علامہ اقبال کے تصور قومیت کا جائزہ لیں تو ہماری پارلیمنٹ کی جنگ یمن کے حوالے سے ایک فریق کا ساتھ دینے کے بجائے غیر جانبداررہ کر معاملہ مذاکرات اور افہام تفہیم سے حل کرانے کی قرارداد اقبال کی تعلیمات کے عین مطابق ہے جو گو کہ اقبال کے تصور قومیت کو تو سامنے رکھتے ہوئے تیار ، پیش اور منظور نہیں کی گئی تاہم یہ اصولی تھی۔ جدید مغربی سیاسی افکار میں وطنیت اور قومیت قریب قریب ہم معنی ہیں۔ اقبال نے وطنیت کے سیاسی تصور کو جس بنا پر رد کیا تھا وہی وجہ مغربی نظریہ قومیت سے ان کی بدظنی کی بنیاد بنی ان کا خیال تھا کہ قومیت کی ایک سیاسی نظا م کی حیثیت قطعاً غیر انسانی اقدار پر مشتمل ہے۔ اور اس کی بنیاد پر ایک انسانی گروہ دوسرے انسانی گروہ سے کٹ کر رہ جاتا ہے اور بلاوجہ تنازعات کی بنیاد پڑتی ہے جو بعض اوقات قیمتی انسانی جانوں کے اتلاف اور بلاخیز تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ اقبال قومیت کے اس تصور کے خلاف ہیں جس کی بنیاد نسل، زبان یا وطن پر ہو کیونکہ یہ حد بندیاں ایک وسیع انسانی برادری قائم کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ انکی قومیت کے اجزائے ترکیبی وحدت مذہب، وحدت تمدن و تاریخ ماضی اور پر امید مستقبل ہیں۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے اسلام اسی ملت کی اساس ہے اور اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی اصول توحید خدا ملی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کا دوسرا رکن رسالت ہے اور یہی دو نوں اساس ملت ہیں، نہ کہ وطن جو جنگ اور ملک گیری کی ہوس پیدا کرتاہے۔ اس سلسلہ میں اقبال نے اپنے ایک مضمون میں یوں لکھا ہے۔”قدیم زمانہ میں ”دین“ قومی تھا۔ جیسے مصریوں، یونانیوں اور ہندیوں کا، بعد میں نسلی قرار پایا جیسے یہودیوں کا۔ مسیحیت نے یہ تعلیم دی کہ دین انفرادی اور پرائیوٹ ہے جس سے انسانوں کی اجتماعی زندگی کی ضامن ”سٹیٹ“ ہے۔ ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال اخوت کے قائل ہیں لیکن اسکی بنیاد اسلام پر رکھتے ہیں کیونکہ اسلام ضابطہ حیات ہے جسکے پاس وسیع انسانی مسائل کا حل موجود ہے وہ قومیت کو اسلام کے دائرہ میں اس لئے رکھتے ہیں کہ انکے نزدیک صحیح انسانی معاشرہ صرف اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے وجود میں آسکتا ہے۔ چنانچہ ان کے تصور قومیت کی بنیاد اسلامی معتقدات پر ہے۔اقبال نے کہا تھا....
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
جو لوگ اقبال کو اپنا رہنما اور مصور پاکستان مانتے ہیں، اس تصور کو لے کر قائداعظم محمدعلی جناح نے اسلامیانِ ہند کے لئے ایک الگ مملکت تخلیق کی وہ لوگ آج کس طرح اقبال کے قومیت کے تصور کو پسِ پشت ڈال کر ایک جارح کی مظلوم کے مقابلے میں مدد کا اعادہ کررہے ہیں۔ مجھے یہ اس لئے کہنا پڑ رہا ہے کہ پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد میں تو پاکستان کے غیر جانبدار رہنے پر زور دیا گیا ہے سعودی عرب اور دیگر ممالک کی طرف سے قرارداد کے بعد دباﺅ بڑھا تو ہمارے حکمران تو گویا لرزکے رہ گئے۔ سعودی وزیر مذہبی امور صالح بن عزیز نے پاکستان میں ڈیرے لگا لئے ۔انہوں حکومت پر زور دیا کہ وہ یمن میں زمینی کارروائی کے لئے اپنی افواج فراہم کرے ساتھ ہی اپنے نمک خواروں پر بھی کام کیا۔ایک فرقے کی پاکستان میں کل تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے اس نے پاکستان میں سعودی عرب کا ساتھ دینے کا اودھم مچا رکھا ہے۔ سعودی عرب کی سفارتکاری کی داد دینا پڑتی ہے کہ جو لوگ پارلیمنٹ میں یک زبان تھے کہ پاکستان یمن جنگ میں غیر جانبدار رہے گا وہ حکومت کو سعودی عرب کی ہر طور مددکرنے کو کہہ رہے ہیں۔ خود حکومت بھی دباﺅ میں آ گئی، وہ بھی قرار داد پر پچھتاوے کا اظہار کر رہی ہے۔ جہاں اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ تحریک انصاف اور پی پی پی اپنے موقف پر قائم ہیں۔ حکومت نے قرارداد پر قائم رہنے کے بجائے سعودی کی کاسہ لیسی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سعودی حکمرانوں کی ناراضی کم کرنے لئے شہباز شریف کو سعودی عرب روانہ کردیا۔ان کی واپسی پر وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیرصدارت شہباز شریف، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، معاون خصوصی طارق فاطمی، مسلح افواج کے سربراہوں جنرل راحیل شریف، ائرچیف مارشل سہیل امان، پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل محمد ذکاءاللہ، جوائنٹ چیفس سٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل راشد محمود نے سر جوڑ لئے۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کی ان بڑوں نے پارلیمنٹ کی قرارداد کے تحت سعودی عرب کے ساتھ تعاون کے طریقہ کار پر غور کیا۔ شرکاءنے خطے کے امن اور استحکام کیلئے حکومتی اقدامات اور سعودی عرب کے شانہ بشانہ چلنے کے عزم پر اطمینان کا اظہار کیا۔
پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔آپ اپنی تقریروں میں اقبال کی خودی اور خودداری کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں مگر جب خودداری کے عملی مظاہرے کا موقع آتا ہے تو ریال ضمیر کو سلا دیتے ہیں۔ یہ ریال تو آپ کے کام آئے اور آپ کی اولاد کے مستقبل کو تابناک کر رہے ہیںقوم کو ان سے کیا فائدہ ہے۔ قوم اور ملک پر رحم کریں۔ پاکستان تو خود دہشت گردی کی جنگ میں جل رہا ہے آپ پرائی جنگ کا حصہ بننے کے لئے بے تاب ہیںجو کم از کم اقبال کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ اگر ہو سکے تو یمن اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات ختم کرا دیں۔