24 اکتوبر.... یوم آزادی نا تمام (1)
اگست 1947ءمیں برصغیر پر آزادی کا سورج طلوع ہوا اور بھارت اور پاکستان کے نام سے دو آزاد مملکتیں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئیں لیکن بدقست ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے لیے ایک اور سیاہ بختی کا دور شروع ہو گیا۔ تقسیم برصغیر کے اصولوں کے مطابق ریاست کی غالب مسلم اکثریت، جغرافیائی محل وقوع، تاریخی صداقتوں، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی تقاضوں کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا لیکن برطانوی سامراج، کانگریس اور مہاراجہ ہری سنگھ کے گٹھ جوڑ کے باعث اس کا الحاق بھارت سے کر دیا گیا۔ اس طرح ایک پوری صدی کے ڈوگرہ استعمار کے بطن سے ظلم و جبر، استحصال اور غلامی کے ایک نئے دور نے جنم لیا جو ریاست کے بڑے حصے پر بھارتی قبضے اسی غلبے کی صورت میں گزشتہ ستر سال سے مسلط ہے اور خدا جانے یہ عذاب کب تک ریاست کے معصوم باشندوں کی روحوں کو گھائل کرتا رہے گا؟ ریاست جموں و کشمیر کی غلامی کی تاریخ بڑی طویل اور روح فرسا ہے۔ 1819ءتا 1846ءیعنی 27 سال تک ریاست سکھوں کے ظلم و جبر کا شکار رہی۔ 16 مارچ 1846ءکو پنجاب کے شہر امرتسر میں انگریزوں اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے مابین بیعنامہ امر تسر طے پایا۔ اس معاہدہ کی رو سے انگریزوں نے گلاب سنگھ کو دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب کے تمام علاقے انسان، حیوان، چرند، پرند سب فروخت کر ڈالے جس پر شاعر مشرق، حکیم الامت، فرزند کشمیر علامہ محمد اقبال یوں چیخ اٹھے۔
باد صباءبہ جینوا گزر کنی
دہقاں و کشت و جوئے و خیاباں فرد ختند
حرف زما بہ مجلس اقوام باز گوئی
قوم ہے فرد ختند و چہ ارزاں فروختند
ترجمہ:۔” اے صبح کی ٹھنڈی ہوا اگر تیرا گزر (لیگ آف نیشن کے ہیڈ کوارٹر) جنیوا سے ہو تو اقوام عالم کو میر ایہ پیغام پہنچا دینا کہ قدر ناشناس انگریزوں نے کشمیر جیسا حسین خطہ کسان، کھیت کھلیان، دریاﺅں اور باغوں سمیت بیچ ڈالا ہے۔ ایک پوری قوم فروخت کر دی اور ستم یہ کہ کتنی سستی بیچی۔
یہ سودا صرف پچہتر لاکھ روپے کے عوض طے ہوا۔ اس طرح انگریزوں نے چند روپے فی کشمیری کے حساب سے پوری قوم کو ڈوگرہ راج کے چنگل میں دے دیا۔ اس کے بارے میں حفیظ جالندھری نے کہا:
وادیاں، کہسار، جنگل، پھل پھول اور سب اناج
ڈھورڈ ڈھنگر، آدمی ان سب کی محنت، کام کاج
یہ مویشی ہیں کہ آدم زاد سب ہیں زرخرید
ان کے بچے بچیاں، اولاد، سب ہیں زرخرید
گلاب سنگھ کے وحشیانہ، بیہمانہ رویے کے بارے میں عطاءالحق سہروردی اپنی تضیف The Tragedy of Kashmir میں لکھتے ہیں کہ ڈوگرہ مہاراجا آزادی کے متوالوں کی کھال اتارنے کا ذاتی حکم دیتا اور پھر اس کا مشاہدہ بھی کرتا تھا۔ پونچھ پر قبضہ کرنے کے بعد گلاب سنگھ نے وہاں کے عوام کا قتل عام کروایا۔ منگ کے مقام پر مجاہدین آزادی ملی خان ، سبز علی خان اور ان کے ساتھیوں کو درخت کے ساتھ الٹا لٹکا کر ان کی زندہ کھالیں کھنچوائیں۔ پھر اس نے ان کھالوں میں بھس بھر ادھی ڈھک کے مقام پر لوگوں پر اپنے قہر و غضب کی دھاک بٹھانے کے لیئے رکھ دیا۔ بیعنامہ امر تسر جیسے شرمناک معاہدے کی رو سے بنی نوع انسان کی خرید و فروخت کے واقعہ نے اہل کشمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا لیکن گلاب سنگھ کی انسان کش کاروائیوں اور خوفناک انتقامی اقدامات نے وقتی طور پر کشمیری مسلمانوں کی تحریک آزادی کو دبا دیا تاہم گلاب سنگھ کی موت کے بعد ہی ان جذبات میں پھر طلاطم پید اہوا۔ واردی کشمیر کے معروف صحافی، ادیب غلام نبی خیال اپنی نصف ”تحریک آزادی کشمیر اور علامہ اقبال“ میں لکھتے ہیں کہ 1865ءمیں کشمیری شال کی صنعت پر عائد کیئے جانے والے ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف سرینگر کے شالبا فوں کی ہڑتال ایک تاریخی واقعہ ہے جس نے ڈوگرہ استعمار کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے تحریک آزادی کا ایک اور منگ میل عبور کیا۔ ڈوگرہ پولیس نے ان مظلوم شال بافوں پر بہیمانہ مظالم کیئے اور ان کی بڑی تعداد کو دریائے جہلم کی موجوں کی نذر کر دیا گیا۔
15 مارچ 1929ءکو مہاراجہ ہری سنگھ کے خارجی و سیاسی امور کے وزیر سرایلن بینرجی نے لاہور میں ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا کے نمائندے کو ایک چونکا دینے والا بیان دے کر ڈوگرہ حکومت کے اقدامات کی قلعی کھول دی۔ اس نے کہا کہ ”ریاست جموں و کشمیر میں راجا اور پرجا کے درمیان کوئی تعلق نہیں ریاستی عوام کے ساتھ بھیڑ بکریوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے“۔
1865ءکی شالبافون کی تحریک تو ڈوگرہ استبداد کے مظالم نے دبا دی لیکن یہ چنگاری وقتاً فوقتاً بھڑکتی رہی۔ غلام نبی خیال کہتے ہیں کہ 21 جولائی 1924ءکو پولیس نے ریشم خانہ سری نگر کے 24 مزدوروں کو حراست میں لیا اگلے دن پولیس ایک بھاری بھرکم تعداد نے مزدوروں پر حملہ کیا اس بربریت کے خلاف کشمیر کے لوگ بغاوت کا جھنڈا اٹھانے پر مجبور ہو گئے۔
1931ءکا سال کشمیر کی تاریخ میں ایک سنگ میں کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سال پے درپے ایسے واقعات ہوئے کہ کشمیریوں کے صدیوں سے دبے ہوئے جذبات طوفان کی طرح امڈ پڑے اور انہوں کے تحریک آزادی کی شکل اختیار کر لی۔ ان میں پہلا واقعہ جموں میں توہین قرآن کا واقعہ تھا اور دوسرا خطبہ عید کی بندش کا۔ ان واقعات کے خلاف احتجاج کے لیئے 21 جون 1931ءکو سرینگر میں ایک بہت بڑا احتجاجی جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسے کے دوران عبدالقدیر نامی ایک اجنبی نوجوان کی شعلہ بار تقریر نے کشمیری مسلمانوں کے تن بدن میں آ گ لگا دی۔
(جاری ہے)
عبدالقدیر کو ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ 13 جولائی 1931ءکو اس کے خلاف مقدمہ کو سماعت کے دوران سرینگر جیل کے احاطے میں جمع ہونے والے ہجوم پر اذان کے دوران ڈوگرہ فوج نے گولیاں برسائیں اور 31 فرزندان توحید جام شہادت نوٹس کر گئے۔
اس واقعہ کے خلاف ہندوستان بھر کے مسلمان میں احتجاج پر دوڑ گئی۔ علامہ محمد اقبال کی اپیل پر 14 اگست 1931ءکو ہندوستان بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ اس تحریک نے آگے بڑھ کر 1932ءمیں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے نام سے ایک سیاسی پلیٹ فارم کی شکل اختیار کر لی لیکن بدقسمتی سے شیخ محمد عبداللہ نے چند سال بعد پنڈت جواہر لعل نہرو کے سیکولر قوم پرستی کے نظریئے کے زیر اثر 1938ءمیں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کر دیا۔ یہ صرف نام کی تبدیلی نہ تھی بلکہ نظریات اور اصولوں کی تبدیلی بھی تھی جسے ریاستی مسلمانوں کی اکثریت نے قبول نہ کیا۔ 1941ءمیں چوہدری غلام عباس نے اپنے نظریاتی رفقاءمیر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ، قاضی عبدالغنی شاہ دلنہ، سردار فتح محمد خان کریلوی، سید حسن شاہ گردیزی اور دیگر کے ساتھ مل کر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا احیاءکیا۔ اس طرح ریاستی سیاست مکمل طور پر کانگرس کی جھولی میں پڑنے سے بچ گئی تاہم ریاستی سیاست کے دو دھڑے وجود میں آ گئے۔ ایک دھڑا مہاتما گاندھی اور جوہر لعل نہرو کے نام نہاد سیکولر قوم پرستی کے نظریئے کا ترجمان تھا جبکہ دوسرا دھڑا علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے مسلم قومیت کے نظریئے کا علمبردار اور یہ دھڑا ریاستی مسلمانوں کا سواد اعظم بھی تھا۔ ان دونوں دھڑوں کو قائداعظم محمد علی جناح نے 1946ءمیں اپنے دو ماہ پر محیط دورہ کشمیر کے دوران ایک پلیٹ فارم پر لانے اور شیخ عبداللہ کو کانگریس کے دامِ ہمرنگ زسین میں گرفتار ہوئے سے روکنے کی کوششیں کی لیکن شیخ عبداللہ پر نہرو کا بھوت سوار تھا۔ وہ کسی طرح مسلم قومیت کے پلیٹ فارم کو تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوا۔ یہی دونوں نظریاتی دھڑے 1947ءباہم دست بگربیاں تھے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنا اول الذکر کے پلڑے میں ڈال کر ریاست کا بھارت سے الحاق کر دیا۔ شیخ عبداللہ نے قائداعظم کے دورہ کشمیر کے باعث اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے کے لیئے ”کشمیر چھوڑ دو“ (Quit Kashmir) تحریک چلائی جسے کانگریس کی حمایت حاصل تھی۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر کے اور اپنے حامیوں کو مہاراجہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر شیخ عبداللہ ریاست سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے کہ انہیں گڑھی دوپٹہ کے مقام گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے ساتھ یکجہتی کے لیئے پنڈت جواہر لعل نہرو نے کشمیر آنے کا اعلان کیا۔ انہیں کوہالہ کے مقام پر روک دیا گیا۔ کشمیر چھوڑ دو تحریک کے مقدمے کی سماعت کے دوران شیخ عبداللہ نے مہاراجہ سے بغاوت کے الزام کی تردید کی لیکن ان کی تقاریر کے ثبوت موجود تھے۔ انہیں سزا ہوئی لیکن بعد میں ان کی سزا معاف کر کے اور انہیں رہا کر کے بھارت نواز ڈوگرہ انتظامیہ کا ایڈمنسٹریڑ مقرر کیا گیا۔ مبصرین کے نزدیک شیخ عبداللہ کی کشمیر چھوڑ دو تحریک بے وقت کی راگنی اور محض ایک ڈرامہ تھا جس کا مقصد ریاستی مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔
تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق مسلم اور غیر مسلم اکثریتی علاقوں کے مابین حد فاصل قائم کرنے کے لیئے سر ریڈ کلف کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس میں دو ممبر مسلمان (جسٹس دین محمد اور جسٹس محمد منیر) جبکہ دو غیر مسلم ممبران (جسٹس مہر چند مہاجن اور جسٹس تیجاسنگھ) شامل تھے۔ کمیشن کے سربراہ سر ریڈ کلف نے پنڈت جواہر لعل نہرو کی خواہش اور وائسرائے ہند لارڈ ماڈنٹ بیٹن کی ہدیت پر سرحدوں کے تعین میں ڈنڈی ماری اور گورداسپور اور پٹھانکوٹ کے مسلم اکثریتی اضلاع بھارت میں شامل کرتے ہوئے بھارت کو کشمیر تک زمینی راستہ فراہم کر دیا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان نے ریاست کے بھارت سے الحاق کے لیئے سازشوں کے تانے بانے بننے شروع کر دیئے۔
31 جولائی 1947ءکو اصولوں کے دیوتا اور عدم تشدد کے علمبردار مہاتما گاندھی جنہیں کانگریسی قوم پرست حلقوں میں ”باپو“ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، سرینگر پہنچے۔ اپنے سرینگر آنے کی توجیہ انہوں نے یہ کی کہ 1919 میں کھمب میلے کے موقع پر مہاراجہ پرتاب سنگھ نے انہیں کشمیر آنے کی دعوت دی تھی۔ اس وقت وہ ستیہ گرہ تحریک کی مصروفیات کے باعث نہیں آ سکے تھے اب وہ مہاراجہ پرتاب سنگھ کے ساتھ کیئے گئے وعدے کے ایفاءکے لیئے آئے ہیں لیکن درپردہ مقاصد میں مہاراجہ ہری سنگھ کو بھارت سے الحاق پر آمادہ کرنا تھا۔ مہاراجہ کٹر ہندو ہونے کے باعث پہلے سے ہی ہندوستان سے الحاق کا آرزو مند تھا تاہم وہ غالب مسلم اکثریت کے ردعمل کے ڈر سے تذبذب کا شکار تھا۔ اس موقع پر شیخ عبداللہ کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا تا کہ شیخ عبداللہ مسلم اکثریت کو مہاراجہ کی پشت پر لا کھڑا کریں اور مہاراجہ کو ہندوستان سے الحاق میں دشواری ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ الحاق ہند کے مخالف وزیراعطم رام چندر کاک کو برطرف کر کے اولاً کٹر ہندو فرقہ پرست ڈوگرہ ٹھاکر چنڈک سنگھ کو اور مابعد باونڈری کمیشن میں ہندوستان کے نمائندہ مہر چند مہاجن کو وزیراعظم بنانے کی سازش تیار کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاستی افواج کی کمانڈ ہندوستانی فوج کے حاضر سروس کرنل کشمیر سنگھ کٹوچ کے سپرد کر کے ریاستی فوج کو ہندوستانی فوج کی ایک کمپنی کی حیثیت دے دی گئی۔ دریں اثناءآر ایس ایس اور دیگر ہندو فرقہ پرست مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد جموں میں داخل ہو گئے اور وہاں بھی قتل عام کا بازار گرم کر دیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے اسی پر بس نہیںکیا بلکہ مہاراجہ پٹیالہ کی فوج بھی طلب کر لی۔ اس نے اپنی فوج کو پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ مورچہ بند کر دیا اور مسلمانوں سے چھری چاقو سمیت ہر قسم کا اسلحہ ضبط کر کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ 5 کلو میٹر کی دفاعی پٹی کا حصار قائم کرنے کی کوشش کی تا کہ اس کے ظلم و جبر کاشکار ریاستی مسلمان پاکستان میں پناہ لینے یا وہاں سے مدد حاصل کرنے نہ جا سکیں۔ خصوصاً پونچھ میں ڈوگرہ افواج نے مسلمان بستیوں پر حملے شروع کر دیئے اور ظلم و ستم کا بازار گرم کر دیا جس کے ردعمل میں مسلمانان پونچھ نے علم جہاد بلند کیا اور ڈوگرہ فوج کو مار بھگا کر اپنا علاقہ آزاد کروا لیا۔ ڈوگرہ مظالم اور مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں بیرون ریاست پہنچیں تو آزاد قبائل کے مسلمانوں کا لہو کھول اٹھا اور 22 اکتوبر کو قبائلی جتھہ مظفرآباد پہنچا جہاں ڈوگرہ فوج نے دوپہر تک شدید مزاحمت کی تاہم قبائلی یلغار کے سامنے اس کے پاﺅں اکھڑ گئے۔
قبائلی لشکر جہلم ویلی روڈ کے راستے سرینگر کی طرف روانہ ہوا۔ 24 اکتوبر کو مہورہ کے بجلی گھر کو اڑا دیا گیا۔ اس طرح سرینگر تاریکی میں ڈوب گیا۔ اگلے چند روز فیصلہ کن تھے مہاراجہ حواس ساختہ ہو کر سرینگر سے فرار ہوا اور جموں جا پہنچا۔ اسی دوران وزیراعظم مہر چند مہاجن نے ہندوستانی فوجی امداد کے حصول کی کوشش کی۔ جس کے لیئے مہاراجہ کی طرف سے دستاویز الحاق کا ڈرامہ رچایا گیا۔ معروف صحافی الیسٹرلمب نے ایسی کسی دستاویز کی موجودگی سے ہی انکار کر دیا ہے جبکہ مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ 26 اکتوبر کو مہاراجہ کا قافلہ سری نگر اور جموں کے درمیان سفر میں تھا۔ اس روز مہاراجہ نے کسی دستاویز الحاق پر دستخط نہیں کیئے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان نے مہاراجہ کی کسی تحریری درخواست کے بغیر اپنی فوجیں کشمیر بھیج دی تھیں۔ مہاراجہ سے شاید بعد میں دستخظ حاصل کیئے ہوں یا اس تکلف کی ضرورت بھی نہ سمجھی گئی ہو۔ یہ ہے کشمیر پر بھارت کے قبضہ کی اخلاقی حیثیت اور حقیقت۔
مبصرین کے مطابق 27 اکتوبر سے قبل بھی بھارتی فورسز کسی نہ کسی طور پر کشمیر میں موجود تھیں۔ 27 اکتوبر کو جب بھارتی فوج سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتری تو انہیں نہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سرینگر ہوائی اڈے پر پہلے سے مہاراجہ پٹیالہ کی فوج تعینات تھی حالانکہ ریاست پٹیالہ ہندوستان کے قیام کے ساتھ ہی 15 اگست سے قبل بھارت میں ضم ہو چکی تھی اور اس کی فورسز بھارت کے ساتھ کسی معاہدے کے بغیر ریاست میں تعینات نہ ہو سکتی تھیں۔ الیسٹر لیمب کے مطابق پٹیالہ فوج کی کشمیر میں تعیناتی بھارٹی وزیر داخلہ سردار پٹیل، وزیر دفاع بلدیو سنگھ اور مہاراجہ ہری سنگھ کی خفیہ مشاورت سے عمل میں لائی گئی تھی۔ یہ دستے 17 اکتوبر سے قبل کشمیر میں تعینات ہو چکے تھے۔ مہاراجہ پٹیالہ یدھو ندر سنگھ خود اپنے دستوں کی کمانڈ کرنے سرینگر بھی آیا تھا جو لوگ قبائلی حملے کو ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی وجہ قرار دیتے ہیں وہ درج بالا حقائق کو یکسر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ قبائلی حملے سے قبل بھارت کے ساتھ الحاق کے مرحلہ وار اقدامات عمل میں لائے جا چکے تھے اور اگر قبائلی حملہ نہ بھی ہوتا تو بھی مہاراجہ ہری سنگھ نے الحاق ہندوستان سے ہی کرنا تھا۔ ہاں! اس صورت میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی خود بخود بھارت کے قبضے میں چلے جاتے۔ مجاہدین پونچھ، مجاہدین گلگت بلتستان اور قبائلی عوام کی مشترکہ کوششوں سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی آزادی ممکن ہو سکی جہاں ان دونوں خطوں کے عوام آزادی کا سانس لیتے ہیں یہ بھی ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کو چھوڑ کر ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں نے ریاست کے پاکستان سے الحاق کی قراردادیں منظور کی تھیں۔ ریاست کی سب سے بڑی جماعت جسے ریاستی اسمبلی میں بھی اکثریت حاصل تھی، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے 19 جولائی 1947ءکو آبی گزرگاہ سری نگر میں غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تاریخ ساز قرارداد منظور کی تھی جبکہ کشمیر سوشلسٹ پارٹی نے اپنے سربراہ پنڈت پریم ناتھ بنراز کے زیر صدارت اور جموں و کشمیر کسان مزدور کانفرنس نے اپنے قائد عبدالسلام یاتو کی زیر قیادت اپنے مرکزی اجتماعات میں ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی قراردادیں منظور کی تھی۔ خود مہاراجہ ہری سنگھ کے وزیراعظم رام چندر کاک نے مستقل الحاق کے فیصلے تک عبوری طور پر پاکستان کے ساتھ معاہدہ قائمہ کی پیش کش کی تھی جسے پاکستان نے منظور کر دیا تھا۔ اس طرح ریاست کے وہ تمام امور جو برطانوی ہند سے متعلق تھے، پاکستان کو منتقل ہو گئے تھے جن میں ڈاک خانے اور تار گھر بھی شامل تھے لیکن یہ اقدام صرف پاکستان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیئے کیا گیا۔ مہاراجہ در اصل بھارت سے الحاق کے لیئے وقت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان سے معاہدہ قائمہ کرنے کے بعد اس پر عملدرآمد میں لیت و لعل سے کام لیا اور پاکستان سے معاہدہ قائمہ کرنے والے وزیراعظم رام چندر کاک کو بھی برطرف کر کے معاہدہ قائمہ کو اپنے پاﺅں تلے روز ڈالا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ مہاراجہ پٹیالہ کی سکھ فوج، انتہا پسند ہندو تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور دیگر فرقہ پرست تنظیموں کے ذریعے مسلمانوں کا قتل عام شروع کروا دیا۔ ان حالات میں ریاستی مسلمانوں نے مہاراجہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جس کے نتیجے میں 24 اکتوبر 1947ءکو آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
یہ محض آزاد خطے میں عبوری انقلابی حکومت کے قیام کا فیصلہ نہ تھا بلکہ ایک ایسا تاریخ ساز اقدام تھا جس کے نتیجے میں ریاست جموں و کشمیر، حیدر آباد اور جونا گڑھ کی طرح تاریخ کے گرداب میں ڈوبنے سے محفوظ رہی جہاں تحریک آزادی اب بھی پوری آب و تاب سے جاری ہے۔ اور اب بھی یہ خطہ اپنی تمام تر کمزوریوں اور مسائل کے باوجود تحریک آزادی کے لیئے ایک مہمیز اور پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم بدقسمتی سے آزادی کا یہ سورج دو تہائی ریاست کو اپنی ضیابار کرنوں سے منور نہ کر سکا اس طرح مقبوضہ کشمیر ابھی تک اس نعمت سے محروم ہے اور کشمیری عوام سات دہائیوں سے آزادی کے لیئے قربانیوں کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔
کشمیر اس داستان خون چکاں کا سب سے کربناک پہلو وہ انسانی المیہ ہے جس سے ریاست کے عوام دو صدیوں سے بالعموم اور گزشتہ 70 سال سے بالخصوص دو چار ہیں۔ بھارتی قابض فوج کے انسانیت موز مظالم، تین نسلوں کی ہجرتوں کے کرب، بچھڑے اور منقسم خاندان، غیر یقینی مستقبل بے بسی اور اقوام اور اوام عالم کی چشم پوشی!۔
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر۔