افلاطون نے اپنی کتاب ’’The Republic ‘‘ میں مثالی ریاست کا نقشہ یوں کھنیچا کہ کیا حکمران کو ضلعی ہونا چاہئے یا فلسفی کو حکمران ہونا چاہئے۔ اس کی دلیل وہ کچھ یوں دیتا ہے کہ دونوں صورتوں میں بے انصافی اور ظلم کا احتمال نہیں رہے گا۔ ہم بھی گزشتہ ستر سالوں سے اس نجات دہندہ کے منتظر ہیں جو مملکت خداداد کو مثالی روپ عطا کر سکے۔ لیکن ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم اور وہ عناصر عوام تک پہنچ ہی نہیں پاتے کہ ایک مثالی ریاست کے خواب کو پورا کر سکیں۔ ایک بہت پرانی شیخ سعدی کی کہاوت ہے کہ ایک بلی بدحواسی کے عالم میں بھاگی جا رہی تھی کسی نے اس سے پوچھا کہ تیرے ساتھ کیا ماجرا ہے تو وہ بولی کہ اونٹوں کو بیگار میں پکڑا جا رہا ہے۔ اس نے کہا تیرا اونٹ سے کیا مقابلہ تو وہ بولی کہ ’’کوئی دشمنی میں کہہ دے کہ میں اونٹ ہوں اور میں پکڑی جائوں تو کیا ہو گا‘‘، درحقیقت جب سیاہ اور سفید میں فرق مٹ جائے تو اس قسم کے واقعات جنم لیتے رہتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ظلم اور ناانصافی کو کیسے ختم کیا جائے تو کہاوت ہے کہ کسی گائوں میں چوری ہو گئی جب کھُرا نکالا گیا تو وہ نمبر دار کے گھر تک جاتا تھا۔ نمبردارقدرے حیران و پریشان ہوا۔ اس نے تمام لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ جو ہوا سو ہوا آگے کیلئے ایسا لائحہ عمل تیار کیا جائے کہ چور بھی پکڑا جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اس دن کے بعد سے نہ ہی کوئی لائحہ عمل تیار ہو سکا اور نہ ہی کوئی چور پکڑا جا سکا۔ ہمارا معاملہ ذرا مختلف نوعیت کا ہے کہ جمہوریت کی داغ بیل ڈالتے ہوئے ہم یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی بھی لازمی شرط ہے۔ لوگوں کو انصاف مہیا کرنا ملک کے استحکام کی ہی بنیاد ہے۔ جمہوریت ایک حقیقت ہے اور حقیقت سفید ہوتی ہے یا سیاہ ہوتی ہے ہمیں سفید رخ دیکھنا ہو گا دواشخاص ایک بورڈ پر جھگڑ رہے تھے ایک کا دعویٰ تھا کہ بورڈ سفید ہے اور دوسرے کا ماننا تھا کہ سیاہ ہے ایک راہ گیر ادھر سے گزرا اس نے دونوں کو کہا کہ ارے نادانو۔ بورڈ ایک طرف سے سفید ہے اور دوسری طرف سے سیاہ ہے۔ بس یہی حقیقت ہے اور اسی میں مسائل کا حل موجود ہے لیکن ہم نے اپنی سیاسی معاشرتی زندگی کے معاملات کو انتہائی پیچیدہ بنا لیا ہے۔ جس ی مثال اس سفید ہنس سے دی جا سکتی ہے کہ ریاست کے کسی والی نے کہا کہ ریاست کے سب سے خوبصورت ہنس راج کو پکڑ کر لائو۔ جب ہنس راج کو کوئی نہ پکڑ سکا تو دانا کو طلب کیا گیا۔ دانا نے کہا اے ریاست کے والی تمہارے لوگوں نے ہنس راج کے تعاقب میں بہت وقت برباد کیا ہے۔ اس کو پکڑنے کا نہایت آسان طریقہ ہے وہ کیا والی نے پوچھا دانا نے کہا کہ میںنے سنا ہے کہ اگر ہنس راج کے سر پر موم رکھی جائے اور وہ پگھل کر اس کی آنکھوں میں چلی جائے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے۔ لہذا اندھے ہنس راج کو آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے۔ جان جوکھوں کا کام تھا لہذا سب نے مشکل کام سمجھ کر چھوڑ دیا۔ ہمارے مسائل بھی اس ہنس راج کی طرح ہیں جو قابو میں نہیں آ رہے۔ ایک مزاح نگار نے لکھا کہ ہم چور پکڑنے کی بجائے دوسری بلی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ دوسری بلی کیا ہے جب ان سے پوچھا گیا تو وہ بولے کہ دو چور کسی گھر میں چوری کے ارادے سے گئے۔ جب سامان لوٹ کر وہ واپس آ رہے تھے تو ایک چور کا سامان کسی چیز سے ٹکرایا۔ مالک نے پوچھا کون ے۔ چور نے کہا میائوں، دوسرے چور کا پائوں بھی اسی چیز سے ٹکرایا پھرمالک مکان نے پوچھا کون ہے۔ چور بدحواسی میں بولا ’’دوسری بلی‘‘ درحقیقت چور، قاتل، اورلٹیروں تک تحقیقات کا آغاز ہی ’’دوسری بلی‘‘ سے ہو تو معاملہ حل ہونے کی بجائے بگڑتا چلا جاتا ہے۔ ایک مغربی مفکرنے لکھا کہ ترقی پذیر ممالک بلیاں ہیں انکے گلے میں جمہوریت کی گھنٹی ڈالنا ازحد ضروری ہے۔ ہم گزشتہ 70 سالوں سے جمہوریت کی گھنٹی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کے ساتھ قانون کی حکمرانی اور اداروں کا فعال ہونا لازمی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی سیاسی رہنما سے ایک بار سوال کیا گیا کہ ملک میں عدم استحکام کی وجہ تو وہ بولے، بیرونی سازشیں پھر سوال کیا گیا کہ بہتری کیلئے کیا اقدامات ضروری ہیں۔ وہ بولے ہمیں نئی تاریخ مرتب کرنا ہو گی۔
مشتاق درد عشق جگر بھی دل بھی ہے
کھائوں کدھر کی چوٹ بچائوں کدھر کی چوٹ