی ہے‘ مگر آج کے زمانہ¿ جدید کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتیں۔
اہل یورپ کے اس استدلال کے منطقی رد کیلئے علامہ اقبال نے نہ صرف اہل یورپ بلکہ مسلمانوں کو بھی یہ بات باور کرائی کہ اس بات میں کوئی شک نہیں‘ اسلام کے عقائد 1400 سال پرانے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ اسلام نے اجتہاد کا دروازہ بھی کھول رکھا ہے۔ علامہ نے اپنی شاعری‘ خطبات اور کلام سے مسلمانوں میں تحریک و جذبہ پیدا کیا اور وہ انہیں دقیانوسی خیالات‘ نئی تقلید کے تعفن زدہ ماحول سے نکال کر علم و عرفان کی نئی دنیا دکھائی۔ انہوں نے اسلامی قوانین کے پانچ مآخذ قرآن‘ حدیث‘ قیاس‘ اجتماع اور اجتہاد پر بالترتیب تفصیل سے بحث اور مسلمانوں کو سمجھایا کہ اگر وہ قرآن‘ حدیث‘ قیاس اور اجماع کو استعمال کرتے ہوئے اجتہاد کریں تو آج کے تمام مسائل اور سکوت کا حل بآسانی نکل سکتا ہے۔علامہ اقبال کی اسی دوراندیشی‘ عالمانہ و ترقیانہ سوچ کی بدولت ہی انقلاب ایران کے معمار ڈاکٹر علی شریعتی نے انہیں اپنا استاد امام مانا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ”اقبال اور ہم“ میں علامہ صاحب کو مسلمانوں کیلئے آفتاب نور قرار دیا ہے اور لکھا کہ اگر اقبال نہ ہوتے تو عالم اسلام کبھی بھی جمود اور تعطل کی دنیا سے نکل کر ترقی کی راہوں پر گامزن نہ ہو پاتا۔