حضرت قائداعظمؒ کی زیر قیادت عہد آفریں تحریک پاکستان کے نتیجے میں حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے تصور پاکستان کو عملی شکل ملی۔ بانیان پاکستان کے فرمودات اور تعلیمات کی روشنی میں پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام کارفرما ہوا۔ گویا قیام پاکستان کے نتیجے میں پاکستان کے باسیوں نے انگریزوں سے آزادی حاصل کر لی۔ ہندوﺅں کی معاشی بالادستی سے بھی نجات ملی، مگر حضرت علامہ اقبالؒ اور بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ کے نظریات کی روشنی میں عوام کو معاشی انصاف کی فراہمی کیلئے کوئی مربوط منصوبہ مرتب ہوا نہ کسی ایسے منصوبے کی تدوین کو غور کیا گیا۔ پاکستان میں مختلف اوقات میں جو حکومتیں برسراقتدار آتی رہیں۔ انکے قائدین ”اسلام کے آفاقی اصولوں کا دم بھرنے والے“، جمہوری نظام کو ملکی سلامتی کا ضامن ہونے کے دعویداروں“ ”کنٹرولڈ جمہوریت کے علمبرداروں“، ”سوشلسٹ نظام کے حامیوں“ اور صنعتی انقلاب برپا کرنیوالوں سے عبارت تھے۔ بلاشبہ سوشلسٹ نظام کی حامی پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک کے محروم اور کچلے ہوئے کروڑوں عوام کو سیاسی شعور سے بہرہ ور ضرور کیا مگر ملک کی دیگر سیاسی اور مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرح ان کروڑوں مفلس و قلاش پاکستانیوں کو سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور کارخانہ داروں کے اقتصادی تسلط سے نجات دلانے کا کوئی منصوبہ بنایا گیا نہ اس پر عمل کیا گیا جبکہ یہی وہ مجبوروبے بس عوام ہیں جنہوں نے یا جن کے آباﺅاجداد نے حصول آزادی کی راہ میں قربانیاں دی تھیں عصمتیں لٹائی تھیں پہلے وہ اقتصادی طور پر ہندوﺅں کے تسلط میں تھے۔ اب وہ سیاسی آزادی کے دور میں چند ہزار خاندانوں کے اقتصادی تسلط ہیں سسک سسک کر شاہراہ حیات پر رینگ رینگ کر زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ تحریک پاکستان سے قبل تصور پاکستان کے خالق حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے ”لیٹرز آف اقبال ٹو جناح“ (مطبوعہ یونائیٹڈ پبلشرز شیخ اشرف کے صفحہ 16 تا 20) 28 مئی 1937ءکو اپنے خط میں لکھا.... ”ذاتی طور پر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو سیاسی تنظیم عام مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کی ضمانت نہیں دیتی اس میں ہمارے عوام کیلئے کوئی کشش نہیں“۔
اسی خط میں علامہ اقبالؒ نے لکھا:۔ روٹی کا مسئلہ دن بدن سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ پچھلے 200 سال کے دوران مسلسل معاشی پستی میں گرتا چلا گیا ہے۔ بالعموم اس کا خیال ہے کہ اسکی غربت کا سبب ہندو ساہوکار کی سود خوری یا سرمایہ داری ہے اس لئے سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غریبی غریبی (روٹی) کے مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے؟ مسلم لیگ کے سارے مستقبل کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کیلئے کیا لائحہ عمل تیار کرتی ہے اگر مسلم لیگ ایسی ضمانت فراہم نہ کر سکی تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مسلمان عوام اسی طرح لاتعلق رہیں گے جیسے پہلے۔“
گویا تصور پاکستان کے خالق حکیم الامت علامہ اقبالؒ کو اس حقیقت سے پو را پورا ادراک تھا کہ اگر حصول پاکستان کیلئے سرگرم عمل جماعت اور اسکی قیادت نے اگر اقتصادی طور پر بدحال اور ہندو ساہوکاروں کے معاشی بوجھ تلے مسلمانوں کے روٹی کے مسائل کو حل کرنے کا کوئی پروگرام نہ دیا تو عوام اس سے مایوس ہو جائینگے۔ مگر یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ نے حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے افکارو نظریات کی پوری طرح تائید وتوثیق کی۔ انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ 24 اپریل 1943 دہلی میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے فرمایا.... ”میں یہاں ان زمینداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کر دینا چاہتا ہوں جو ہماری وجہ سے ہی خوب پھل پھول رہے ہیں یعنی ایک ایسے نظام کے ذریعہ جو انتہائی ناقص اور غلط ہے جس نے انہیں اس قدر مطلبی اور مفاد پرستی بنا دیا ہے کہ اب انکے ساتھ کسی قسم کی بحث وتمحیص بھی فضول ہے انکے خون میں عوام کا استحصال رچ بس گیا ہے وہ اسلام کے سبق کو بھول چکے ہیں ہوس اور خودپرستی میں یہ صرف خود فائدہ اٹھا رہے ہیں اور دوسروں کے مفادات کو انہوں نے پوری طرح پس پشت ڈال دیا ہے میں متعدد دیہات میں گیا ہوں وہاں ہمارے لاکھوں لوگوں کو دن میں ایک وقت کی پیٹ بھر روٹی بھی میسر نہیں ہوتی.... اگر پاکستان کی غرض و غایت یہی ہے تو پھر ہمیں ایسا پاکستان نہیں چاہئے“۔ پاکستان کے قیام کو 67 برس ہو گئے مگر ملک کے کروڑوں خاندان معاشی بدحالی غربت و فاقہ کشی کے لق ودق صحراﺅں میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں مگر افسوس صد افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں حکمرانوں کی اپنے حقیقی فرائض سے چشم پوشی خودکشیاں، فاقہ کشی سے لوگوں کی نجات کا باعث بن گئی ہیں۔ کلام اللہ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ.... ”جس نے کسی انسان کو بلاوجہ قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا“ یہ حقیقت کسی شہ دماغ نے درست طور پر بیان کی ہے کہ قتل فقط کسی آلے ہی سے قتل مراد نہیں۔ قتل روٹی کا مسئلہ حل نہ کرکے بھی ہوتا ہے، اس لحاظ جو لوگ بھوک ننگ سے تنگ آ کر خودکشیاں کر رہے ہیں ان کا قتل کس کے ذمہ ہے؟ پاکستان کے حکمران خواہ وفاق میں ہوں یا صوبوں میں اس سنگین قومی صورتحال سے یقیناً آگاہ ہیں کہ انکی قلمرو کے بیشتر علاقوں جن میں ان کی ”رعایا“ کے کروڑوں عوام بستے ہیں وہاں پینے کا صاف پانی نہیں ملتا۔ لوگ جوہڑوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں ایسے جوہڑوں ہی سے جانور حتی کہ کتے وغیرہ بھی پانی پیتے ہیں۔ حقائق یہ ہوں تومیٹرو بس ایسے منصوبے پر اربوں روپے کا اصراف کرنے کی بجائے اس رقم سے ان علاقوں کے محروم عوام کو پینے کا پانی فراہم کرنے میں کیا قباحت ہے؟ اس قسم کے سبھی منصوبے یقیناً ملوکیت کے ذہن کی عکاسی کرتے ہیں؟ ایسے اقدامات سے نام و نمود کے حصول کی خواہش وقتی طور پر تو پوری ہو سکتی ہے، مگر عوام کے دل نہیں جیتے جا سکتے۔ نام و نمود کی آرزوﺅں سے عبارت میگا پراجیکٹوں کے سوا حکومت نے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالے کروڑوں عوام کی معاشی حالت بدلنے کیلئے کوئی منصوبہ مرتب نہیں کیا۔معلوم یہی ہوتا ہے کہ حکومتی شہ دماغوں نے محروم اور مفلس عوام کے حقیقی مسائل کے حل والے سوچ کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024