”بدبو“ اتنی زیادہ نہیں تھی کہ ”حکمرانی نوٹس“ کی نوبت آتی۔ اس لئے توجہ نہیں دی۔ ایک دن محدود ایریا سے نکل کر ”واش بیسن“ تک آگئی۔ ایک دن اور گزرا تو کمرے میں ہلکی ہلکی سرسراہٹ محسوس ہونے لگی۔ کہتے ہوئے نظرانداز کر دیا کہ ”کچھ نہیں ہوتا“۔ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ دل کو سمجھاتے سمجھاتے چند دن بعد منظر ہی کچھ اور تھا۔ ایک تقریب سے واپسی کے بعد ”ٹی وی لاﺅنج“ میں قدم رکھے کہ بدبو کی لہروں سے لڑکھڑا گئے۔ گندی ہوا کا بھبھکا تیزی سے ناک میں گُھسا تو تفریحی تقریب کی ساری فرحت تمازت کڑواہٹ میں بدل گئی۔ نہ تو کِسی چیز کے جلنے والی بُو جیسا احساس تھا نہ ہی فرش کی صفائی کے لئے پُرانے کپڑے استعمال کیے گئے تھے۔ ”چلو دیکھتے ہیں“ کہتے کمرے میں داخل ہوئے تو دماغ کی نسیں کھنچ گئیں۔ اچھا کچھ کرتے ہیں۔ کِسی کو بُلوا کر ”چیک کرواتے ہیں“ والا رویہ بہت بڑی تکلیف میں ڈھل کر سامنے کھڑا تھا۔ آدھی رات کا وقت۔ سارا گھر متعفن ۔ نہ سو سکے نہ ہی جاگ پائے۔ آخر صبح کا انتظار کرنا تھا۔ اللہ اللہ کر کے سپیدہ سحر نمودار ہوئی۔ ”12 بجے“ تک ”پلمبر صاحب“ تشریف لائے۔ عجب بے برکتی ہے کہ رات کی لمبی تاریکی جاگنے میں گزر جاتی ہے اور صبح سحر کی لامحدود مفت روشنی سونے میں ضائع کر دیتے ہیں۔ دو گھنٹے لگانے کے بعد نقشہ ایسا تھا کہ سب پائپس اند ر سے باہر فرش پر ڈھیر تھے۔ اندرونی سسٹم کی خرابی کے دوران تو چند سیکنڈز وہاں ٹھہرنا محال ہو گیا کہ کُھدائی ہوتے ہیں ”بدبو“ نے پوری طرح سے اُچک کر بیرونی فضا کو مزید ناخوشگوار بنا دیا۔کچھ سمجھ آیا۔ ہمارے استفسار پر ”پلمبر“ بولا بیگم صاحبہ ”فلش سسٹم“ خراب ہو گیا تھا۔ سسٹم خراب ہونے سے سارا گند پائپوں میں پھنس گیا جس کی وجہ سے نکاسی کے راستے بند ہوگئے تبھی سارے گھر میں بدبو پھیل گئی۔ اب ٹھیک تو کردیا ہے مگر آئندہ سے احتیاط کیجئے کہ ہر تھوڑے عرصہ کے بعد نالیوں، پائپوں کی صفائی کرواتی رہیں کیونکہ گند زیادہ ہو جائے تو ٹھوس رکاوٹ بن کر غلاظت کا باعث بن جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ ”پانی“ زیادہ مقدار میں بہایا کریں تاکہ گند رُکنے نہ پائے۔ کلاس روم کا نظم و ضبط مثالی، ماحول پُرسکون، لیکچر دینے میں ازحد تازگی محسوس کر رہے تھے۔ تب ہی دائیں طرف سے ہلکی سی آواز اُبھری جو آناً فاناً بدمزہ ”پارلیمانی مزاج“ جیسے شور میں بدل گئی۔ حقیقت ِ حال جاننے کے لئے اُدھر کا رُخ کیا تو ”حسن“ کُرسی سے کھڑا ہوگیا۔ ”میڈم“ شہریار نے مجھے ”ریلوکٹا“ کہا ہے۔ کیوں کِس بات پر؟ بس میں نے اپنی پنسل واپس مانگی تھی۔ ہم دونوں کو چپ کراتے ہوئے واپس روسٹرم کی طرف چلے گئے کہ کچھ بچوں کی آپس میں سرگوشیوں کی گونج کانوں میں پڑی۔ ”یار“ یہ ”ریلوکٹا“ کِس کو کہتے ہیں؟ شاید کِسی کھانے پینے کی چیز کا نام ہے۔ نہیں آرائشی چیز کا نام ہے۔ دوسرے بچے نے بھرپور اعتماد کے ساتھ عِلمانہ سوچ جھاڑ دی۔ ”اوئے“ تمہارے گھر میں ”ٹی وی“ نہیں ہے۔ ”اوئے“ ایک اور غیرمہذب حملہ، آرام سے بات کرو، گدھے کی طرح دولتی مارنا ضروری تھا۔ اِس پر ایکدم کلاس ہنگامہ خیز آوازوں سے لرز اُٹھی۔ لرزش ہمارے دل میں بھی اُتر چکی تھی مگر معاملہ کو سنبھالنا ہماری ذِمہ داری تھی اس لئے چند ہنگامہ پرور بچوں کو کلاس سے نکال کر سکون سے لیکچر شروع کر دیا۔
اچھا تو ہم کہاں تھے ”میڈم“ ہم ”جمہوریت کے محاسن“ کا دوسرا پیراگراف پڑھ رہے تھے۔ دماغ میں دھماکہ سا ہوا مگر چُپ رہنے میں عافیت جانی۔ اچھا ”اسفند یار“ یہ بتاﺅ کہ جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی کیا ہے۔ ایک نہیں ”5 منٹ“ گُزر گئے مگر ”بچے“ کے منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکلا۔ کافی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد گویا ہوا کہ سب سے بڑی خوبی ”خاموشی“ ہے۔ کیا مطلب جب تک آواز بلند نہیں ہوگی عوام کے مسائل کیسے بیان کرو گے۔ اچھا خوبصورتی بتا دو انگنت مراعات، لامحدود تحاریک استحقاق۔ اوئے گُھس بیٹھئے تم تو کتاب سے نکل کر ایوان میں پہنچ گئے ہو۔ لنگور کے منہ والے۔ ہمیشہ پھیٹچر بات ہی کرنا۔ اب تو ہمارا پارہ بھی ہائی ہوگیا۔ کنالوں پر محیط گھروں میں پلنے پڑھنے والے، انگلش میڈیم میں پڑھنے والے بچوں کی زبان کا یہ معیار دیکھ کر لگا کہ سب اکارت ہوگیا۔ موجودہ ماحول میں ”چاند“ سے بھی اُستاد آجائے تو وہ بھی پاگل ہو جائیں۔ بنیادی اخلاقیات سے عاری نئی پود کِس کی مہربانی کے پھول چُن کر اپنے کالرز میں لگا رہی ہے۔ صفائی ستھرائی ضروری ہوچکی ہے۔ زبانوں کو بگاڑنے کا کلچر سوسائٹی میں بے طرح کے انتشار، بدمزاجی، جھگڑالو رویوں کو فروغ دے رہا ہے۔ وہ جمہوریت جو آج اِس ملک میں نافذ ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں نافذ ہے وہ آج صرف کتابوں میں مثالی طرز بن کر زندہ ہے۔ جمہوریت کا جو حسن لُڑھک لُڑھک کر ٹی وی شوز، سیاسی بیانات کی صورت ہمارے گھروں میں دھرنے دے چکا ہے اس کی مکمل طور پر تطہیر بے حد لازم ہو چُکی ہے۔
نجانے مجھے اِس نظام سے بدبو اُٹھتی کیوں محسوس ہو رہی ہے۔ چند سر پھرے، شوقیہ فنکار لوگوں کے ذِمہ ریاست کی باگ دوڑ نہیں دی جا سکتی۔ مثبت گفتگو، عمدہ الفاظ، میٹھی زبان جمہوریت کا حسن ہیں۔ اِس کی خوبصورتی ”برداشت“ ہے۔ مراعات نہیں، معلوم نہیں میرا دماغ ”پلمبر“ کی بات، ہدایات کی طرف کیوں بار بار جا رہا ہے۔ پانی بہانے کی بات سے ذہن میں آیا کہ مسلسل احتساب کا عمل گند جمع نہیں ہونے دیتا۔ ”72 سال“ انسانی زندگی کا ایک طویل دور مگر قوتوں کی زندگی میں چند لمحات مِثل بہت کچھ صاف ہو رہا ہے۔ بہت کچھ اُچھل اُچھل کر سامنے آرہا ہے تو صفائی کا مسلسل مطالبہ ہونے کے علاوہ بہت ساری چیزیں، معاملات ڈرائی کلینگ میں جاتے دیکھے جارہے ہیں۔ اب حالات چھوٹی چھوٹی چیزوں کی بجائے بڑے ہو شربا، ہولناک واقعات کے بداثرات زائل کرنے کی طرف مائل پرواز ہیں۔ عدلیہ، افواج پاکستان پر عوامی شنوائی، داد رسی کا بڑا بوجھ ا ٓپڑا ہے تو بہت کچھ میں ”حکومتیں“ بھی فیصلہ کن اقدام کے ساتھ مصروفِ کار ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38