مسئلہ وزیراعظم کے استعفے کا
ذہن کے دریچوں سے گرد جھاڑتے ہوئے ماضی کی یادوں کو تازہ کروں تو ۱۹۶۸ءکا زمانہ یاد آجاتا ہے۔ جب ۱۹۶۵ءکی پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے عسکری میدان میں تاریخ کے ایسے باب رقم کئے کہ پاکستان کی فوج دنیا کی صف اول کی فوج کہلائی اور اسلامی دنیا میں پاکستان ایک بڑی مملکت کی حیثیت سے ابھرا لیکن اعلان تاشقند نے سیاست کی میز پر پاکستان کو مشکلات سے دوچار کر دیا۔ اس وقت کے سربراہ مملکت صدر جنرل ایوب خان ایک باوقار اور دلیر شخصیت کی حیثیت سے ابھرے جبکہ خارجہ امور میں اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کا پوری دنیا میں ایک منفرد مقام تھا۔ بھٹو کی سیاسی بصیرت نے دنیا بھر میں پاکستان کو ایک اعلیٰ مقام عطا کیا مگر بدقسمتی اعلان تاشقند کے بعد بھارتی وزیراعظم روی شاستری روس میں ہی دل کا دورہ پڑنے سے اس دنیا سے سدھار گئے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ شاستری مذاکرات کی میز پر ایوب خان کو پچھاڑنے کے بعد خوشی سے چل بسا ہے۔ ادھر ایوب خان اور ذوالفقار بھٹو کے مابین اختلافات نے جنم لیا۔ بھٹو اپنی خارجہ پالیسی اور یو این او میں ”ایک ہزار سال تک لڑائی کے اعلان کے بعد پاکستان کی عوام میں اس قدر مقبول ہو گئے کہ ان کے ایک اشارے پر پاکستانی عوام کٹ مرنے کو تیار تھی۔
ایوب خان سے اختلافات کے بعد بھٹو نے ایوب خان کی رفاقت کو خیرباد کہا اور ایک علیحدہ سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کرتے ہوئے پارٹی منشور کا بھی اعلان کر دیا جس میں طاقت کا سرچشمہ عوام اور ملک کا معاشی نظام اسلامی سوشلزم کا منشور دیتے ہوئے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا دیا۔ پاکستان کی غریب عوام میں یہ نعرہ اس قدر مقبول ہوا کہ مشرقی و مغربی پاکستان کی عوام بھٹو کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگی۔ اسی زمانے میں بھٹو نے عوام کو بتایا کہ پاکستان کی دولت پر بائیس خاندانوں کا قبضہ ہے جو غریبوں کا خون چوس رہے ہیں۔ ان خاندانوں میں صدر ایوب خان کے بیٹے کا بھی نام تھا جو کہ ایک بین الاقوامی معیار کی ایک صنعت کا مالک تھا۔ یہ بات بھی ایوب خان کے لئے مشکلات کا باعث بنی۔
بھٹو نے ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا۔ پیپلزپارٹی کے جیالا نے ایوب خان کے خلاف اتنے شرمناک نعرے ایجاد کئے کہ اس زمانے میں اخلاقیات کے تمام در بند ہو گئے۔ گلی محلوں‘ سڑکوں‘ بازاروں بلکہ گھرگھر میں ”ایوب خان مردہ باد‘ ایوب ہائے ہائے اور اسی طرز کے اور نعرے بھی تھے۔ اس زمانے کے یادگار افراد اگر موجود ہیں تو انہیں یاد ہو گا کہ کس نوعیت کی تحریک تھی اور کس طرز کے نعرے تھے۔ مگر حیرت انگیز طور پر ایوب خان جو کہ مسلم لیگ کے سربراہ تھے اور غالباً ان کی کنونشن مسلم لیگ تھی اس کی طرف سے اس طرح کا کوئی جوابی نعرہ سننے کو نہیں ملا۔
بھٹو کی چلائی گئی تحریک اتنے زوروں پر تھی کہ ایوب خان عملاً مفلوج ہو چکے تھے۔ ملک پاکستان جو دو صوبوں مشرقی اور مغربی پاکستان پر قائم تھا کا نظم و نسق گورنروں کے ہاتھ میں تھا اور ملک کا دارالحکومت کراچی تھا۔ اسلام آباد کی بنیاد رکھی جا چکی تھی مگر دارالحکومت ابھی منتقل نہیں ہو ا تھا۔ ایوب خان اپنا زیادہ وقت چھٹیوں پر اپنے آبائی گا¶ں ”ریحانہ“ میں گزار تے۔ادھر ملک بھر میں بھٹو کے جلسے جلوس زوروں پر تھے اور ایوب خان مردہ باد اور ایوب ہائے ہائے کے نعرے زوروں پر تھے۔ اسی زمانے میں ایک افواہ اڑی اور اس نے زور پکڑ لیا۔ ایوب خان کے بیٹے کیپٹن گوہر ایوب کے علم میں اگر یہ بات آئی ہو تو وہ اس کی تصدیق کریں گے۔ کہتے ہیں ایوب خان ”ریحانہ“ میں اپنے گھر کے لان میں بیٹھے تھے کہ ان کا پوتا جو کہ تین چار سال کا ہو گا گھر کے اندر سے ”ایوب ہائے ہائے“ کا نعرہ بڑی معصومیت سے لگاتا ہوا اپنے دادا کی طرف آیا تو ایوب خان کا چہرہ غیرت اور غصہ سے سرخ ہو گیا۔ انہوں نے کہا جب یہ نعرے میرے گھر کے اندر آ گئے ہیں تو مجھے حکومت کرنے اور اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اسی لمحہ اقتدار سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کر لیا۔
ملک کی موجودہ صورتحال بھی کچھ اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔ وزیراعظم کے بارے میں کچھ اچھے خیالات کا اظہار نہیں کیا جا رہا بلکہ اب تو بات گھر تک آ گئی ہے۔ عزت‘ غیرت‘ شرافت اور حمیت کے سامنے یہ اقتدار کیا حیثیت رکھتا ہے۔ اگر چند ناعاقبت اندیش حواریوں کے حوصلہ بڑھانے پر سب کچھ دا¶ پر لگا دیا ہے اور عزت وغیرت کی کوئی پرواہ نہیں تو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ حواری کسی اور کی جھولی میں گر کر ایسے ہی راگ الاپنے لگیں گے اور پھر سوچیئے پوری دنیا میں پاکستان اور اس کے وزیراعظم کا کیا مقام ہو گا۔ میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ایک مرتبہ نظر سے گرا ہوا پھر کبھی بھی آنکھ کا تارا نہیں بن سکتا۔