سیلاب ہنستے مسکراتے گھروں کو اجاڑ کر سمندر کی طرف بڑھ رہا ہے سیلابی ریلا اپنے ساتھ نہ جانے کیا کچھ بہا کر لے گیا ہے۔ فی الفور نقصان کا تخمینہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اور اس بات کا اندازہ لگانا بھی کہ ریلے میں بہنے والی سب سے قیمتی شے کیا تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سودوزیاں کا گوشوار ہ مرتب ہو کر سامنے آئیگا اور متاثرہ فریقین سرجوڑ کر نقصان پر گفتگو کریں گے۔ کوئی کانپتے ہونٹوں سے پیاروں کے بچھڑنے کا ذکر کریگا تو کوئی اپنا غم آنسوﺅں کی لڑیوں میں پروکر دل ویران میں لٹکائے گا۔
قوموں پر نامساعد حالات آتے ہیں۔ اقوام عالم میں بسنے والی کوئی بھی قوم ایسی نہیں۔ جو کسی نہ کسی وقت کسی ناگہانی افتادہ کا شکار نہ ہوئی ہو کسی قوم کے افراد نے جوانمردی، بہادری اور جرا¿ت کیساتھ افتادہ کا مقابلہ کیا تو کسی قوم کی قوت مدافعت کو افتادہ نے سلب کر لیا اور انکی سوچنے کی صلاحیت جام ہو گئی۔ مصیبتوں کا سامنا کرنے پر کسی قوم نے اپنے خیر و شر کے معیارات تبدیل کر لئے اور اپنے اعصاب پر قابو رکھ کر اپنی اجتماعی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے مستقبل میں اپنی سرزمین کو افتادوں کی چراہ گاہ بننے سے روک لیا۔ تو کوئی کوﺅں کی طرح کائیں کائیں کر کے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالکر بری الزمہ ہونے کی کوشش کرتا رہا لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جس قوم نے اپنے نظریہ، مسلک، اصول اور تہذیب کی حفاظت کی وہ امتحان کی ہر گھڑی میں کامیاب ٹھہری۔ وطن عزیز میں 67 سالوں میں 22 سیلابی ریلوں نے عوام کے جان و مال کو نگلا۔ لوگوں کی جمع پونجی اور جوان و لاغر زندگی کو لقمہ آب و خاک بنایا، شاداں و فرحاں شاموں کو تاریکی اور آنسوﺅں کے بستر پر شب بسری پر مجبور کیا ہمارے رنج و غم اور پریشانی کے سائے سے زمین کا سینہ بھی شق ہو گیا لیکن ہمارے حکمرانوں کے پتھر دل نہ پسیج سکے۔ حالانکہ حکمران ازل سے جانتے ہیں کہ ان کی رقص کرتی زندگی کا کل میزان عوام کی مزاحمت کے شعلوں سے کمزور تر ہے۔ اسکے باوجود وہ اپنے عوام کی پیٹھوں پر صبح و شام ظلم و جبر کے تازیانے برسانے سے باز نہیں آتے۔ 22 سیلابوں میں 40.55 ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ اگر ہمیں صاحب عقل حکمران میسر ہوتے تو وہ آوارہ روحوں کی مانند بھٹکنے کی بجائے کوئی ڈیم تعمیر کرتے۔ آبی ماہرین کی رپورٹ کے مطابق اتنی خطیر رقم سے 5 بڑے آبی ذخائر تعمیر کئے جا سکتے تھے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے عوامی و فلاح و بہبود کے کام کرنے کی بجائے اپنے مفاد کو مقدم رکھا۔ اب سیالکوٹ کے بارڈر سے لےکر دریائے چناب کے گرد و نواح میں سندھ تک آبادی ملیا میٹ ہوگئی ہے۔ تنکا تنکا جوڑ کر آشیانہ بنانے والوں کا سب کچھ بہہ گیا۔ گھر اجڑ گئے۔ مکانات پانی کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گئے عورتیں بیوہ، بچے یتیم اور بوڑھے ماں باپ بے سہارہ ہو گئے۔ اثاثہ لٹنے، جمع پونجی بہنے، فصلیں اجڑنے، گھر زمین بوس ہونے، جانور مرنے اور آنکھوں کے سامنے عوام کو پانی میں ڈوبتے دیکھنے کے بعد اگر حکمرانوں کا ضمیر جاگتا ہے تو پھر اس پر یوں ہی کہا جا سکتا ہے ہائے اس زدو پشیماں کا پشیماں ہونا۔ اس وقت لکھاریوں کے لفظ کسی بے رحم، سفاک اور ظالم و جابر حکمرانوں کے ضمیر کی طرح مر چکے ہیں۔ ہمارے لفظوں نے زندگی کی آب شاروں اور فواروں کے نیچے کبھی غسل نہیں کیا لیکن سیلاب کے عذاب کو دیکھ کر ہمارے فالج زدہ قلم بھی حرکت میں آگئے ہیں بوڑھے کسان کی دھاڑیں سن کر پتھر سے پتھر دل بھی پسیج گیا تھا؟ بوڑھے کسان نے جب لاہور کی طرف منہ کر کے کہا اے ضمیر فروشو! میرے بچوں کا لہو کتنے میں بیچا؟ میرے گھر اور فصلوں کی تباہی کا سودا کتنے میں طے پایا ہے؟ میرے بچوں کا رزق چھین کر تحت لاہور سجانے والوں میرا اور میری آل کا کیا قصور ہے؟ میں تب بے بسی کی تصویر بنے اس بوڑھے کسان کے سامنے کھڑا رہا اس لئے کہ میرے پاس اس کے حقیقت پر مبنی سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ جس غریب کی بیٹیوں کا جہیز پانی کی نذر ہو گیا اس کا شکوہ بجا ہے ۔مصیبت کی اس گھڑی میں جرا¿ت و بہادری کے کئی مناظر دیکھنے کو ملے آزاد کشمیر تحصیل پلندری کے گاﺅں ڈھنگڑوں کے نائب صوبیدار عناب شہید نے ملتان میں بپھری موجوں سے کئی لوگوں کو نکالا لیکن پانی کی لہروں نے جب اس کا گھیراﺅ کیا کشتی الٹی تو اس نے اپنے ایک بازو میں ایک معصوم بچی کو تھاما دوسرے ہاتھ میں ایک خاتون تھی۔ عناب شہید پانی کی لہروں سے لڑتا رہا۔ لیکن اسکے ہاتھ کی مجاہدانہ گرفت اتنی مضبوط تھی کہ اس نے جان دے دی لیکن دونوں لاشوں کو مٹی کے نیچے دبنے سے بچالیا عناب شہید نے جان کی پروا کئے بغیر فیصلہ کیا کہ مدد کی آواز دینے والے بچے کو پانی کی لہروں میں کھونے نہیں دوں گا۔ دریائے چناب کے کنارے قائم ڈیرہ کی بہادر خاتون رضیہ بی بی نے تیز سیلابی ریلے سے بچنے کیلئے اپنے بچوں سمیت درخت پر پناہ لی رسی کے ساتھ اپنے بچوں کو درخت پر باندھا تاکہ وہ 5 سے 6 فٹ گہرے پانی میں بہہ نہ جائیں جھنگ کی بہادر بچی 6 سالہ لائبہ نے اپنے 3 سالہ بھائی کو ٹب میں بیٹھا کر محفوظ جگہ پر پہنچایا جرا¿ت بہادری کے یہ واقعات میرے ذہن سے نکل نہیں رہے نائب صوبیدار عناب شہید کی شجاعت کے باعث اسے ستارہ شجاعت دینا چاہئیے۔ میں دریائے چناب کی پٹی پر بسنے والی ماﺅں کو سلام عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے عزم و ہمت سے اس افتادہ کا مقابلہ کیا سیلاب سے 23 لاکھ کے لگ بھگ افراد متاثر ہوئے۔ انکے گھر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں ان کے ذہن میں بھیانک خواب جنم لے رہے ہیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چنیوٹ اور جھنگ میں یورپ کی پروردہ این جی اوز نے 10 کیمپ لگائے ہیں جو مکانات کی تعمیر کے لالچ میں لوگوں کو ورغلا رہے ہےں 18 کروڑ پاکستانیو!23 لاکھ بیچاروں کا ”اثاثہ گھر“ تو پہلے ہی لٹ گیا ان کا ”اثاثہ ایمان“ تو لٹنے نہ پائے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ہمیں اٹھ کھڑا ہونا چاہئیے۔ خادم پنجاب میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو سے متاثرین کا ایک ہی سوال ہے کہ ہم نے یہ نہیں دیکھنا کہ آپ پانی میں کھڑے ہیں ہمارا سوال یہ ہے کہ پانی یہاں کیوں کھڑا ہوا؟
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024