مگر مچھوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے دھرنے دیئے جا رہے ہیں۔ ’’لاہور ہائیکورٹ‘‘ پاکستانی حالات اور عوام کی کسمپرسی، انتہائی اقدام پر (دھرنے) اس موز وں تبصرہ، دکھ کا اظہار ممکن نہیں۔ اس سے پہلے عدالت عظمی کے، معزز جج قرار دے چکے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے حکمرانوں نے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے، کیا وہ صادق اور امین ہیں؟ قوم کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جھوٹ بولے جاتے ہیں۔ ’’عدالت عظمی نے سوال کیا‘‘ کیا آج تک کسی پارٹی کا منشور پورا ہوا؟ منشور کی بابت اتنا لکھنا کافی ہے کہ انتہائی ڈھٹائی کے دور میں منشور نامی دوائی کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکی، سیاسی وراثت، سیاسی قبضہ گیری، ہر دور میں ووٹرز کی توہین (دھاندلی) جب قانون بن جائے تو پارٹی منشور دیمک کی خوارک بن جاتے ہیں۔ پاکستان قوم تو آزادی کا ایک دن بھی نہیں منا پائی، وہ تو ’’68 سالوں‘‘ سے ’’سیاسی مافیاز‘‘ کے ہاتھوں اسمگل ہوچکی ہے، سوچئے یہی نظام رائج آیا تو اس ملک کا کل کیا ہوگا؟ جس ملک میں گھر سے جیل تک مجرم سرنگ کھود ڈالیں، اس کا کل کیا ہوگا؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے یا خطرناک مجرموں، قانون شکن عناصر کی چراہ گاہ؟ بد قسمتی سے ہمارا وطن بدعنوانی بیڈ گورننس اور کرپشن کی عالمی چوٹی ’’سر کرچکا ہے۔ اس سے بھی بڑی بد قسمتی کہ عوامی تکالیف کے ازلہ کے ضمن میں نت نئی مشکلات اور مسائل کا عذر تراشا جاتا ہے۔ غریب ایک ایسی حکومت پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں جس نے ’’سستی روٹی‘‘ دلوانے کا وعدہ کر رکھا ہو جبکہ شہر میں جو نان 8 روپے میں ملتا تھا وہ اب ’’10,12روپے پر پہنچ چکا ہے۔ عوام دھرنا کیوں نہ دیں۔ احتجاجی مہم کا حصہ کیوں نہ بنیں جب وہ خبر پڑھیں کہ فلاح واقعہ یا مہنگائی میں اضافہ کا ’’حکمرانوں‘‘ نے نوٹس لے لیا، کیا حکمران نہیں جانتے کہ اناج مارکیٹ میں عوام پر کیا بیت رہی ہے۔ ایک طرف 30 لاکھ ٹن گندم موجود ہونے کی نوید سنائی جاتی ہے اور دوسری سانس میں آٹا کی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ کیا نوٹس لینے کا واحد ذریعہ صرف نشر ہونے والی خبریں ہی ہوتی ہیں، یہ کس طرح کا دور کہ ’’رٹ اور ریلیف میں حکومت کہیں بھی نظر نہیں آرہی، حکومتی تنخواہوں میں اضافہ کا عمل کم وقت میں تکمیل پالیتا ہے جبکہ عوامی مصائب کو کم کرنے میں پانچ نہیں بلکہ، دومرتبہ کی مدت مانگی جاتی ہے، سیاسی بے چینی کے معیشت پر پڑنے والے برے اثرات صاف محسوس ہو رہے ہیں۔ پہلی سہ ماہی میں ایکسپرٹ میں نمایاں کمی واقع ہوچکی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں 10 فیصد سے زائد کمی ریکارڈ پر آچکی ہے۔ مگر حکومتی لوگ دھرنے کی کرسیاں گننے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیںاپنی کامیابی کو سڑکوں پلوں کی تعمیر سے ناپنے والے بھول رہے رہیں کہ عوامی خدمت، خوشحالی کے مظہر پل یا سٹرکیں ایک حصہ تو ہو سکتے ہیں مگر غریبوں کی زندگیوں میں بامقصد جینے کے لائق تبدیلیاں نہیں لاسکتے۔ خوشحالی چہروں سے چھلکتی ہے ناکہ سڑکوں پر دوڑتی ’’میٹروبسوں‘‘ سے، مسائل اگر اتنے آسان نہیں ہیں تو مشکل بھی نہیں، بات صرف نیت اور ارادہ کی ہے۔ ہماری کلاس جس متن پر ہے اس کا انجام بخیر نظر نہیں آتا، ہمارا تجزیہ تو یہی ہے کہ اس مرتبہ اصل منشور صرف حکومتی پروٹوکول انجوائے کرنا ہے، حکمران حکومتی چھتری تلے آرام کرنے کا فیصلہ کرنے کے علاوہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر رہے ہیں، غربت خوف اور تشدد میں گئری ہوئی قوم، ایک ایسا کنفیورڈ معاشرہ جو بخوبی جانتا ہے کہ طاقتور اور مالدار طبقات کو حاصل تمام تر ناجائز مراعات انہی کے محنت، پسینے کی کمائی سے فراہم کی جا رہی ہیں، پھر بھی یہ قوم قناعت کر کے بیٹھی ہے۔ مان لیا کہ دہشت گرد، ریاست کے لئے سکیورٹی رسک ہیں مگر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ بڑے بڑے کرپشن کنگ ہائی پروفائل کارٹلز، قابل رسائی مافیاز پاکستان کے لئے سکیورٹی رسک نہیں؟بجا فرمایا ’’عدالت نے کہ مگر مچھوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے سے دھرنے دیئے جا رہے ہیں۔ دادرسی کیلئے عوام کے پاس دو ہی راستے ہیں نمبر ایک عدالتیں، نمبر 2 مظالم، کرپشن، مہنگائی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں اپنی آواز ملا دو، اور عوام ایسا ہی کر رہے ہیں، آپ تعداد گننے یا طنز کرنے کی بجائے ریلیف دیدیں، دھرنوں کی رونق ختم ہو جائے گی۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہے کہ کوئی سیاسی لیڈر (عمران خان) عوام کو دیانت، سچ امانت اور لوگوں کے دکھ درد بانٹنے کا درس دے رہا ہے، ملتان کے اہم ترین الیکشن کا کم ترین ٹرن آوٹ اکثریت کی موجودہ نظام سے بے زاری کو ظاہر کر گیا۔ عامر ڈوگر کی کامیابی ظاہر کر رہی ہے کہ لوگوں نے عمران خان کی محبت میں امیدوار کی اہلیت اور ماضی کو فراموش کر کے ووٹ ڈالے دوسری طرف کراچی کا جلسہ ’’سرکاری طاقت کا بے مثال مظاہرہ تھا، نوجوان بلاول‘‘ جذباتی مقرر تو ہوسکتے ہیں مگر نوجوانوں کے نئے لیڈر یا نمائندہ نہیں کیونکہ اصل قوت، اختیار ‘‘موروثی قیادت کے ہاتھوں میں ہے اور تمام کلاس بہت جلد سابقہ، معدوم کلاس میں بدلنے والی ہے، اب الیکشن کاغذی منشور، دونمبر وعدوں، کھوکھلی باتوں، گھسی پٹی تقاریر جلی جوش خطابت سے نہیں جیتے جاسکیں گے، اب عوام کی طرف سے کارکردگی اور ریلیف نامی منشور کی بنیادر چنائو ہونے جا رہا ہے۔ سوال کسی حکومت یا سیاسی پارٹی کا نہیں بلکہ نظام کی بقاء کا ہے۔ عوام رائج الوقت نظام سے مکمل طور پر نا خوش اور غیر مطمن ہوچکے ہیں اسلئے مقابلہ یا الیکشن کی تیاری جلسوں سے یا جذباتیت سے نہیں بلکہ اصلاحات کے ایسے جامع، انقلابی ایجنڈہ سے کیا جائے، پیکج دیں جس کے تحت اشرافیہ سے ٹیکس وصول ہو، پروٹوکول میں تخفیف ہو، مراعات کا سائز کم کیا جائے عوام کیلئے سہولیات کی فراہمی میں رکاوٹیں دور کیجائیں، ادارے عوام کیلئے ہوں، ان کا کام عوام کا تحفظ ہو، صرف حکمرانوں کی حفاظت نہیں، امن و امان کے ذمہ دار سیاست پاک، سیاسی اور بھرتیوں رشوت، دبائو سے پاک ہوں، عوامی خدمت پر مامور ہوں ناکہ ایلیٹ کلاس کی غلامی میں پڑے رہیں یہ ہے دھرنوں کا دانشمندانہ حل۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024