چین کے صدر آج کل بھارت کے دورے پر گئے ہوئے ہیں۔ بھارت کے بعد انہوں نے پاکستان کا دورہ بھی کرنا تھا۔ اور یہ دورہ اس لحاظ سے بے حد اہمیت کا حامل تھا کہ چین اور پاکستان کے درمیان لامحدود سرمایہ کاری کے بہت سے معاہدوں پر دستخط ہونا تھے۔ ان میں سب سے اہم بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے تقریبا سات بڑے پراجیکٹ بھی شامل تھے اور گوادر پورٹ پر بہت سے ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ تاجکستان سے لیکر گوادر تک ریلوے ٹریک بچھانے اور جدید ترین ریلوے سروس شروع کرنے کا منصوبہ تھا۔ لیکن صد افسوس! کہ ہمارے ملک کے ”ضدی اور ہٹ دھرم ”لیڈروں“ کی ”حب الوطنی“ اور شاہراہ دستور پر مسلسل دھرنوں کے باعث چین کے صدر کو پاکستان کا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ علامہ طاہر القادری اور عمران خان کی ملک و قوم کیلئے ایسی ”خدمت“ اور ”محبت“ ہے جسے تاریخ ”سنہرے“ حروف میں لکھا جائے گا۔ علامہ صاحب اور عمران نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام ”روشن“ کر کے رکھ دیا ہے۔ عمران خان پر اب یہ کیفیت طاری ہو چکی ہے کہ وہ ذہنی طور پر خود کو پاکستان کا وزیر اعظم تصور کر رہے ہیں اور یہ احساس پادشاہی اس درجہ محکم و مستحکم ہو چکا ہے کہ وہ پولیس کو احکامات جاری فرما رہے ہیں کبھی وہ سرکاری ملازمین کو حکم دیتے ہیں کہ اپنی ڈیوٹی دینا بند کر دو۔ کبھی عوام کو کہتے ہیں کہ بجلی کے بل جلا دو، بنکوں سے اپنا پیسہ نکلوا لو، تارکین وطن کو آرڈر کرتے ہیں کہ اپنا پیسہ ہنڈی کے ذریعے پاکستان بھیجو! یعنی پوری قوم کو لاقانونیت اور ملک سے بغاوت کا درس دے رہے ہیں وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ہماری عوام باشعور اور ذمہ دار ہے اس لئے انکے احکامات کو پذیرائی نہیں ملی۔ اب تو انہوں نے چےف جسٹس کو آوازیں دینا شروع کر دیا ہے کیونکہ فوج نے صاف لفظوں میں غیرجانبداری کا اعلان کر دیا ہے اب عمران خان چےف جسٹس کو ”حکم“ دے رہے ہیں کہ ”ملک کو خانہ جنگی سے بچاﺅ“! با الفاظ دیگر ان کا مطلب یہ ہے کہ ”کس طرح دھر نے سے میری جان چھڑاﺅ“! لیکن وزیر اعظم کے استعفے والی چھپکلی تو انہوں نے خود منہ میں ڈالی ہے۔ نواز شریف کو بادشاہت کا طعنہ دینے والے عمران خان کا اپنا مزاج کسی بادشاہ اور ڈکٹیٹر سے کم نہیں۔ کیونکہ عمران خان میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی قوت ہی نہیں۔ وہ اپنے ہر فیصلے کو حرف آخر سمجھتا ہے اسی لئے تو جاوید ہاشمی جیسے سینئر اور اصول پرست ساتھی کو محض اختلاف رائے کی بنا پر پارٹی سے نکال دیا۔ہمارے محلے میں ایک بابا تھا جسے سب چاچا، چاچا کہا کرتے تھے یعنی وہ جگت چاچا تھا۔ چاچا ذہنی طور پر کھسکا ہوا تھا وہ تھا تو کچھ بھی نہیں لیکن خود کو شاعر بھی سمجھتا تھا گلوکار بھی اور حکیم بھی اسکے پاس روحیں بھی آیا کرتی تھیں۔ گرمیوں میں شام کے بعد ہمارے گھر کے سامنے گلی میں پانی کا چھڑکاﺅ ہوتا چارپائیاں بچھ جاتیں ابا جیؒ اپنا حقہ درمیان میں رکھتے اور پورے محلے کے بزرگ لوگ یعنی ابا جیؒ کے ہم عمر دوستوں کی چوپال سچ جاتی درمیان میں چاچا (جسے عرف عام میں ”بگڑﺅ“ کہتے تھے) بیٹھ جاتا اور پھر حقے کی نڑی منہ میں دبا کر ابا جیؒ عالم بالا سے روحوں کو بلاتے جو چاچا بگڑو سے ہم کلام ہوتیں۔ کبھی غالب کی روح آ رہی ہے جس کے ساتھ چاچا گائیکی کا مقابلہ کر رہا ہے کبھی استاد بڑے غلام علی خان کی روح آ رہی ہے جس کے ساتھ چاچا گائیکی کا مقابلہ کر رہا ہے علی ہذا القیاس رات دیر تک یہ شغل جاری رہتا اور سب اس قدر محفوظ ہوتے کہ کھانا پینا اور سونا سب بھول جاتے ان مقابلوں میں چاچے کو نذرانے بھی ملتے اور ہر روح کے مقابلے میں چاچے کو فاتح قرار دیا جاتا پھر یوں ہوا کہ ایک دن راز جب افشا ہوا کہ چاچے کو سب معلوم تھا کہ یہ روحوں کی آوازیں کون نکالتا ہے اور چاچا محض پیسوں کی خاطر پاگل بنا ہوا ہے تو سب کا مزا کرکرا ہو گیا عمران خان مجنوں بنا ہوا ہے کیونکہ گزشتہ چالیس دنوں سے مسلسل اسے لائیو کوریج مل رہی ہے جب میڈیا پر عمران خان کے ”جنون“ کی حقیقت آشکار ہو گی تو پھر کوئی عمران کی تقریروں کا نوٹس تک نہیں لے گا دیکھیں یہ سلسلہ کب تک ختم ہوتا ہے؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024